Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Kiran Khan
  4. Depression

Depression

ڈپریشن

تین دن پہلے صبح چھ بجے میرے سیل پر سسر کی کال آئی۔ ایسے وقت میں کبھی ان کی کال آئی نہیں تھی۔ میں نے کال رسیو کی۔ انہوں نے کہا کہ بیٹے کا نمبر بند جا رہا ہے۔ اسے کہو جلد سے جلد ایمرجنسی وارڈ پہنچے۔ "یا اللہ خیر۔ ابا جی خیریت تو ہے نا؟"عباس کے دماغ کی رگ پھٹ گئی ہے۔ برین ہیمبرج ہوا ہے۔ اتنا کہہ کر ابا جی نے فون بند کردیااور میں شاکڈ رہ گئی۔

ماوف دماغ کے ساتھ جا کر صاحب کو جگایا۔ واٹ؟ ان کے بھی کم و بیش میرے جیسے تاثرات تھے۔ اگلے پانچ منٹ میں صاحب شعبہ حادثات کی طرف روانہ ہوگئے اور میں گم سم سی بیٹھ گئی۔ دماغ سائیں سائیں کر رہا تھا۔ سسرالی رشتے دار ویسے تو سارے ہی میرے لیے قابلِ عزت ہیں لیکن کچھ لوگ ایسے ہیں جن سے اورا ملتا ہے۔ ان کے لیے دل میں عزت کے ساتھ ساتھ عقیدت کا رشتہ بھی ہے۔

اور یہ ماموں عباس ان لوگوں میں شامل تھے۔ ری ٹائپ کرکے " تھے" لکھنا بھی ایک ازیت ہے نا!اس بندے کو میں نے ہمیشہ مسکراتے دیکھا ہے۔ صرف مسکراہٹ نہیں، شفیق سی دل موہ لینے والی مسکراہٹ۔ جو صرف دل کے صاف لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ عاجزی کا پیکر۔ پتہ ہے سارے اچھے اور پیارے لوگ عاجز ہوتے ہیں۔ ڈاون ٹو ارتھ۔ یونہی تو نہیں پسندیدہ ہوتے۔

شکر گزاری ان کے ایک ایک ایکٹ سے ظاہر ہوتی تھی۔ ایمانداری کا لیول اتنا ہائی تھا کہ پورے گاؤں میں پیسوں کا حساب کتاب ان سے کرایا جاتا تھا۔ گاؤں کی تقریباََ شادیوں میں سلامی لکھنے اور جمع کرنے کی ڈیوٹی انہی کے ذمے ہوتی تھی۔ اور یہ ذمے داری خوب احسن طریقے سے نبھاتے تھے۔ کبھی ان کی کسی سے لڑائی جھگڑا نہیں سنا تھا۔ اتنے بے ضرر انسان تھے جتنا سوچا جا سکتا۔

سراپا محبت۔ آسانیاں پیدا کرنے والے۔ ان کے چہرے کا اطمینان اور نور ان کی سادگی کو چار چاند لگا دیتا تھا۔ مجھے ان ماموں سے ہمیشہ اتنی پوزیٹو وائبز آتیں کہ جب بھی کبھی کسی تقریب پر ہمارے گھر آے، ان کی خاطر تواضع کا بہت خیال رکھا۔ کیا کیا اچھائی بتاوں؟ نمازی، پرہیز گار، ایماندار۔ ایک اچھے مسلمان میں جو خوبیاں ہونی چاہیے ان میں سب موجود۔ صاحب ہسپتال سے آچکے تھے۔

ان سے پوچھا برین ہیمبرج کیوں ہوا کیا وجہ تھی؟ اب کیسے ہیں؟ صاحب نے جو بتایا وہ میرے لیے مزید حیرت کا باعث تھا"۔ ماموں عباس گزشتہ ایک سال سے شدید ڈپریشن کا شکار تھے، اور اب برداشت جب ختم ہوئی تو دماغ کی نس پھٹ گئی"میرا دل مزید ڈوب گیا۔ ابھی پچھلے مہینے تو میرے جیٹھ کے بچوں کی شادیوں میں پیش پیش رہے۔ ہنستے مسکراتے۔ ہمیشہ کی طرح ملاحت ان کے چہرے کا حصہ رہی۔

اتنا ڈپریشن اتنا غم انہوں نے چھپا کیسے لیا؟ میں ان کے ضبط پر حیران ہو رہی تھی۔ کیا ڈپریشن تھا؟ میں نے سوال کیا"۔ فیملی سے لڑائی تھی۔ بیوی بچوں نے بول چال بند کر رکھی تھی۔ پتہ نہیں کیا وجوہات تھیں؟ وغیرہ"۔ ہممممم۔ اس میں تو کسی شک وشبے کی گنجائش ہی نہ تھی کہ ماموں بہت بہترین اخلاق کے سلجھے ہوے انسان تھے۔ عاجز تھے لڑائی جھگڑے سے دور بھاگتے تھے۔

لیکن فیملی عاجزی پسند نہ تھی۔ تو بس خاموش ہوتے گئے، اور گھل گھل کر ختم ہونے لگے۔ دو دن کومہ میں رہے آج ڈاکٹروں نےان کی موت کی تصدیق کر دی۔ روزے کی حالت میں خدا کی بارگاہ جا پہنچے۔ جن لوگوں کی یہاں بہت ضرورت ہوتی ہے وہاں بھی انہی کی ڈیمانڈ ہوتی ہے۔ مرنے سے پہلے ایک وصیت کرکے گئے ہیں۔ جن رشتوں نے شدید اذیت دی ان کو میرا منہ نہ دیکھنے دیا جاۓ۔ اور نہ ہی ان کی چارپائی پکڑ کر رونے دیا جاۓ۔

سنا ہے فیملی بڑا رو رہی تھی۔ پچھاڑیں کھا رہی تھی۔ جیتے جی سمجھوتہ نہیں کرنا، موت پر خوب رونا ہے۔ یہ ہے ہمارا بے حس رویہ۔ اپنے پیاروں کو اس مقام تک لے کیوں جاتے ہیں کہ ان کے دماغ کی نسیں پھٹ جائیں؟ خدارا۔ ذہنی اذیت ایسی نہ دیں کہ اگلے کے لیے قابلِ برداشت نہ رہے۔ ہمارے پیارے سلامت رہیں۔ مسائل کے حل بھی نکل ہی آتے ہیں۔ لیکن جب دنیا سے منہ موڑ جائیں۔ آپ کے لیے صرف پچھتاوے چھوڑ جاتے ہیں۔

اختلافات کو اختلافات کی حد تک رکھیں۔ کسی کی جان کا روگ نہ بنائیں۔ غور کریں۔ آپ کے ارد گرد ایسے کئی کردار ہیں۔ جو بہت اچھے اداکار ہیں۔ انہیں سارے غم چھپا کر مسکرانا آتا ہے۔ انہیں ضرورت ہے اس ڈپریشن سے نکالنے کی۔ جس سے ہم یہ سوچ کر لاپرواہی برتتے ہیں کہ ان کا زاتی معاملہ ہے۔

Check Also

Sultan Tipu Shaheed Se Allama Iqbal Ki Aqeedat (1)

By Rao Manzar Hayat