1.  Home
  2. Blog
  3. Kiran Arzoo Nadeem
  4. Ishq Ki Aik Hi Jast Ne Taye Kar Diya Qissa Tamam

Ishq Ki Aik Hi Jast Ne Taye Kar Diya Qissa Tamam

عشق کی ایک ہی جست نے طے کر دیا قصہ تمام

مجھے پچھلے دنوں اپنی فیملی کے ساتھ کا لام جانے کا اتفاق ہوا، قدرتی حسن کو تصویروں پر دیکھنا یا سفر ناموں میں پڑھنا اور حقیقی آنکھ سے دیکھنے میں کیا فرق ہوتا ہے؟ کوئی تصویر کوئی سفر نامہ اس حسن کو مکمل بیان نہیں کر سکتا، جو آپ کی حقیقی آنکھ آپ کو دیکھاتی ہے۔ اسی رب نے قرآن میں سیرو فی الارض کا زکر کیا ہے کہ زمین میں چلو پھرو اور خدا کی قدرت کو دیکھو۔

پھر قرآن کی آیتیں جن میں متعدد مقامات پر کہا گیا ہے کہ ان میں عقل والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ اس جنت نظیر کو کس طرح ختم کرنے کی کوشش کی گئی، طالبان کس طرح سوات میں داخل ہوئے کس طرح انہوں نے جھوٹ موٹ مزہب کا سہارا لیا اور نمازیں پڑھنے پر زور دیتے رہے ہمارا قیام کالام کے ramada inn hotel میں تھا۔ وہاں کے owner اعجاز صاحب سے میری تفصیلی گفتگو ہوئی۔

انھوں نے بتایا کے سوات آپریشن کے دوران کرفیو لگا ہوا تھا اور عام لوگوں کو گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں تھی مہینہ میں ایک دفعہ گھر سے نکلنے کی اجازت دی جاتی اور گھنٹہ بھر کا فاصلہ آٹھ آٹھ گھنٹے میں طے ہوتا تھا کیونکہ پہاڑوں کے درمیان بغیر کسی سواری کے جھپتے چھپاتے منزل پر پہنچ پاتے تھے۔ ان کی تکلیف کا اندازہ وہی لوگ لگا سکتے ہیں۔

مہوڑنڑ جاتے ہوئے راستہ میں میں نے جیب کے ڈرائیور سے مزید طالبان کے بارے میں پوچھا، تو اس نے بتایا کہ طالبان کو ہم با آ سانی پہچان سکتے تھے۔ کیونکہ وہ ہم میں سے نہیں تھے، ان کی زبان کچھ اور تھی، آپریشن مکمل ہونے کے بعد بھی کچھ عرصہ آرمی نے وہاں قیام کیا، کیونکہ طالبان اب بھی کچھ جگہوں پر چھپے بیٹھے تھے۔ مقامی لوگ پاک آرمی کو اس کی اطلاع دیتے، اس طرح مقامی لوگوں نے آرمی سے تعاون کر کے اپنی جنت نظیر کو بچا لیا۔

پاکستان کا قیام کوئی عام واقع نہیں تھا۔ ایک نظریہ کی بناء پر وجود میں آیا تھا، نظریہ یہ تھا کہ ہم نے پا کستان کو ایسی ریاست بنانا ہے۔ جہاں اسلام کے اُصولوں کو آزما سکیں، اس لئے اس کی حفاظت نا صرف ضروری بلکے فرض ہے اور اس کی حفاظت کرتے کرتے جان سے گزر جائے وہ شہید ہے۔ مدینہ میں ایک شخص تھا قرمان نامی اس کی مز موم حرکات اس قدر واضح تھیں کہ حضورﷺ فرماتے تھے کہ یہ شخص جہنمی ہے۔

غزوہ اُ حد کے دن اُس نے کفارِ قریش کا بڑی بے جگری سے مقا بلہ کیا۔ اکیلے سات آٹھ مشرکوں کو قتل کیا، صحابہ اس کی بہادری پر خوش تھے اور حیران تھے کہ ایسے شخص کے متعلق مخبر صادق صہ نے کیسے فرمایا کہ یہ جہنمی ہے، وہ زحمی ہوا تو صحابہؓ اس کے پاس گئے اور اس سے کہا کہ " قزمان، ہم تجھے بشارت دیتے ہیں تو نے بہت بڑا کام کیا ہے؟

اس نے کہا بشارت کاہے کی؟ یہ تو مکہ اور مدینہ والوں کی جنگ تھی۔ قومی حمیت نے اُبھارا اور میں میدان میں آگیا، یہ نہ ہوتا تو میں کبھی نہ لڑتا اب صحابہؓ کی سمجھ میں آگیا کہ میدانِ جنگ میں مسلمانوں کی طرف سے کفار کے مقابلہ میں لڑتے ہوئے، جان دے دینے کے باو جود مرنے والا کس طرح جہنمی رہتا ہے، شہادت اس وقت ہے جب جزبہ معرکہ حق کی مدافعت ہو۔

آیک صاحب عمرو بن ثابت جو اصیرم کے نام سے مشہور تھے، مسلمانوں کے ساتھ احسان و مروت سے پیش آیا کرتے تھے لیکن اسلام نہیں لائے تھے۔ غزوہ اُ حد کے دن اُن کے دل میں صداقت نے جوش مار اور مسلمان ہوئے بغیر کسی کو خبر کیے سیدھے میدانِ جنگ میں جا پہنچے جا نفرو شانہ لڑے اور شہید ہو گئے، انہی کے متعلق (روایت حضرت ابو ہریرہ) مروی ہے کہ حضورﷺ نے فر مایا اصیرم نے ایک وقت کی نماز بھی نہ پڑھی لیکن سیدھا جنت میں چلا گیا۔

عشق کی ایک جست نے طے کر دیا قصہ تمام

اس زمین وآسمان کو بے کراں سمجھا تھا میں

Check Also

Neo News Ke 9 Saal

By Najam Wali Khan