Aaj Ki Aurat
آج کی عورت
پچھلے دنوں عورتوں کا عالمی دن گزرا ہماری آبادی کا نصف خواتین پر مشتعمل ہے۔ اسلام وہ واحد دین ہے جس نے عورت کو مرد کے برابر قرار دیا اور مساوی حقوق دئیے۔ مذہبی پیشوائیت نے عورت کو کبھی مرد کے برابر سمجھنے ہی نہیں دیا۔ توازن نہ تو مغربی دنیا میں نظر آتا ہے نا مذہبی پیشوائیت عورت کو ٹھیک مقام دے سکی۔ مغرب نے برابری کے چکر میں عورت کو اتنا نمایاں کیا کہ اس بے چاری کو بے لباس ہی کر دیا! توازن صرف اس کتاب میں ہے جس کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے لے رکھا ہے۔
ہمارا دور اس لحاظ سے خوش قسمت دور ہے کہ اس میں وہ تمام نشانیاں جو الله نے بتائی ہیں کہ جب قرآنی نظام قائم ہوگا وہ اس دور میں موجود ہیں مثلاً ذرائع ابلاغ بہت عام ہو جائیں گئے اور ایک اور نشانی کہ اس دور میں عورت کہ جسے مردوں نے زندہ درگور کر رکھا ہے، اس کو حیات نو عطا ہوگئی! اس سے پوچھا جائے گا کہ تم ان کے خیلاف فردِ جرم عائد کرو جنھوں نے تمھارے ساتھ یہ کچھ کیا تھا۔
قرآن کو ذکر اللعالمین اس لئے کہا گیا ہے کہ یہ نوعِ انسانی کے لئے ضابطہٴ حیات ہے، قرآن وہ عالمگیر نظام قائم کرتا ہے جس میں مرد اور عورت برابر شریک ہوں۔ سب سے اہم بات کہ مرد اور عورت دونوں اپنے کردار کی حفاظت کریں جس طرح حضرت یوسفؑ نے زلیخا کے دباؤ کے باوجود اپنے کردار کو داغ دار نہیں ہونے دیا اور حضرت مریمؑ نے ہیکل کی زندگی میں رہتے ہوئے ہوس پرست پجاریوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھا اور قرآن نے حضرت یوسفؑ اور حضرت مریمؑ کو مثال کے طور پر پیش کیا۔
جب تک مرد اور عورت میں ہم آہنگی نہ ہو تو گھر جہنم کا نقشہ پیش کرتے ہیں اور زندگی جہنم کی زندگی ہوتی ہے۔ مرد اور عورت کی ہم آہنگی کی صورت میں وہ نسل پروان چڑھتی ہے جو حقیقتاً قرآنی نظام میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے!
70 برس ہو چلے ہیں ہمیں یہ ملک اللہ کے نام پر قائم کیے ہوئے لیکن اسلامی نظام نہ قائم ہو سکا، جس آئین کا ہم ڈھنڈورا پیٹتے ہیں وہ بھی قرآنی آئین نہیں! لیکن اس اندھیری رات میں مذہبی پیشوائیت نے مسلمانوں میں شدت پسندی کو فروغ دیا ہے۔ ہم اپنے آپ کو عاشقِ رسول کہتے ہیں لیکن ہم ان کی تعلیمات پر عمل نہیں کرتے۔ کوئی ملا ہمیں یہ ہرگز نہیں بتاتا کہ اسلام نے ہمیں کس قدر آزادی دی ہے۔ اس کی مثال حضورﷺ کے آزاد کردہ غلام حضرت زیدؓ کی ہے جن کی شادی حضورﷺ نے اپنی رشتہ دار حضرت زینب سے کروائی، لیکن میاں، بیوی میں نہ بن سکی اور نوبت طلاق تک آ پہنچی۔
حضور ﷺ حضرت زید کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ حضرت زینبؓ کو طلاق مت دو۔ حضرت زیدؓ نے پوچھا کہ آپ ایسا وحی کی رو سے کہہ رہے یا آپ کی ذاتی رائے ہے تو حضورﷺ نے کہا کہ یہ میری ذاتی رائے ہے تو حضرت زیدؓ نے کہا کہ میاں، بیوی اپنے معملات کو بہتر جا نتے ہیں اور حضرت زیدؓ نے حضرت زینت کو طلاق دے دی۔ نہ زمین پھٹی نا آسمان ٹوتا، حضور ﷺ کے تعلقات حضرت زیدؓ کے ساتھ ویسے ہی رہے بلکہ حضورﷺ نے اپنی وفات سے پہلے ایک لشکر تشکیل دیا اور اس کا سپہ سالار اُسامہ بن زید کو بنایا، عام الفاظ میں غلام ابنِ غلام!
زرا تصور میں لائیں اس دور کو جب نسلی اور ذات پات کی تفریق کو با لائے طاق رکھ کر قریش کی ایک ممتاز خاتون سے ایک آزاد کردہ غلام کی شادی کروائی! معاشرہ میں کس قدر تنقید کا سامنا نا کرنا پڑا ہوگا! اوپر سے ستم یہ کہ شادی ناکام ہوگئی!
لیکن حضورﷺ اور حضرت زید کے تعلقات میں کوئی فرق نہ آیا!
اتنی وسعتِ قلبی کی مثال دنیا میں کہی اور مل سکتی ہے!
آج اِسی حضورﷺ کی محبت اور عشق میں سب مسلمان گرفتار ہیں، اس قدر گرفتار ہیں کہ کسی بھی چھوٹے سے واقع کو لے کر پورے ہجوم کو مشتعل کر دیا جاتا ہے اور اس ہجوم کو آج کی عورت پولیس آفیسر شہر بانو نے بہت صبر اور عقل مندی سے قابو کیا!
اسی ادارے کی پو لیس آفیسر جو بہت بد نام ہے اِسی خاتون نے بہت سے نقصان سے بچالیا!
اس تمہید کا مقصد صرف یہ ہے کہ ان مشکل حالات میں بھی کبھی کبھی کوئی ایسا انسان نظر آجاتا ہے جس کو دیکھ کر اقبال کا یہ شعر ہاد آ جاتا ہے کہ
نہیں ہے نا اُمید اقبال اپنے کشتِ ویراں سے
زرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی