83 Rukni Team
83 رکنی ٹیم
وزیرِاعظم کے مشیروں کی تعداد 83 ہو چکی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ وہ تنخوائیں نہیں لیں گئے لیکن اس چیز کی وضاحت نہیں آئی کہ وہ باقی مراعات بھی لیں گے یا نہیں؟ پاکستان اس وقت جن حالات سے گزر رہا ہے وہ ان عیاشیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا، شہباز شریف بحیثیت منتظم اگر مجھے پسند ہیں تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ان کے اس اقدام کو بھی درست قرار دوں۔ وزیرِاعظم میں خود اتنی صلاحیت ہے کہ انہیں یہ ملک ٹھیک طرح سے چلانے کے لئے کسی مشیر کی ضرورت نہیں ہے۔
ایک طرف خان صاحب ہیں اگر ان کے ساتھ کسی نے بھی اچھا کیا ہے اس کو ہی اس کی سزا بھگتنی پڑی ہے۔ دوسری طرف ہمارے موجودہ وزیرِاعظم ہیں کہ جس کسی نے ان کا برے وقت میں ساتھ دیا، اُس کو کوئی نہ کوئی عہدہ دے دیا۔ آپ جس جگہ پر فائز ہیں اور خدا نے آپ کے ذمے جو ذمہ داریاں لگائی ہیں اگر آپ اس وقت پاکستان کو مشکلات سے نکال کر اُس کے پاؤں پر کھڑا کر سکیں، اگر آپ نے اس وقت پاک وطن کو بچا لیا تو شاید جو لغزشیں آپ سے ہوئی ہیں خدا اس کو معاف کر دے۔
لیکن اس کے لئے سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ میں سخت اقدامات وہ نہیں کہہ رہی جو ایم ایف کہہ رہا ہے، بےحد مہنگائی، وہ تو آپ چار و ناچار کر ہی رہے ہیں۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ آپ تمام ایم این ایز اور ایم پی ایز سے کہیں کہ آپ اپنی تمام مراعات واپس کر دیں، تنخوائیں مت لیں، بلکہ اپنے اکاؤنٹ سے اس ملک کے لئے جو کر سکتے ہیں کریں۔ ویسے بھی پاکستان کو بہت کھایا گیا ہے پھر بھی اللہ نے اسے سلامت رکھا ہوا ہے۔
کیونکہ شہباز شریف کے بارے میں سنا ہے کہ وہ سرکاری دوروں کے اخراجات بھی اپنی جیب سے ادا کرتے ہیں۔ اگر اس وقت شہباز شریف نے یہ کام کر دیا اور اس کے علاوہ بڑے بڑے عہدوں پر فائز سرکاری آفیسرز جو کنالوں پر محیط گھروں میں رہائش پذیر ہیں، ہزاروں ملازمین کا خرچہ حکومتِ پاکستان اُٹھا رہی ہے، اس وقت آپ حقیقتاً بڑا بن کر پاکستان کو بچا سکتے ہیں۔ اگر آپ نے اچھا بننا ہے تو پاکستان کو بچانا بہت مشکل ہے۔ یہ مشکل قدم اگر آپ نے اُٹھا لیا تو رہتی دنیا تک آپ کا نام رہے گا، لیکن یہ آپ سے نہیں ہو سکے گا۔
پاکستان کو وہی بچا سکے گا، جو یہ اقدام اُٹھائے گا۔ یہ وہ عشق ہے جو آگ کا دریا ہے، لیکن وزیرِاعظم تو ہر ایک کو خوش کرنے کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں۔
دورِ فاروقی میں سربراہِ مملکت کا رشتہ دار ہونا، اُسے کس طرح disadvantage پوزیشن میں رکھتا تھا۔ رشتہ دار ہونا تو ایک طرف، اس کے دوست بھی دوسروں کے مقابلے میں خسارے میں رہتے تھے۔ ابنِ طبا نے اپنی کتاب "آدابِ السطانیہ" میں ایک شخص کا ایک فقرہ نقل کیا ہے کہ ایک شخص سے کہا کہ میں تجھ سے محبت کرتا ہوں، اس نے جواب میں کہا کہ
"ایسا نظر آتا ہے کہ آپ میرے حق میں کچھ کمی کرنا چاہتے ہیں اس لئے معاف فرمائیے، مجھے اپنا دوست نہ بنا ئیے۔ دور دور ہی رہنے دیجیئے۔ یہ ہیں وہ مقامات جہاں پہنچ کر انسان بے ساختہ پکار اُٹھتا ہے کہ، ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے۔