Bank Ka Qarza
بینک کا قرضہ
ہم بحیثیت مجموعی قرض لینے کے شوقین قوم ہیں۔ دوستوں سے، قرابت داروں سے، رشتے داروں سے، بینکوں سے لیں گے حتی کہ دوسرے ملکوں سے بھی مانگ لیتے ہیں۔ اب لے لیا ضرورت تھی کوئی بات نہیں لیکن مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے جب ہمیں قرضہ واپس کرتے ہوئے موت پڑنے لگتی ہیں۔
ایسے لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر رہ گئی ہے جو وقت پر قرضہ ادا کر دیتے ہیں۔ اکثریت قرض واپس نہ کرنے کے حیلوں میں رہتی ہے۔ آج ان لوگوں پر بات کرتے ہیں جن کو قرض دے کر اگلے رو رہے ہوتے ہیں کہ اب اس کنویں سے نکالیں کیسے؟
قرض دینے والا جتنا با اخلاق اور آپ جناب سے کام لینے والا ہوگا قرض واپس ملنا اتنا ہی نا ممکن ہوگا۔ ہاں اگر بد مزاج، بدتمیز، اور بدلحاظ ہو تو کچھ امکانات ہیں قرض واپس آنے کے۔
ہماری جان پہچان کے ایک صاحب ہیں انکو قرض دے کے بندہ پچھتاتا ہے ہمیشہ، کیونکہ جب بھی ان سے واپسی کا تقاضہ کریں یہ صاحب اگلے کو ہی دس باتیں سنوا دیں گے جو کچھ یوں ہونگی۔
"کم ظرف بندے کو وی خدا پیسہ نہ ڈیوے۔ او میں بے غیرت میں بےشرم مر گیاں بھلا؟ یا اتھوں ٹھکانہ بدل گیا میں؟ تہاڈا قرضہ اتار کے مرساں میں بے غیرت۔۔ میں۔۔ کے آگے ناقابل اشاعت قسم کی گالیاں خود کو کوسنے، مانگنے والے کو دشنام طرازی کی نوبت ہی نہ آے گی اور قرض خواہ شرم سے پانی پانی ہو کر لوٹے گا۔
آپ لوگوں کے علم میں ہوگا کچھ عرصہ قبل غریبوں کی فلاح و بہبود کے لیے ایک سکیم نکالی گئی تھی۔ آسان شرائط پر قرضے۔
ان قرضوں کا مقصد غریب کسانوں کے لیے نرمی پیدا کرنا تھا۔ پراسس یہ تھا کہ یہ کسان جانوروں کی خریداری کے سلسلے میں قرض لے سکتے ہیں۔ اس کے لیے کرنا یہ ہوتا تھا کہ بینک سے دو لوگ آئیں گے آپ ان کو مطلوبہ جگہ پر لے جاو جہاں جانوروں کے لیے باڑہ تیار ہوگا۔
دو لوگ چاہیئں ہونگیں ضمانت کے لیے۔ دو چار جانوروں کی خریداری کے لیے قرضہ لے سکتے۔۔ اس اسکیم میں عوام نے وہ تماشے کیے۔۔ کس کس طریقے سے پیسہ لے کر ضائع کیا اس کا ایک دلچسپ واقعہ سنیں۔
والد صاحب کے پاس ایک غیر ذمےدار قسم کا محلے دار آیا اور درخواست کی کہ میں جانور لے کر اپنے کاروبار کا آغاز کرنا چاہتا ہوں میری مدد کریں ضمانت دے دیں میری۔ ابو جی سماجی خدمات کے لیے تو ویسے ہی مشہور تھے فٹ سے فارم پر دستخط کردیے۔ بندے نے ٹیم کو اپنے کسی رشتے دار کا باڑہ وغیرہ دکھا کر قرضہ لے کر ہڑپ لیا۔
چند دن گزرے بینک کے لوگ ابو کے پاس آگئے کہ آپ نے ضمانت دی تھی ہمیں چل کر اس کا باڑہ اور رقم سے خریدے گئے جانور دکھاو۔ ابو جی نے اس بندے کو کال کی اس نے یہ کہہ کر جان چھڑا لی کہ شہر سے باہر ہوں۔ اب بینک والوں کو تو مطمئن کرنا تھا۔۔ انھوں نے ابو سے سوال کیا۔
"کتنے جانور لیے اس نے"؟
ابو جن کو کچھ خاص معلومات نہ تھی سوچتے ہوئے بولے "بھینس لی ہے"
ان کا اگلا سوال "کس جگہ کھڑی ہے بھینس"؟
ابو کا جواب "زمین پر کھڑی ہے"۔
بندے کے ماتھے پر بل نمودار ہوئے"۔ اور زمیں پر کس جگہ کھڑی ہے"؟
ابو پریشانی کو چھپاتے کی کوشش کرتے ہوئے"۔ جگہ تو آپ کو دکھائی تھی نا اس نے، شہر سے باہر گیا ہے ورنہ میں آپکو لے چلتا"
اب دوسرا بندہ پنجابی لہجے میں گویا ہوا "مج دے پِچھوں کی اے"؟
پنجابی زبان سے ویسے ہی ابو کی جان جاتی تھی۔ جتنا سمجھ آ سکی تذبذب سےجواب دیا"۔۔ بھینس کے پیچھے تو دم نہیں ہوتی؟ اس کے پیچھے بھی دم ہے"۔۔
جواب سن کر اگلے کے تیور خراب ہوئے"اسی مخول کرن آئے آں؟
ابو بد حواس ہو کر "نہیں سر میں نے بھی مذاق نہیں کیا۔۔ بھینس کے پیچھے دم نہیں ہوتی تو کیا ہوتا ہے؟"
ایک کو معاملہ سمجھ آیا۔ ابو کو سمجھاتے ہوے بولے "پیچھے کا مطلب بھینس کا کوئی بچہ ہے ساتھ یا اکیلی ہے؟"
ابو نے سمجھ کر سر ہلایا اور دل ہی دل میں پریشان کہ اب کیا کہوں۔۔ خیر دل کڑا کر بولے"۔ ہاں ایک بچہ ہے"۔۔
وہ لوگ اٹھ کھڑے ہوئے۔۔ اجازت چاہی اس ہدایت کے ساتھ کے اگلے ہفتے آئیں گے۔۔
ابو نے اس رشتے دار کو فون کرکے خفگی کا اظہار کیا کہ تم نے مجھے پھنسا دیا اب کیا جواب دوگا؟ چپ چاپ بتاو پیسوں کا کیا کیا؟
بندے نے چٹکیوں میں بات اڑا دی "بھائی جان ڈرتے بہت ہیں آپ تو، میں آرہا ہوں سب سنبھال لوں گا۔ اور بے فکر رہیں دو سال کا ٹائم ہے قرضہ آرام سے اتار لونگا۔
اگلے ہفتے ٹیم آن موجود ہوئی ابو رشتے دار کے گھر لے گئے۔
آگے سے دکھی شکل بنا کے بیٹھا تھا۔۔
ان کا سوال "بھینس دکھاو"
سر جھکا کر دکھی لہجے میں بولا "مر گئی"
حیرت سے پوچھا"۔۔ کیسے مری"؟
"مجھے کیا پتہ کیسے مری"۔۔ اچھی بھلی تھی رات کو صبح مری پڑی تھی۔۔ ہمارے ڈاکٹر نے کہا اس کو صدمہ ہوا دل بند ہوگیا۔
بندے نے چکرا کر دیکھا"۔ بھینس کو کیا صدمہ ہو سکتا ہے"؟
رشتے دار بے نیازی سے بولا"۔۔ بے زبان تھی اس لیے بتا نہ سکی دکھ لے کر مر گئی۔۔ بتا سکتی تو مرتی کیوں؟
بینک والوں نے کچھ دیر خاموشی اختیار کی پھر ایک بندہ بولا "اس کی لاش ہی دکھا دو"۔۔
رشتے دار نے ناگواری سے ان کو دیکھا"۔۔ دفن کردی"
"کیتھے؟"پنجابی افسر کا سوال۔
"اوتھے" بندے نے ہاتھ سے باہر کی طرف اشارہ کیا اور ساتھ ہی اٹھ کر کسی اٹھائی۔۔ ان دونوں افسروں کی طرف دیکھا اور غصے سے بولا۔۔
"میں اپنے نقصان کو رو رہا ہوں اور آپ کی تفتیش ہی نئی ختم ہو رہی آجاو قبر کھود کہ دیکھ لو اور مجھے بخش دو۔۔
اب بندے ہڑبڑا کہ بولے"۔ نہیں نہیں ہمیں یقین ہے۔۔ نا کھودو۔۔ رشتے دار نے چپ چاپ کدال واپس رکھ دی۔۔ ایک افسر نے تسلی دی کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا آجانا مزید قرضہ بھی دے دیں گے۔۔ اور چل دیے
جاتے جاتے پنجابی افسر کو جیسے کچھ یاد آیا"۔۔ مڑ کر بولا " بھینس کا بچہ بھی تو تھا وہ کہاں گیا؟
"اسے ڈھونڈ رہے ہیں صاحب۔۔ ماں کے لیے روتا روتا باہر نکلا اب مل نہیں رہا" ابو اس کی کہانی پر دل ہی دل میں دانت پیس کر رہے گئے۔۔
افسر تو چلے گئے لیکن ابو نے ایسی کسی نیکی سے آیندہ کے لیے توبہ کرلی۔۔
یہ تو ایک چھوٹی سی مثال سمجھیں۔۔ یہی کام ہمارے ملک میں بڑے چھوٹے ہر لیول پر ہو رہا ہے۔۔ قرض کاروبار کے لیے لینا۔۔ اور کھا پی کر بیٹھ جانا۔۔ پھر با اثر لوگ معاف کروا لیں گیں۔۔ اور نچلا طبقہ ڈرامے بازیوں سے کام چلاتا رہے گا۔۔ جب تک ممکن ہوگا قرضے کی مدت بڑھواتے رہیں گے۔۔
اب تو بینک کا عملہ بھی اس بہتی گنگا سے ہاتھ دھو لیتا ہے۔۔ رشوت لے کر ڈیٹ بڑھا دینی۔ ہمیں بحیثئیت مجموعی یہ سوچ بدلنی ہوگی۔۔ قرض لیا ہے تو دینے کی نیت بنانی ہوگی۔۔