Special Afraad Khudadad Salahiaton Ke Malik Hote Hain
سپیشل افراد خداداد صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں
میں جب یہ بات کرتا ہوں کہ سپیشل افراد کچھ ایسی خداداد صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں۔ یا انکے پاس ایسا علم ہوتا ہے جو ہمارے پاس نہیں ہے۔ تو کچھ عزیز دوست کہتے ہیں خطیب ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ وہ لوگ عقل و شعور اور علم و حکمت میں ہم جیسے ہی ہیں۔ مگر میں ایسا نہیں مانتا اور ایسا میں کسی مفروضے کی بنا پر ہر گز نہیں کہتا۔ میں اپنے بچپن سے آج تک ایسے سچے واقعات دیکھتا اور لکھتا چلا آ رہا ہوں۔ آپ انکا انکار نہیں کر سکتے۔
میں نے اپنی زندگی میں سب سے پہلا جو سپیشل پرسن دیکھا۔ وہ میرے مرحوم تایا جی تھے۔ انکی ہی مجھے گھٹی (گُھڑتی) دی گئی۔ وہ جزوی طور پر سماعت و گویائی سے محروم تھے۔ سننے والی مشین سے آدھا پونا سنتے تھے اور جتنا سن سکتے تھے اتنا ہی بول پاتے تھے۔ میری دادی کہتی ہیں کہ وہ اپنے بچپن سے ہی مجھے یہ کہا کرتا تھا کہ ہم صرف دو بھائی کیوں ہیں۔ اگر ایک کو کچھ ہوگیا تو دوسرا اکیلا رہ جائے گا۔ اماں ان کو سمجھاتی کہ بیٹا اس دنیا میں لاکھوں کروڑوں تو ہوتے ہیں اکلوتے بھائی ہیں۔ تمہارا تو پھر بھی ایک بھائی ہے۔ تم شکر ادا کیا کرو کہ ایک اللہ نہ کرے کہیں کھو بھی جائے تو ماں باپ کے پاس ایک تو ہوگا۔
اس پر وہ کہتے کہ میرا چھوٹا بھائی بھولا ہے۔ (یعنی میرے والد صاحب)۔ مجھے کچھ ہوگیا تو وہ اس دنیا میں اکیلا رہ جائے گا۔ اور وہ ایسا ہمیشہ سوچتے۔ مانو انکے پاس کوئی پکی انفارمیشن ہو جیسے یا انہوں نے کچھ دیکھ رکھا ہو۔ جیسے تقدیر کو دیکھ لینا یا آنے والے وقت کو جان لینا۔ ایسا علم ہونا کوئی مافوق الفطرت چیز ہرگز نہیں ہے۔ دونوں بھائی دس سال کے تھے کہ درزی کا کام سیکھ کر لاہور گارڈن ٹاؤن "اسٹیٹس فیشن" نامی ایک گارمنٹس کی فیکٹری میں چلے گئے۔ گجرات کے قریب ایک سادات کا گاؤں ہے۔ "مونا سیداں" وہاں کے ایک شاہ جی "بابا علی شاہ" اس فیکٹری کے مالک تھے۔
میری دادی کہتی ہیں کہ جس دن دونوں بھائیوں نے لاہور جانا تھا۔ تو جس بندے کے ساتھ جانا تھا وہ لاہور سے ہی آیا تھا۔ میرے تایا جی نے اسے کہا کہ تم شفیق کو ساتھ لے جاؤ۔ میں اس سے پچھلی بس میں آؤں گا اور لاری اڈا ہی رک کر میرا انتظار کرنا۔ اس بندے نے پوچھا کہ بیٹا تم ہمارے ساتھ ہی کیوں نہیں چلتے؟ تو تایا جی نے کہا کہ اگر بس کا ایکسڈنٹ ہوگیا اور ہم دونوں بھائی ہی مارے گئے تو ہمارے بوڑھے والدین کا سہارا کون ہوگا؟ ایسا تو ممکن نہیں ہے کہ دونوں بسوں کا ایکسیڈنٹ ہو جائے۔ سب نے سمجھایا مگر تایا جی نہ مانے۔
اور پہلی بس پر ابو جی گئے۔ اسکے بعد والی بس پر تایا جی اکیلے گئے۔ اس وقت حافظ آباد سے بسیں چلتی تھیں جو عالم چوک گوجرانولہ سے ہو کر لاہور مینار پاکستان کے پاس والے اڈے میں جایا کرتی تھی۔ پندرہ سال دونوں بھائیوں نے لاہور کام کیا۔ کوئی ایک بار بھی ایسی نہیں تھی جب تایا جی ابو کے ساتھ ایک ہی بس میں سفر کیا ہو۔ فیکٹری اور گھر سے ایک ساتھ ہی نکلتے مگر آگے چل کر تایا جی ایک بس میں نہ بیٹھتے اور ابو کو ہمیشہ پہلی بس میں روانہ کر دیتے۔ پھر چند سال کراچی الکرم گارمنٹس میں ملازمت کی۔ تب تک میرے ابو سامپل مین بن چکے تھے۔ یہ کسی بھی گارمنٹس فیکٹری میں ڈرائنگ ماسٹر کے بعد سب سے سینیئر پوسٹ ہوتی ہے۔ کراچی آتے جاتے بھی دونوں بھائی الگ الگ ٹرین سے آتے اور جاتے۔
دونوں بھائیوں کی ایک ہی ساتھ شادیاں ہوئیں۔ پھر دونوں لاہور واپس آ گئے اور پریکٹس وہی رہی۔ ابو جی کہتے ہیں وہ ہر وقت یہی کہتا تھا کہ میں نہیں ہونگا تو میرے چھوٹے بھائی کا کیا ہوگا؟ ابو انکو کہتے کہ بھائی میں اب جوان ہو چکا ہوں۔ دیکھو میں سامپل مین ہوں۔ میری شادی ہوگئی میرے دو بچے ہو گئے۔ یہ تمہارا وہم ہے۔ ایسا نہ سوچا کرو۔ مگر وہ اس بات کو نہ مانتے اور کہتے جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔
ایک رات ایسا ہوتا ہے کہ لاہور فیکٹری میں ایک مہمان آ جاتا ہے۔ تایا اور ابو جی کے کمرے میں دو چارپائیاں تھیں۔ اور وہ بھی سنگل پتلی سی۔ ایک فرد ہی مشکل سے اس پر لیٹ سکتا ہے۔ ابو جی کہتے ہیں کہ مہمان میرے چارپائی پر سو جائے اور میں نیچے کوئی دری بچھا کر سو جاتا ہوں۔ تایا جی ناراض ہوتے ہیں کہ تم نیچے کیوں سو گے۔ میں نیچے سو جاؤں گا۔ تم چارپائی پر ہی سو جاؤ۔ نیچے سو کیڑے پتنگے ہوتے ہیں۔
رات کے تین بجے تھے کہ تایا جی ابو کو ہاتھ لگایا۔ اندھیرا تھا۔ ابو نے فوراً اٹھ کر لائٹ آن کی تو تایا جی کے ہاتھ میں ایک زہریلا سانپ تھا۔ جس نے تایا جی کہ شہ رگ پر ڈس لیا تھا اور زہر اتنا تیزی سے خون میں سرایت کر گیا تھا کہ تایا جی کے لیے بولنا بھی مشکل ہو چکا تھا۔ رنگ نیلا کالا ایک منٹ میں ہی ہونے لگ گیا۔ ابو جی اور مہمان نے سانپ کو مار دیا۔ اور تایا جی کو لے کر میو ہسپتال آئے۔ مگر تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ تایا جی آخری سانسیں لے رہے تھے اور وہیں ہسپتال میں ہی انکی وفات ہوگئی۔ انکی عمر 33 سال تھی۔ ان کے تین بیٹے تھے۔ سب سے چھوٹا بیٹا 1 سال کا تھا۔
جیسا تایا جی کہا کرتے تھے کہ میرا چھوٹا بھائی اکیلا رہ جائے گا۔ ویسا ہی ہوا۔ مگر ایسا ہونے میں کئی سال لگے۔ میں اب بھی سوچتا ہوں اور واقعات کی کڑیاں جوڑتا ہوں کہ انکو کیسے معلوم تھا کہ میں زندہ نہیں رہوں گا۔ وہ لاکھ تدبیریں کرتے رہے۔ مگر کوئی اپنی قسمت اور تقدیر سے بھی بھاگ سکا ہے؟ ہم جہاں مرضی چلے جائیں۔ قسمت میں لکھا ہوا ہمارا پیچھا کرتا ہے۔ تایا جی نابینا افراد اور معذور لوگوں سے از حد پیار کرتے تھے۔
میری دادی کہتی ہیں کہ تمہیں اسکی گھٹی ہے جو تم ان سپیشل بچوں کو پڑھاتے ہو۔ مگر مجھے میرے اس سوال کا جواب نہیں ملتا کہ تایا جی کو کیسے یہ معلوم تھا جس سے وہ ہمیشہ بچتے رہے؟ اور بالآخر وہ ہو ہی گیا جس کا ڈر تھا؟ انہوں نے کیا لوح محفوظ میں اپنا مستقبل دیکھ لیا تھا یا عالم ارواح میں جب انکی زندگی کی مہلت اور موت کا طریقہ لکھا گیا تو کیا وہ فرشتوں کے پاس تھے؟ یا ان کے پاس کوئی ایسا علم تھا وہ اپنی قسمت کے بارے میں پہلے سے ہی جانتے تھے۔