Do Qaumi Nazriya Aaj Bhi Zinda Hai
دو قومی نظریہ آج بھی زندہ ہے
پاکستان اپنا 76 واں یومِ آزادی منا رہا ہے اور ایک دفعہ پھر وقت نے دو قومی نظریہ کو حق ثابت کر دیا اور اس نظریہ کو باطل کہنے والوں کو زلیل و خوار ہونا پڑا۔
دو قومی نظریہ ایک دفعہ پھر اپنی بھر پور طاقت کے ساتھ ابھرا، جب حسینہ واجد (پاکستان کو دو لخت کرنے والا مجیب الرحمن) کی بیٹی کو بنگلہ دیش سے بھاگ جانا پڑا۔
جنرل عاصم منیر نے بھرپور طریقے سے دو قومی نظریہ کو خلیج بنگال میں ڈبونے والوں کے متعلق سوال کیا کہ آج وہ کہاں ہے؟
ِیہ الفاظ اس دو قومی نظریہ کے حق ہونے کو پچاس برس بعد دوبارہ ثابت کرتے ہیں۔ حق تو ثابت ہونا ہی ہوتا ہے اور وہ ہو کر رہا۔ تکرار طبعیت پر اچھا اثر نہیں چھوڑتی لیکن بعض خالات میں یہ نا گزیر ہو جاتی ہے۔
آج کے دن کی مناسبت سے میں اندرا گاندھی کا پارلیمنٹ میں کیا گیا خطاب دوبارہ نقل کر رہی ہوں۔
سقوطِ ڈھاکہ کہ بعد بھارت میں بہت بڑا جشن منایا گیا۔ پارلیمان نے اس کامیابی پر مسز اندرا گاندھی کی خدمت میں ہدیہ تبریک پیش کیا اس کے جواب میں اندرا گا ندھی نے یہ نہیں کہا کہ ہم نے بہت بڑا میدان مارا ہے۔ اُس نے یہ بھی نہیں کہا کہ ہم نے ایک ملک فتح کر لیا ہے اُس نے کہا تھا کہ یہ کامیابی نہ ہماری فوجوں کی کامیابی ہے نہ ہی حکومت کی کامیابی ہے، یہ حق پر مبنی نظریہ کی کامیابی ہے، اُس نظریہ کے جو باطل پر مبنی تھا۔ مسلمانوں نے تحریکِ پاکستان کی بنیاد باطل کے نظریہ پر رکھی تھی۔ ہم انہیں بار بار سمجھاتے رہے کہ اُن کا نظریہ غلط ہے۔ یہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے نہ مانا اور اپنی ضد پر قائم رہے۔ اب پچس سالہ تجربہ نے بتایا ہے کہ جو ہم کہتے تھے وہ حق تھا اور اُن کا نظریہ باطل۔ یہ ان کے باطل نظریہ کی شکست ہے۔
بنگلہ دیش کے اُس وقت کے قائم صدر مسٹر نذر اسلام یہ فرما رہے تھے کہ "ہماری فتح، نہ کسی فوج کی فتح ہے نہ کسی ملک کی۔ یہ فتح حق کی باطل پر ہے۔ تقسیمِ ہند سے پہلے سر پھرے مسلمانوں کو لاکھ سمجھایا گیا کہ قومیت کی بنیاد پر مملکت کی تشکیل پر اصرار نہ کرو، یہ غلط مفروضہ ہے۔ سقوطِ ڈھاکہ نے ثابت کر دیا اور جو حشر آج مشرقی پاکستان کا ہوا ہے وہ کل مغربی پا کستان کا ہوگا"۔
مجیب الر حمن نے پا کستان سے رہا ہونے کے بعد ڈھاکہ پہنجنے پر کہا کہ "میری قوم، سیکولر ازم، سو شلزم، جمہوریت کے نظریات کی حامی ہے۔ مجھ سے اکثر پو چھا جاتا ہے کہ میری پالیسی اور اندرا گاندھی کی پالیسی میں اس قدر توافق کیوں ہے اس کا جواب صاف اور واضح ہے کہ ہم دونوں کے نصب العین، زاویہ نگاہ، اور اقدارِ حیات ایک ہیں"۔ (پا کستان ٹائمز 11 جنوری 1971)
یہ سب دو قومی نظریہ کے مخالف!
آج کہاں ہیں؟ 76 واں یومِ آزادی آج پھر دو قومی نظریہ کو زندہ کر رہا ہے!