Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Khurram Imtiaz
  4. Game

Game

گیم

بھائی جان اپوزیشن کی ٹوٹل گیم یہ ہے کہ عدم اعتماد کیساتھ عمران کو ہٹانا اور اپوزیشن کی مشترکہ گورنمنٹ تھوڑی دیر کیلئے قائم کرنی ہے۔ پھر قبل از وقت الیکشن کی طرف جانا ہے۔ لیکن الیکشن سے پہلے عمران خان کی چھتر چھایہ میں گزشتہ برسوں میں جو کرپشن کے بازار گرم تھے، اُن کو سرکاری ڈیپارٹمنٹل سطح پر ایکسپوز کرنا، بیوروکریٹس کو سلطانی گواہ بنا کر مقدمے بنانے، کردار کشی کرنی، نیب کیسز اور اپنی مرضی کی پوسٹنگ/تبادلے وغیرہ کرنے۔ اور وہ قوانین جو صدارتی آرڈیننس کیساتھ پاس کیے گئے ان میں سے جو قوانین اپوزیشن کو سُوٹ نہیں کرتے (بالخصوص اگلے انتخابات کیلئے) انھیں رول بیک کرنا۔ اور پھر الیکشن میں جانا۔

اب یہ ساری بکواس باتیں جو میں نے لکھی ہیں، ظاہر ہے عمران کو بھی پتا ہیں، پہلے ہر حربہ آزما کر اتحادیوں اور منخرف ارکان کو منانے کی کوشش کی گئی۔ مخالف جماعتوں کے بندے توڑنے کی بھی کوشش کی گئی مگر کچھ حاصل نہ ہوا۔ آخر میں نجانے کس طرح پرویز الہی کو اینڈ گیم کیلئے توڑ لیا گیا (شاید بلیک میل کر کے) جو ابھی چند دن پہلے ٹی وی انٹرویو میں عمران خان کی نیپی بدلنے کی بات کر رہا تھا۔ خیر عدمِ اعتماد کی ووٹنگ کے آخری دن کیلئے 3 پلان بنائے گئے تھے۔

پلان 1 - اسلام آباد کی سڑکوں پر ٹائیگرز کو اکٹھے کرنا، دنگے فساد، ایجیٹیشن، انارکی۔ پارلیمنٹ کے باہر ہنگامے، جسے پی ٹی آئی رہنما لیڈ کرتے۔ اندر اسمبلی میں بھی یہی کچھ کر کے گڑبڑ کرنے کا پلان تھا۔ مگر اسکی اجازت ایسٹیبلشمنٹ نے نہیں دی۔ وزیراعظم کے حکم کے برخلاف ریڈزون کو کنٹینرز رکھ کر سیل کرا دیا گیا۔ اور اسلام آباد میں اینٹری پر چیک اینڈ بیلنس ٹائٹ کر دیا گیا۔ مزید حامد میر ٹائپ صحافیوں کے ذریعے میڈیا پر یہ پلان نشر کرا دیا گیا۔ اور سبھی چینل یک زبان ہو کر یہ بات دہرانے لگے۔ اس پر یہ پلان کینسل کر دیا گیا۔

پلان 2 - پی ٹی آئی کے باقی ماندہ تقریبا 140 ارکان اسمبلی (جو گزشتہ رات عشائیے میں شامل تھے) استعفے دے دیں گے، بعد ازاں پختونخواہ اسمبلی بھی تحلیل کر دی جائے گی یا وہاں بھی سب استعفے دیں گے اور یہی کام پنجاب اسمبلی سے بھی کیا جائے گا۔ اس طرح ایک سیاسی بحران پیدا ہو گا کیونکہ صرف آخری ایک سال کیلئے اتنے زیادہ ضمنی الیکشن کرانا موزوں نہیں ہے۔ اسی لیے آخری دن سبھی پی ٹی آئی ممبران کو عدم اعتماد کے دن اسمبلی پہنچنے کا حکم دیدیا گیا۔ مگر اس صبح پی ٹی آئی کے 80 سے بھی کم ارکان اسمبلی ہال پہنچے تھے۔ جس سے اندازہ ہو گیا کہ تمام ارکان استعفے دینے کو تیار نہیں۔ تو یہ پلان بھی کینسل کر دیا۔

پلان 3 - یہ وہی پلان تھا جس پر بالآخر عمل کیا گیا یعنی آئین توڑ کر اسپیکر سے رولنگ پاس کرائی جائے، عدم اعتماد کو زبردستی مسترد قرار دیا جائے۔ وزیر اعظم فوراً اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری صدر کو بھیجے اور صدر آنا فاناً سمری منظور کرے، حکومت ختم ہو جائے گی اور مجبوراً سبھی کو نئے الیکشن کی طرف جانا پڑے گا۔ سپریم کورٹ اس پر کیا ردعمل دے گی یہ بعد میں دیکھا جائے گا۔ یا شاید اسپیکر کی کاروائی کو استثنی والی شق کو مدنظر رکھ لیا گیا۔ دوسری جانب پنجاب میں ایسٹیبلشمنٹ پرو گورنر پنجاب چوہدری سرور کو ہٹا کر نیا گورنر لگایا دیا گیا کہ اگر پنجاب سے پرویز الہی اپنی گیم میں کامیاب نہ ہو سکے تو ماورائے آئین گورنر پنجاب اسمبلی کو تحلیل کر دے۔

خان کو لگ رہا ہے کہ فوری الیکشن میں جانا اُسے بہت سُوٹ کر رہا ہے۔ گزشتہ ایک ڈیڑھ ماہ میں سرکاری پوزیشن اور وسائل کے استعمال سے منعقدہ جلسوں میں رونق اور پختونخواہ بلدیاتی انتخابات کی فیز 2 میں کامیابی سے اسے یقین ہو گیا ہے کہ ملک بھر میں میری ہوا پھر سے چل پڑی ہے۔ جیسے میرے ٹائیگرز شارٹ ٹرم میموری لاس کا شکار ہیں، اسی طرح باقی ملک کی عوام بھی مہنگائی اور پرفارمنس وغیرہ بھول کر مجھے اندھادھند ووٹ دے گی۔۔ اور میں پھر سے وزیراعظم بن جاؤں گا۔ لیکن پھر وزیراعظم بن کر میں کروں گا کیا؟ اس بارے پچھلی بار کوئی پلاننگ کی تھی اور ناں ہی آگے کا کوئی پلان ہے۔

خیر اب معاملہ سپریم کورٹ میں ہے۔

اگر سپریم کورٹ سپیکر کی رُولنگ کو رول بیک کر دیتی ہے، اور عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی ہے، تو پھر آگے عمران کے پاس وہی پلان # 2 والا آپشن ہے کہ سبھی اسمبلیوں سے تمام پی ٹی آئی ارکان کے استعفے پیش کر کے سیاسی بحران پیدا کیا جائے۔ اور معاملہ مجبورا پھر نئے الیکشن کی طرف لیجایا جائے، لیکن اس میں مسئلہ صرف یہی ہے کہ پارٹی فی الحال انتشار کا شکار ہے۔ کئی اے ٹی ایمز بھی ساتھ چھوڑ گئی ہیں۔ اپنے ہی ارکان قابو میں نہیں آ رہے اور کپتان کے حکم پر کون استعفی دے گا اور کون نہیں، یہ کنفرم نہیں۔ اور سب سے بڑا مسئلہ اسیٹیبلشمنٹ کے اس دستِ شفقت کا بھی ہے جو الیکشن 2018 کے برعکس اب شاید پوری طرح اُس کے سر پر نہیں۔

Check Also

Bushra Bibi Hum Tumhare Sath Hain

By Gul Bakhshalvi