N League Ki Homeopathy Siyasat
ن لیگ کی ہومیو پیتھی سیاست
ن لیگ لیڈرشپ کرائسز کا شکار ہے۔ نواز شریف کو لندن میں الطاف حسین کی طرح آئسولیٹ کر رکھا ہے، کسی کے پاس کوئی جواب نہیں کہ ان کی واپسی کب ہو گی، وہ کبھی آئیں گے بھی یا نہیں، یاں کیا وہ آئندہ کبھی ایکٹیو سیاست کر پائیں گے؟ یہاں پاکستان میں کبھی مریم، کبھی شہباز، کبھی حمزہ لیڈر بن جاتے ہیں۔ بلاشبہ ان کے پاس ووٹ بینک موجود ہے، جو گزشتہ پرفارمنس کی بنیاد اور امید پر انھیں آئندہ بھی ووٹ دے گا۔
مگر جس طرح پی ٹی آئی نان اور حتیٰ کہ فیک ایشوز تک پر اپنے کارکنان کو کونیکٹ اور موبلائیز کر لیتی ہے، ن لیگ فی الوقت اس طرح ماس لیول پر لوگوں کو اپنے ساتھ کونیکٹ کرنے کی صلاحیت سے عاری دکھائی دیتی ہے۔ اپنے حجم کے اعتبار سے ن لیگ جتنی بڑی جماعت ہے اتنی ہی ان کی سوشل میڈیا ٹیم ناقص اور جدید تقاضوں سے عاری ہے۔ یعنی یہی فرّح نامی خاتون کی کرپشن کا سکینڈل اگر خود ن لیگ میں ہوا ہوتا تو یقین مانیے پی ٹی آئی نے ملک بھر میں فرّح فرّح کا کہرام برپا کیے ہونا تھا۔
جیسا کہ شہباز کے "بھکاری" والے بیان کو ٹرول کیا گیا یا مقصود چپڑاسی وغیرہ وغیرہ۔ ن لیگ کے ووٹرز کا سیاسی عقیدہ ہی ڈانواں ڈول ہے۔ اور اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ان کے ووٹر کو نہیں پتا کہ پارٹی کی موجودہ سمت اور ٹارگٹ کیا ہے؟ آپ کے سیاسی ٹارگٹ بھلے کچھ بھی ہوں مگر عمران خان کی طرح اپنے سپورٹرز کو کوئی ناں کوئی لالی پاپ اور ٹرک کی بتی دکھا کر اپنے ساتھ کونیکٹڈ تو رکھو۔ ایک دن مریم عوام میں جا کر سیاسی پارہ ہائی کرتی ہے، اگلے دن شہباز شریف آ کر ہومیوپیتھک اسٹائل سے سارے جذبے پر ٹھنڈا پانی ڈال دیتا ہے۔
حمزہ کی زنانہ سیاست کی تو بات کرنا ہی فضول ہے۔ کوئی دو ٹوک بات کرنے والا لیڈر اگر شریف فیملی میں نہیں تو خدارا جماعت کو مزید فیملی لِمیٹڈ کمپنی بنانا بند کر دیں۔ مثلاََ اسی بات سے اندازہ کر لیجئے کہ یہ جماعت آج تک خود اپنے ہی کارکنان کو اسی بات پر قائل نہیں کر پائی کہ ہم نے کرپشن نہیں کی۔ "بھئی کھاتا ہے تو لگاتا بھی تو ہے"۔ سوچا جائے تو یہ کس قدر بکواس فقرہ ہے جو ن لیگی اکثر کہتے ہیں۔ ارے بھائی ڈینائی کرو اس بات کو کہ ہم نے مال کھایا، کب کھایا ثابت کرو؟ اِس نکتے پر اٹل ہو جاؤ، منخرف ہو جاؤ۔
اگلی کوئی بات ہی نہ سنو اس بندے کی۔ اس الزام کو زندگی موت کا ایشو بنا لو کہ یا تو اگلا بندہ نیکسٹ ٹائم کرپشن کا الزام نہ لگائے یا پھر کم از کم دس بار سوچے۔ لیکن جب ٹی وی پر بیٹھے ن لیگی رہنما کرپشن کے الزامات پر اگریسیو ہونے کی بجائے آئیں بائیں شائیں کرتے دکھائی دیں گے، تو ان کا سپورٹر کیونکر اگریسیو ہو کر ڈیفینڈ کر سکے گا؟ اب یہ غداری والا الزام ہی دیکھ لیں جو عمران خان نے تقریروں میں آپ پر لگایا ہے اور پھر اس کو کیمپین کی شکل دے ڈالی۔
میں کہتا ہوں بھاڑ میں جائے آئین کی فلاں فلاں شق، بھاڑ میں جائے عدمِ اعتماد، اور بھاڑ میں جائے سپریم کورٹ۔ سوال یہ ہے کہ ن لیگ کی لیڈر شپ نے پہلی فرصت میں اس گھٹیا الزام پر جارحانہ سٹینڈ کیوں نہیں لیا؟ کہ آخر کسی نے ہمت کیسے کی آپ کو غدار کہنے کی؟ بھئی آپ کے پاس 85 قومی اسمبلی اور 150 سے زیادہ صوبائی کی سیٹیں ہیں۔ پنجاب کی ہر گلی میں آپ کا ووٹر ہے۔ کسی مائی کے لعل میں جرات نہیں ہونی چاہئے کہ آپ کو غدار کہے۔
اور آپ آئین کی فلاں فلاں شق اور رحم طلب نظروں کےساتھ کرپٹ ججوں کے سٹوپڈ ریمارکس کی طرف دیکھ رہے ہو؟ بھئی ایسے ایشوز تو سیاسی کارکنان کو جذباتی طور پر متحرک کرنے کیلئے وسیلہ ہوتے ہیں، آپ انھیں موبلائز کرکے سڑکوں پر لاؤ اور جس نے آپ کو غدار کہنے کی جرات کی ہے اس کے خلاف دبنگ احتجاج ریکارڈ کراؤ، اس ایک نکتے کو جُڑ جاؤ۔ غداری کا الزام لگتے وقت بھلے آپ اپوزیشن میں تھے، آپ حکومت کا ناطقہ بند کر دیتے، اسمبلیوں میں قراردادیں لے آتے۔
پارلیمانی کمیٹیوں کی کاروائیاں رکوا دیتے، حکومتی وزراء کے گھروں کے باہر دھرنے دیتے، ان کا کہیں آنا جانا مشکل بنا دیتے، میڈیا کو آپ اور آپ کے اٹھائے ایشو کی کووریج پر مجبور کیے رکھتے جب تک ایسے سٹوپڈ الزام لگانے پر اگلا بندہ بیک فٹ پر جانے یا معذرت کرنے پر مجبور نہ ہو جاتا۔ مگر آپ نے تو قسم کھا رکھی ہے اپنے سپورٹرز کو سپیچ لیس اور بے عزت کروانے کی۔ سوشل میڈیا پر کوئی ایسا الزام لگائے، یا ٹرولنگ کی کوشش کرے، اس پر ہونا تو یہ چاہئے کہ پنجاب کی سب سے بڑی اور تجربے کار جماعت کی فعال سوشل میڈیا ٹیم ریورس ٹرولنگ اور ٹرینڈز چلا چلا کر اُسے گھر تک چھوڑ کر آئے۔
آخر میں ن لیگ سے کہنا چاہوں گا کہ لعنت ہے آپ کی اس دولت اور پیسے پر جو آپ خرچ نہیں سکتے سوشل میڈیا کیمپین، ماڈرن میڈیا مینیجمنٹ اور انٹرنیشنل لابنگ فرمز پر؟ کیوں اسے استعمال کر کےجدید طریقوں سے موبلائز نہیں کرتے اپنے کارکنان کو؟
اگر یہ سب آپ کو ہم نے ہی سکھانا ہے تو بہتر ہے کہ آپ سیاست سے ریٹائرمنٹ لےکر گھر میں اپنے پوتے پوتیوں کو وقت دیں۔