1.  Home
  2. Blog
  3. Kiran Arzoo Nadeem
  4. Hazaron Saal Nargis Apni Benoori Pe Roti Hai

Hazaron Saal Nargis Apni Benoori Pe Roti Hai

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

قائدِاعظم کا یومِ پیدائش جب بھی آتا ہے تو مجھے اقبال کا یہ شعر یاد آ جاتا ہے جو ہمیشہ یہ لگتا ہے کہ انھوں نے اپنے بارے میں، سر سید احمد خان اور قائدِاعظم کے بارے میں کہا تھا۔

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

قائدِاعظم پختہ ارادے کے مالک تھے، لیکن سب سے بڑی بات یہ تھی کہ قائدِاعظم کے کردار کی گواہی اپنے اور بیگانے سب دیتے تھے اور اب تک دیتے چلے آ رہے ہیں۔ میں یہ واقعات پہلے بھی اپنے کالمز میں لکھتی رہی ہوں لیکن بہت سے واقعات کی تقرار نوجوان نسل کو یہ سمجھانے کے لئے کہ لیڈر درحقیقت کس کو کہتے ہیں، ضروری ہو جاتی ہے۔ کیونکہ آج کل کے دور میں سیاست میں سب اخلاقی قدریں ناپید ہوتی جا رہی ہیں۔

قائدِاعظم کو وائسرے نے ملاقات کے لئے بلایا۔ گیارہ بجے کا وقت مقرر ہے۔ قائدِاعظم وقت کے بڑے پابند ہوا کرتے تھے۔ گھنٹی پر گھنٹی بج رہی ہے کہ آئے کیوں نہیں؟ خود جواب نہیں دے رہے، پرائیویٹ سیکرٹری کو کہتے ہیں کہ ان سے کہیے کہ میں اپنی سہولت کے مطابق آؤنگا، تھوڑا وقت لگے گا، وائس رائے کو جواب دیا جا رہا ہے، سوا گیارہ بجے پہنچے۔

آج یہ بات ہمارے اور آپ کے نزدیک بہت چھوٹی سی ہے۔ لیکن اس نزا کت کو سامنے رکھیں کہ وہ وائس رائے ہے۔ وقت مقرر ہے۔ خیر قائدِاعظم پہنچے تو وائسرائے نے بات شروع کی کہ یہ جو بار کونسل کا قصہ ہے، میں اس میں کچھ وضاحت کرنا چاہتا ہوں، قائدِاعظم نے کھڑے کھڑے ہی کہہ دیا کہ مجھے آپ کی وضاحت کی کوئی ضرورت نہیں اور کمرے سے باہر نکل آئے۔

اس واقع پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک ہندو لیڈر کانجی دوارکا داس لکھتا ہے کہ یہ دیکھ کر دل میں مسرت کی ایک لہر اُٹھتی ہے کہ ہندوستان میں مسٹر جناح جیسی دیانت کا کم از کم ایک لیڈر تو ہے جس میں اس قدر صداقت اور بےباکی تھی کہ اس نے انگریز وائسرائے کے منہ پر کہہ دیا کہ وہ اُسے کیا سمجھتا ہے؟ جبکہ باقی ہندوستانی لیڈر جن میں کانگرس ہائی کمان بھی شامل تھی۔

اس وائسرائے کو بہترین انگلش جنٹلمین اور بہترین عیسائی جنٹلمین جیسے خطابات سے نواز کر اس کی چابلوسی کرتے رہتے تھے۔ مسز لکشمی پنڈت (پنڈت نہرو کی بہن) نے کہا تھا کہ اگر کانگرس کو جناح جیسا ایک لیڈر مِل جائے تو لڑائی انگریز کے ساتھ آج ختم ہو سکتی ہے۔ نظریہ ضرورت ان کی لغت میں ہی نہیں تھا۔ اُصولوں میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔

یہ سب کچھ سنتے چلے جائیں اور آج کل کی سیاست کو ملاخطہ کیجیے۔ کلکتہ چیمبر میں ایک سیٹ خالی تھی، آج ہم نہیں سمجھ سکتے کیونکہ ہم سب مسلمان ہیں اور ساری سیٹیں ہماری ہیں۔ ہندوؤں کے مقابلہ میں کلکتہ چیمبر میں ایک سیٹ، وہ اس بات کا test تھی کہ مسلمانوں کی کتنی strength ہے؟ اصفہانی وہاں سیٹ کے لئے کھڑے ہوئے، انتخاب کے دو دن پہلے ایک اور شخص بھی کھڑا ہوگیا، انھیں تشویش ہوئی کہ ووٹ بٹ جائیں گے، عبدالرحمٰن صدیقی اُن کے ساتھی تھے۔ وہ ایک شام آئے، اصفہانی نے خود اپنی کتاب میں اس واقعہ کو لکھا ہے، کچھ آہستہ آہستہ آپس میں باتیں کر رہے تھے، قائدِاعظم نے کہا کہ قر یب آ کر مجھ سے بھی بات کرو۔

انھوں نے آ کر کہا کہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ وہ جو فریقِ مقابل اُمیدوار کھڑا ہوا تھا، اُس کے ساتھ بات ہوگئی ہے، اُس نے کہا ہے کہ میری ضمانت کا روپیہ آپ دے دیں تو میں بیٹھ جاتا ہوں اور اصفہانی بلامقابلہ کامیاب ہو جائیں گے، آپ نے سنا تو آپ کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا اور کہا کہ فریقِ مخالف کو بیٹھا دینا، اس کی زرِضمانت واپس دے کر یہ بلا واسطہ رشوت نہیں تو اور کیا ہے؟ ایسا کبھی نہیں ہوگا؟ جاؤ اور اُس سے کہو کہ ہم مقابلہ کریں گے؟ ہم ناکام رہ جائیں گے؟ ایک ایک سیٹ نہیں ایک ایک ووٹ بہت قیمتی تھا اُس زمانے میں۔

عبدالرحمٰن کو واپس بھیج دیا اور معاملہ منسوخ کر دیا اور پھر جو اُصول بیان کیا وہ سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہے۔ "میرے عزیز یاد رکھو، پبلک لائف میں بددیانتی، پرائیویٹ لائف سے زیادہ اہم ہوتی ہے، پبلک لائف میں بددیانتی سے ہزاروں لوگ گمراہ ہوتے ہیں جن پر آپ کا اعتماد ہوتا ہے۔ یاد رکھنا سیاست میں کسی مقام پر ایسا نہ کرنا کہ اُصولوں کو چھوڑ کر کوئی چیز خرید لو۔

خان صاحب سے ایم پی ایزز کے ایک وفد نے ملاقات کر کے بتایا کہ انھیں کروڑوں روپے کی آفرز آ رہی ہیں۔ پی ٹی آئی کو چھوڑ کر دوسری طرف ووٹ ڈالنے کی تو آپ کو معلوم ہے کہ ریاستِ مدینہ کے دعویٰ دار خان صاحب نے کیا کہا ہوگا؟

خان صاحب کہتے ہیں کہ آپ پیسے پکڑ کر ووٹ پی ٹی آئی کو ڈال دیں۔ اب قائدِاعظم کے سنہری اُصول پر غور کریں اور آج کل کی سیاست کے کھیل پر غور کریں۔ ہم اپنے نوجوانوں کو کیا درس دے رہے ہیں؟

قائدِاعظم کی تقاریر انگریزی میں ہوا کرتی تھیں اور مجمع pin drop silence تھا۔ کسی انگریز رپورٹر نے مجمع میں موجود کسی فرد سے پوچھا کہ آپ کو کچھ سمجھ آ رہی ہے کہ قائدِاعظم کیا کہہ رہے ہیں؟ تو اُس نے جواب دیا کہ سمجھ تو نہیں آ رہی لیکن ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ جو کچھ کہا جا رہا ہے اُس کا ایک ایک حرف سچ ہے، کیا بات ہے۔ پتہ نہیں ہمیں کب ایسا لیڈر نصیب ہوگا؟

قائدِاعظم پاکستان بننے کے بعد جو ایک سال زندہ رہے وہ اپنی قوتِ ارادی کی بناء پر زندہ رہے۔ قائدِاعظم نے قیامِ پاکستان سے چھ، سات سال پہلے جو اپنے test کروائے، اپنے پرائیویٹ ڈاکٹر سے جو bombay کا پارسی تھا، اس کی زبانی معلوم ہوا کہ میں نے قائدِاعظم کو بتایا کہ آپ کے دونوں lungs ماؤف ہو چکے ہیں۔ علاج اس کا صرف یہ ہے کہ آپ کامل آرام کیجئے، کم از کم ایک سال Rest کیجئے۔ ورنہ موت بہت قریب ہے۔ جس مردِ مومن نے دنیا کا نقشہ بدل دینا تھا اس کے پاس آرام کا وقت کہاں تھا؟

معلوم ہے قائدِاعظم نے جواب میں ڈاکٹر کو کیا کہا؟ اس سے کہا کہ یہ بات نہ تمھاری زبان پر آئے گی اور نہ میری زبان پر آئے گی، x ray کو cabnet میں سیل کر دو اور چابی مجھے دے دو۔ یہ بات ڈاکٹر نے قائدِاعظم کی وفات کے بعد بتائی۔ اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے ماؤنٹ بیٹن لکھتے ہیں کہ کاش ہمیں معلوم ہو جاتا کہ اس شخص کی زندگی اتنی تھوڑی رہ گئی ہے تو میں پاکستان کے قیام میں اتنی جلدی نہ کرتا، پھر کوئی شخص ہم سے پاکستان نہ لے سکتا۔

انگریزوں اور ہندوؤں کی مخالفت تو قابلِ فہم تھی لیکن ہمارے اپنے دیوبند، احرار والے، بریلوی، انصار، جماعت اسلامی تقریباََ تمام مذہبی جماعتیں پاکستان کے مطالبہ کے خلاف اکٹھی ہوگئیں۔

کیا کچھ نہیں جھیلا، اس مردِ مجاہد نے۔

قائدِاعظم نے ایک پارسی خاتون سے شادی کی، لیکن اس کو مسلمان کر کے، اس پر مذہبی جماعتوں کی طرف سے اس شعر کا پرچار کیا گیا۔

اک کافرہ کے واسطہ اسلام کو چھوڑا

یہ قائدِاعظم ہے کہ کافرِ اعظم

پھر پاکستان کے قیام کے بعد یہ تمام مذہبی جماعتیں پاکستان تشریف لے آئیں۔ تاریخ کے حقائق بڑے تلخ ہیں۔ قائدِاعظم نے بڑے دھڑلے سے کہا تھا کہ پاکستان میں نہ تو مذہبی پیشوائیت، نہ تھیا کریسی، نہ سرمایہ داری کی گنجائش ہوگی، یہاں پر صرف خدا کی کتاب کی حکمرانی ہوگی۔ دنیا اس کتاب کی حکمرانی سے تو ڈرتی ہے۔ ایک مردِ مومن کی کاوش نے خون کا قطرہ بہائے بغیر یہ ملک ہمیں لے کر دے دیا۔ جو خون خرابہ ہوا وہ نکل مکانی کے وقت ہوا ہم اتنے برسوں میں خدا کی کتاب کی حکمرانی قائم نہیں کر سکے۔

کیا اب ہمیں دوبارہ ایسا کوئی مردِ مومن مل سکے گا جو یہاں پر خدا کی کتاب کی حکمرانی قائم کر سکے؟ اے کاش! قائدِاعظم کو اتنی مہلت مل سکتی۔

Check Also

Khawaja Saraon Par Tashadud Ke Barhte Waqiat

By Munir Ahmed Khokhar