Jahannam
جہنم
وزیر اعظم نے میانوالی کے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بہت اچھی تقریر کی۔وہ مقرر تو بہت اچھے ہیں۔وہ کہہ رہے تھے کہ مہنگائی صرف پاکستا ن کا نہیں، دنیا کا مسئلہ ہے۔واقعی مہنگائی دنیا کا مسئلہ ہے، لیکن جب بات خلافت ِراشدہ کی ہو رہی ہو، تو پھر مسلم سلطنت کا امیر حالات سے نمٹنے کے لئے کیا کرتا ہے؟
ایک دفعہ عرب میں شدید قحط آیا۔خشک سالی ایسی آتش فشاں تھی، کہ اس نے زندگی کی ہر نمود کو راکھ بنا کر رکھ دیا۔چنانچہ بعد میں اسے "سالِ خاکستر " اور عام الر مادہ کے نام سے یادکیا جاتا تھا۔اردگرد کی ساری صحرائی آبادیاں ہجرت کر کے مدینہ آ گیں۔ مدینہ اگرچہ مملکت کا مرکز ی مقام تھااور خوشحال بھی،لیکن پھر بھی وہاں اتنا غلہ ریزرو میں تو نہیں رکھا جا سکتا تھا کہ وہ اس قدر کثیر آبادی کے لئے کا فی ہو جائے ،یہ ایسا لا ینحل مسئلہ اور نا گہا نی آفت تھی جس سے بڑی سے بڑی مستحکم اور وسیع مملکت کے مد بر ین بھی حواس با ختہ ہو جائے۔لیکن حضرت عمر نہ تو اس قدر پریشان ہوئے کہ آپ کے اوسان خطا ہو جائے، اور نہ ہی یہ کہہ کر ہا تھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے کہ یہ "خدا کی طرف سے آئی ہوئی بلا ہے۔بندے اس کا علا ج کیا کر سکتے ہیں !"
انہوں نے ایک تقدیرِالہٰی سے دوسری تقدیر ِالہی کی طرف رخ موڑا۔اور کامل دل جمعی سے اس مصیبت کا مقا بلہ کرنے کے لئے تیار ہوگئے۔شام،فلسطین اور عراق کے گورنر وں کے نام (خطرہ کا آلا رم) بھیجا اور کہا کہ "کیا تم اسے گوا را کرو گے کہ ہم ہلاک ہو جائیں اور تم زندہ ر ہو"۔اس امداد طلبی پر انہوں نے دل کی اس کشادگی سے لبیک کہا جس سے ان کی توقع تھی۔حضر ت عمر و بن عاص نے کہا کہ اطمینان رکھئے،میں غلہ کا ایسا قافلہ بھیج رہا ہوں جس کا اگلا سرا آپ کے پاس ہو گا اور پچھلا میرے پاس۔حضرت ابو عبید ہ ابن الجرا ح چار ہزار ا ونٹوں کا قافلہ لے کر خود عازمِ مدینہ ہو گئے۔حضرت معاویہ بن ابی سفیان نے شام سے تین ہزار اور سعد بن ابی وقاص نےا یک ہزار او نٹوں کے قا فلے روانہ کئے۔
علاوہ بریں حضرت عمرو بن عاص نے پانچ ہزار کمبل اور حضرت معاویہ نے تین ہزار چغے بھیجے۔انہوں نے امداد بھیجنے میں زرا سا تساہل نہ برتا، لیکن اونٹوں نے تو اپنی رفتار سے چلنا تھا ،وہ انہیں ہوائی جہاز یا ریل نہیں بنا سکتے تھے۔ مدینہ کے باہر ہزار ہا کی تعداد میں بھو کے مرد ،عو رتیں ،بچے تھے۔حضرت عمر اس" صبر طلبیِئ عشق اور بیتا بئی تمنا " کی کش مکش سے بے غا فل نہیں تھے۔انہوں نے رسد کی آمد تک تمام انتظا مات اپنے ہا تھ میں لئے ،سب سے پہلے انہوں نے یہ کہا کہ مدینہ میں جس قدر کھا تے پیتے گھر انے تھے ،ان کے افراد ِخا ندان کی تعداد کے برابر باہر سے آنے والے افراد ان کے ساتھ ملا دئے ،اور کہہ دیا جتنا کھانا روز پکتا تھا اسے دگنی تعداد میں تقسیم کر لیا جائے ،اور ان کا ارشاد تھا کہ نصف خوراک سے انسان مرتا نہیں۔
جب آنے والوں کا ہجو م زیادہ ہو گیا، تو آپ نے اس انتظا م کو بدل دیا اور حکم دے دیا کہ مدینہ میں کسی کے گھر انفرادی طور پر کچھ نہیں پکے گا۔غذا کا سامان یکجا کر لیا جائے اور جو کچھ پکے،اہلِ مدینہ اور باہر سے آنے والے، ایک مشترکہ دسترخوان پر بیٹھ کر تنا ول فرما لیتے تھے۔اس دستر خوان کی وسعت کا اندازہ اس سے لگا ئیے، کہ اس پر کھا نے والوں کی تعداد تقریباً دس ہزار تھی، اور جن معزوروں،بچوں،بوڑھوں،عورتوں کو ان کی اقامت گا ہ میں کھانا پہنچا یا جاتا تھا ، ان کی تعداد تقریباً پچاس ہزار۔بقیہ 258 ،اس اشترا کِ طعام کی کیفیت یہ تھی، کہ ایک دن آپ ایک بدو کے ساتھ مل کر ،ایک طشت میں کھا نا کھا رہے تھے۔طشت میں گھی میں چوری کی ہوئی روٹی تھی۔آپ نے دیکھا کہ وہ بدو "ندیدوں " کی طرح طشت میں ُ اس طرف ہاتھ ما رہا تھا،جس طرف گھی زیادہ تھا۔
حضرت عمر نے اس سے پوچھا کہ کیا تم نے گھی کبھی نہیں کھایا ؟اس نے کہا جب سے قحط پڑا ہے نہ اس نے خود گھی یا تیل کھایا ہے،نہ کسی کو کھاتے دیکھا ہے۔یہ سن کر آپ نے قسم کھائی کہ جب تک قحط رہے گا، وہ گوشت اور گھی کو ہاتھ تک نہیں لگائیں گئے،صرف زیتون کے تیل کے ساتھ سوکھی روٹی کھا ئیں گئے۔مسلسل پریشانی پیہم مشقت ،دن ،رات کی تگ و تا ز اور اس پر اس تبدیلی غذا کا نتیجہ یہ ہوا ،کہ آپ کے چہرہ کا رنگ سیاہ پڑ گیا (حا لا نکہ وہ سرخ و سپید تھے) پیٹ میں قرا قر رہنے لگا۔ دن بدن لا غر ہوتے چلے گئے۔اس پر آپ کے رفقاء کو تشویش لا حق ہوئی اور انہوں نے آپ سے کہا ،کہ آپ اس تبدیلی غذا کو برداشت نہیں کر سکیں گے۔اس لئے آپ اپنے معمول کی غزا کی طرف پلٹ آئیے۔
اس کے جواب میں آپ نے وہ فقرہ کہا کہ جسے دنیا کے سربراہانِ مملکت اپنی زندگی کا اُصول بنا لیں تو یہ جہنم، مبدل بہ فر دوس ہو جائے۔ آپ نے فرمایا کہ "مجھے لو گوں کی تکلیف کا احسا س کس طرح ہو سکتا ہے ،جب تک مجھ پر بھی وہی کچھ نہ گز رے جو ان پر گزر تی ہے ۔ دنیا میں حوا دس تو رونما ہوتے ہی رہتے ہیں لیکن خوش بخت ہوتے ہیں وہ آفتِ رسد گان جنہیں اس قسم کا سر بر اہ میسر آ جائے،جن کے دم سے جہنم ' ' مبدل بہ فر دوس" ہو جائے ۔