Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Kiran Arzoo Nadeem
  4. Bari Mushkil Se Hota Hai Chaman Mein Deedawar Paida

Bari Mushkil Se Hota Hai Chaman Mein Deedawar Paida

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا‎

مجھے قائدِ اعظم کے الفاظ یاد آ رہے ہیں جو یہ ہیں

I do not believe in taking right decision. i take decision and make them right.

وہ فولادی قوتِ ارادی کی حامل شخصیت تھی۔ اُمتِ مسلمہ کا لیڈر۔۔ یہ لفظ پچھلے دنوں سیاست میں بہت استعمال ہوا۔ لیکن حقیقتاً اُمتِ مسلمہ کا لیڈر صرف محمد علی جناح تھے، آج ہم نے اسرا ئیل کو اس وجہ سے تسلیم نہیں کیا اور دشمنوں کی کوئی چال کا میاب نہیں ہو سکی وہ قائدِِ اعظم کے واضح ارشادات کی وجہ سے ہے۔

قائدِ اعظم کے دل میں اُمتِ مسلمہ کے لئے درد تھا اور جب وہ دین کو سمجھے تو وہ چٹان سے بھی محکم تھے، وہ شروع میں ہندو، مسلم اتحاد کی کوشش کرتے رہے اور مایوس ہو کر انگلستان لوٹ گئے۔ ان کے الفاظ

I am nationalist first nationalist second and nationalist last.

بہت مشہور ہوئے۔

لیکن مردِ مومن اقبال تواتر سے قائدِ اعظم کو خط لکھتے رہے، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ قائدِ اعظم ہی وہ واحد شحصیت ہیں جو مسلمانوں کو ان کا الگ وطن لے کر دے سکتی ہے، جو قائدِ اعظم کو جانتے تھے وہ یہ بات بھی جانتے تھے کہ وہ یونہی بدلنے والی سیاست نہ جانتے تھے۔ قائدِ اعظم کی سوانح حیات اس وقت شروع ہوتی ہے جب انھوں نے اپنے ہی پچھلے نظریہ کو نیست و نابود کرکے رکھ دیا اور دین کے راستے کو پا لیا اور پھر وہ ایسی چٹان تھے جن کے سامنے نہ انگریز ٹھہر سکا نہ ہندو!

حقیقت یہ ہے قائدِ اعظم کی صحیح عظمت بھی اسی وقت سامنے آتی ہے جب یہ معلوم ہو جائے کہ ان کا واسطہ کس قسم کے لوگوں سے پڑا تھا اور کس کس ذہنیت کے دشمنوں سے جنگ کرکے انہوں نے پا کستان حاصل کیا تھا۔ ان مخالفوں میں ایک طرف ہندو تھا جو اپنی ہزار سالہ غلامی کا انتقام مسلمانوں کو اپنا محکوم رکھ کر لینا چا ہتا تھا، دوسری طرف انگریز تھا جس کے سینے میں صلیبی جنگوں کے زخم ابھی تازہ تھے اور دوسری طرف ہمارے اپنے نیشنلسٹ علماء، مجلسِ احرار، سرخپوش، انصار، جماعت اسلامی، پا کستان اور قائدِ اعظم کے مخالفوں کی صف میں شامل تھے اور ان سب کا مقابلہ، اسلام کا یہ سپاہی (قائدِ اعظم) تنہا کر رہا تھا۔

یہ وہ مسلمان تھے جو کہا کرتے تھے کہ بعض مصلحتوں کے تحت جھوٹ بولنا نہ صرف جائز ہے بلکے ضروری ہو جاتا ہے (مولانا مودودی نے کہا تھا)۔

دوسری طرف قائدِ اعظم تھے جن کی صداقت کا اقرار دشمن بھی کرتے تھے۔ اصفہانی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ قیامِ پاکستان سے پہلے الیکشن میں ایک سیٹ پر اصفہانی بلا مقابلہ منتحب ہو رہے تھے کیونکہ مقابلے میں کوئی امیدوار نہ تھا۔ الیکشن سے صرف دو دن پہلے ایک اُمیدوار کھڑا ہوگیا۔ بہت پریشانی ہوئی۔ پھر اُس اُمیدوار سے بات ہوگئی۔ اصفہانی اور ایک دو ساتھی آپس میں آہستہ آہستہ باتیں کر رہے تھے، قائدِ اعظم بھی وہاں موجود تھے تو کہنے لگے کہ میرے سامنے بات کریں تو اس پر اصفہانی نے ساری صورتِ حال بتائی۔ اصفہانی لکھتے ہیں کہ قائدِ اعظم کا رنگ سرخ ہوگیا اور کہنے لگے کہ کسی کو زرضمانت دے کر اس کو بیٹھنے پر آمادہ کر نا بلا واسطہ رشوت نہیں تو اور کیا ہے؟ ہم رشوت دے کر نہیں جیتیں گئے ہار جائیں گئے، مقابلہ کریں گئے۔ اس وقت ایک ایک سیٹ ہی نہیں ایک ایک ووٹ بھی قیمتی تھا۔ ہم اس وقت نہیں سمجھ سکتے کیونکہ اب ہمارے مقابلے میں کوئی ہندو نہیں کھڑا ہوتا، سب سیٹیں ہماری اپنی ہی ہوتیں ہیں، مسلمان ہی مسلمان کے بلمقا بل ہوتا ہے۔

آج کل الیکشن کا دور دورہ ہے۔ لاکھوں، کروڑوں اور اربوں کا کھیل شروع ہو جائے گا! جو جیتے گا اس سے چار گناہ کمانے کی کوشش کرے گا!

قائدِ اعظم کی وفات پر لندن ٹائمز نے لکھا تھا (جو بہرحال قائدِ اعظم کے دوستوں کا نہیں دشمنوں کا اخبار تھا) "قائدِ اعظم نے اپنی ذات کو ایک بہترین نمونہ کے طور پر پیش کرکے اپنے اس دعویٰ کو ثابت کر دیا کہ مسلمان ایک علحیدہ قوم ہیں۔ ان میں وہ ذہنی لچک نہیں تھی جو انگریز کے نزدیک ہندوستان کا خاصہ ہے۔ ان کے تمام خیالات ہیرے کی طرح قیمتی مگر سخت، واضح اور شفاف ہوتے تھے۔ ان کے دلائل میں ہندوؤں جیسی حیلہ سازی نہیں تھی"۔ 

یہ حقیقتاً بہت بڑی کا میابی تھی جس کا اعتراف قائدِ اعظم کا سب سے بڑا حریف کر رہا ہے۔ مومن حقیقتاً ایسا ہی ہوتا ہے۔ وہ صادق ہوتا ہے، کھرا ہوتا ہے اس لئے اس کا ہر فیصلہ یقین سے بھر پور ہوتا ہے۔ اس کی زندگی میں "no" کا لفظ نہیں ہوتا۔

کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زورِ بازو کا

نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتیں ہیں تقدیریں

واقعی برصغیرِ پاک و ہند کے مسلمانوں کی تقدیریں بدل گئیں، اور ہم آج بڑے مزے سے آزادی کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ اب ایک صدی ہو چلی ہے نہ کشمیر کے مسلمانوں کے لئے نہ ہی فلسطین کے مسلمانوں کے لئے کوئی قائدِ اعظم کسی ماں نے پیدا کیا!

اقبال نے شاید یہ اپنے اور قائدِ اعظم ہی کے بارے میں کہا تھا۔

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

Check Also

Aag Lage Basti Mein, Hum Apni Masti Mein

By Rauf Klasra