Tareekhi Merger
تاریخی مرجر
اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ گاڑیاں بیچنے والی جاپانی کمپنی ٹیوٹا ہے۔ یہ ریکارڈ پچھلے کئی سالوں سے اسکے پاس ہے۔ اسکی وجہ انکی گاڑیوں کی مضبوط سسپنشن، اچھا انجن اور گئیر اور بہت کم Maintenance کے اخراجات ہیں۔ سال 2023 میں ٹیوٹا نے سوا کروڑ گاڑی بنا کر دنیا بھر میں بیچی۔ یہ ریکارڈ کئی سالوں سے ٹیوٹا کے پاس ہے۔
دوسرے نمبر پر جرمن برانڈ volkswagen ہے۔ گذشتہ برس بانوے لاکھ یونٹ سیل کرنے والا یہ برینڈ پاکستان میں کبھی نہ دیکھا نہ سنا تھا۔
تیسرے نمبر پر کورین برانڈ Hyundai & Kia نے گذشتہ برس سٹینڈ کیا۔ تہتر لاکھ یونٹ دنیا بھر میں سیل کیے۔ Genesis بھی اسی برانڈ کی پریمیم کار ہے۔ جیسے ٹیوٹا کی لیکسس۔
عالمی مارکیٹ میں اپنی پروڈکشن کو لے کر چوتھے نمبر پر رینک کرنے والا امریکن برانڈ Stellantis ہے۔ چونسٹھ لاکھ یونٹ گذشتہ برس بنا کر بیچے۔
پانچویں نمبر پر آتا ہے GM یعنی امریکن برانڈ جنرل موٹرز۔ Chevrolet، GMC، Buick، Cadillas اسی گروپ کی گاڑیاں ہیں۔
چھٹے نمبر پر پھر امریکی برانڈ ہی آرہا ہے۔ Ford Motors، گذشتہ برس چوالیس لاکھر تیرہ ہزار یونٹ بنا کر فروخت کیے۔ Lincoln بھی فورڈ کا ہی سب برانڈ ہے۔
ساتویں نمبر پر جاکر دوبارہ جاپان آیا ہے۔ Honda جاپانی برانڈ نے گذشتہ برس اکتالیس لاکھ یونٹ بنا کر بیچے۔
آٹھویں نمبر پر پھر جاپان ہے Nisaan کمپنی نے تقریباََ چونتیس لاکھ یونٹ بناکر فروخت کیے۔
نویں نمبر پر جرمن برانڈ BMW یعنی Bayerische Motoren Werke AG سٹینڈ کر رہا ہے۔ گذشتہ برس تقریباََ چھبیس لاکھ یونٹ بنا کر بیچے۔
دسویں نمبر پر چائنہ پہلی بار آگیا ہے۔ Changan گروپ نے گذشتہ برس پچیس لاکھ ترپن ہزار یونٹ بنا کر بیچے۔
ٹاپ 10 گاڑیاں بنانے کی دوڑ میں پانچ ملکوں کی اجارہ داری ہے۔ نمبر ون جاپان، نمبر دو جرمنی، تیسرے نمبر پر ساؤتھ کوریا، چوتھے نمبر پر امریکہ اور پانچویں نمبر پر اب چائنہ آگیا ہے۔
چند دن قبل جاپان میں ایک تاریخی مرجر ہوا ہے جاپانی تین کمپنیوں کا جن میں ہنڈا نسان اور متسوبشی شامل ہیں۔ اسکے بعد یہ برانڈ ساؤتھ کوریا سے تیسری پوزیشن چھین کر اسے چوتھے نمبر پر کر دے گا اور بعید نہیں کہ ایک دو سال میں یہ مرجر نمبر دو پر سٹینڈ کر جائے۔ یہ ہے دنیا پر راج کرنے کی سوچ اور قومی ترقی کی سوچ۔
خیر سے ہماری موجودہ اور سابقہ حکومتوں نے گذشتہ کئی دہائیوں سے گاڑی کی اصل قیمت پر پچاس فیصد سے دو سو فیصد تک ظالمانہ ٹیکس لگا کر گاڑی کا حصول ایک عام شہری، مڈل کلاس کی پہنچ سے لاکھوں میل دور کر رکھا ہے۔ کجا وہ کوئی چھوٹی موٹی گاڑی صرف اپنے ملک کے لیے ہی خود بنا لیں۔ پچیس کروڑ افراد کی مارکیٹ میں ایک ہزار میں سے صرف بیس لوگوں کے پاس گاڑی ہے وہ بھی اکثریت کے پاس دس پندرہ سال پرانا ماڈل۔