Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Kiran Arzoo Nadeem
  4. Akhir Hum Kb Tak Samjhen Ge

Akhir Hum Kb Tak Samjhen Ge

آخر ہم کب تک سمجھیں گئے

آدھے سے زیادہ پاکستان سیلاب میں ڈوب چکا ہے، ہم ابھی معاشی مسئلے سے نکلنے نہیں ہائے تھے کہ ہم سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار ہو گئے۔ قدرتی حوادث تو رونما ہوتے رہتے ہیں اور ہوتے رہے تھے اور ہوتے رہیں گئے۔ اس کی تازہ مثال کرونا ہے۔ جس نے تمام دنیا کو تقریباًََ بند کر دیا تھا، لاکھوں انسان لقمہ اجمل بن گئے، تقریباََ دو سال ہم اس وبا سے خوف زدہ رہے اور مغرب والے تحقیق کرتے رہے اور ہم اُ متِ محمدیہ کے ماننے والے ویکسین آنے کا انتظار کرتے رہے۔

قرآن کریم میں قصہ آدم کے تمثیلی بیان میں کہا گیا ہے۔ و علما الا سماء کلھا۔ 31، 3 یعنی اس کا مفہوم یہ ہے کہ "خدا نے تمام اشاء کائنات کے متعلق علم حاصل کرنے کی صلاحیت رکھ دی" کئی ایک مقامات پر یہ بھی کہا گیا ہے کہ وّ سخرّ لکم ما فی السمٰوٰتٰ و ماّ فیِ الا رضِ جمیعا، 45، 13 کائنات کی پستیوں اور بلندیوں میں جو کچھ ہے ہم نے اسے قوانین کی زنجیروں میں جکڑ دیا ہے کہ انسان انہیں اپنے کام میں لائے۔

ان ارشاداتِ خداوندی سے واضح ہے کہ حوادثِ ارضی و سماوی (طبعی کائنات) میں سے کوئی حادثہ بھی ایسا نہیں ہو سکتا، جس کا سدِ باب انسان کے بس کی بات نہ ہو، انسان جتنا زیادہ قوانِینِ فطرت کا علم حاصل کرتا جائے گا، اس قدر وہ ان خوادث پر قابو پانا سیکھ لے گا۔ لیکن یہ فریضہ شاید اُمتِ محمدی کا تھا، لیکن کیا کیا جائے، ایک ارب سے زیادہ مسلمان کرونا ویکسین کے لئے مغرب کی طرف منہ کر کے بیٹھے تھے۔

2011 میں جب جاپان میں خوفناک زلزلہ آیا، انھوں نے کس طرح اس آفت پر قابو پایا، اب پاکستان کی طرف آئیں اور اپنی غلطیوں کی طرف بھی توجہ مبزول کروائیں، سندھ کے وزیرِ اعلیٰ بے شک سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کر رہے ہیں، لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ جن وڈیروں اور جاگیرداروں نے جن علاقوں پر زمینیں آباد کی ہوئیں تھیں، اس جگہ پر کس قسم کے ترقیاتی کام کی ضرورت تھی۔

جو مستقبل میں سیلاب کی تباہ کاریوں کو روک سکے اور سندھیوں کی جو حالت ہے، لیکن اس کے باوجود بھٹو سندھ میں زندہ ہے اور سندھی سیلاب سے مر رہے ہیں، بلوچستان میں دریاؤں کی پٹی پر مکانات تعمیر کرنے نہیں دینے چاہیے تھے؟ کون تحقیق کرے گا؟ یہ بات بھی قابلِ تحسین ہے کہ بلاول اور وزیرِاعظم اپنے دورے کے دوران زمین پر بیٹھے ہوئے تھے۔ لیکن اس سے بہت زیادہ کرنے کی ضرورت ہے، سب کو آپس میں مل بیٹھنے کی ضرورت ہے۔

سیاست کرنے کا وقت نہیں ہے، کدورتیں ختم کر کے سب لیڈروں کو مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرنی چاہیے، لیکن مجھے یوتھیوں سے بھی شکایت ہے، وہ جلسوں میں شرکت تو کر سکتے ہیں، لیکن یہ نہیں سوچتے کہ جلسوں پر جو خرچ آتا ہے وہ سیلاب زدگان کو بھی دیا جا سکتا ہے۔ خان صاحب کی فارن فنڈنگ اگر سیلاب زد گان پر خرچ ہو جائے تو کیا فرق پڑتا ہے لیکن یوتھیے تو بات پر خوش ہیں کہ کم از کم ہیلی کاپٹر پر سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ تو کیا۔

یہ وہی ہیلی کاپٹر ہے جو بالکل اسی وقت ان لوگوں کو جو ڈوب رہے تھے، ان کو بچانے کے کام بھی آ سکتا تھا اور یہی ہیلی کاپٹر ہے جو ان کی بہن علیمہ خان کو لینے پہنچ گیا، جب وہ سیلاب میں پھنس گئیں تھیں۔ عوام خان صاحب کے نزدیک کیڑے مکوڑے ہیں، لیکن اس میں خان صاحب کا قصور نہیں ہے، ان یوتھیو کا قصور ہے، جو آنکھیں رکھتے ہوئے، اس سے دیکھنے کا کام نہیں لیتے اور دماغ ہوتے ہوئے، اس سے سوچنے کا کام نہیں لیتے۔

Check Also

Bhaag Nikalne Ki Khwahish Bhi Poori Nahi Hoti

By Haider Javed Syed