Psychiatrist Ki Ahmiyat
سائیکاٹرسٹ کی اہمیت
دنیا بھر میں ہر سال کم و بیش تین سائیکاٹرسٹ خود کشی کر لیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں، جو مینٹل ہیلتھ ایشوز کے ساتھ لوگوں کو اس حالت سے باہر نکالنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ لمبے عرصے تک ایسے مریضوں سے بات کرکے وہ خود بھی انہی باتوں اور خیالوں کو سچ سمجھنے لگتے ہیں۔ وہ ایسا کرنے میں اس غوطہ خور کی مانند دریا / سمندر میں چھلانگ لگاتے ہیں، جو ڈوبتے ہوئے کو بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ گو کہ غوطہ خور اس کام میں ماہر ہوتا ہے، بہرحال اس کے ڈوبنے کے امکانات کوئی کم نہیں ہوتے۔ سیفٹی Measures کے ساتھ بھی جان جا سکتی ہے۔ اور ہر سال کئی ریسکیو ورکرز کی جان جاتی بھی ہے۔
میں پہلے پہل ایک کلاس کے ہی سپیشل بچوں کا استاد تھا۔ والدین سے بات کرنا رابطہ رکھنا سکول سائیکالوجسٹ کا کام تھا۔ پھر میں نے اس بات کی ضرورت محسوس کی کہ نہیں مجھے ان بچوں کے والدین سے بھی بات کرکے ان کو ایجوکیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ ظاہر ہے، اس کے نتائج اچھے نکلے۔ بچوں کو ان کے والدین کی مدد سے سہاروں، خود ترسی، ہمدردی سمیٹنے والی زندگی سے نکال کر آزاد اور خودمختار زندگی گزارنے کا خواب دکھانا شروع کیا۔
پھر سوشل میڈیا پر ایکٹیو ہوا۔ جو میری جاب ہے یا روٹین ہے اسے لکھنا شروع کیا تو دیگر بھی سپیشل بچوں کے والدین رابطہ کرنے لگے۔ میری اپنی ایک روٹین ہے، میں ایک دن میں ایک انباکس کا رپلائی کرتا ہوں۔ جس میں سپیشل بچوں کے والدین نے کوئی بات پوچھی ہوتی ہے یا کوئی مشورہ مانگا ہوتا ہے۔ کبھی وہیں وائس میسج بھیج دیتا ہوں تو کبھی کال پر بات کر لیتا ہوں۔ دسمبر کے ماہ میں ہر روز تین لوگوں کو رپلائی یا ان سے بات کرتا ہوں۔ اس ماہ میں تین دسمبر عالمی یوم برائے سپیشل افراد ہے تو اسی 3 کی نسبت سے یہ پورا ماہ ہر روز تین خاندانوں سے بات ہوتی ہے یا ان کو رپلائی کرتا ہوں۔
عام دنوں میں بھی جب فری ہوں تو ایک سے زیادہ انباکس میسج بھی دیکھ کر رپلائی کر دیتا ہوں۔ ایک نہیں بے شمار والدین ایسے ہوتے ہیں، خصوصاً سنگل مائیں جو اپنے سپیشل بچے کی وجہ سے خود کشی یا شدید ذہنی صحت کی خرابی کے ساتھ رابطہ کرتی ہیں۔ میں سائیکاٹرسٹ نہیں ہوں۔ نہ میں ان کی مدد کر سکتا ہوں۔ ان کو تھوڑا بہت گائیڈ کرکے سائیکالوجسٹ یا سائیکاٹرسٹ سے ملنے کا کہتا ہوں۔ تو لوگ وہاں جانا نہیں چاہ رہے ہوتے۔ عام لوگوں کا ماننا ہے کہ وہاں پاگل لوگ جاتے ہیں اور ہم ٹھیک ہیں۔ ابھی ہمیں وہاں تک جانے کی ضرورت نہیں ہے۔
میں انہیں یہ بات بتاتے ہوئے بھی اچھا محسوس نہیں کرتا کہ آپ جو خود کو نہیں سمجھ رہے آپ وہی بن چکے ہیں۔ لفظ پاگل تو عجیب سا لفظ ہے۔ ذہنی صحت کا ٹھیک نہ ہونا ایک مناسب اصطلاح ہے۔ مگر کسی کو اس بات پر لے کر آنا ایک الگ چیلنج ہے۔ کوئی خود بیمار سمجھے تو اسکا علاج ہو۔ سپیشل بچوں سے زیادہ ان کے والدین کی کاؤنسلنگ اور ان کو ایجوکیٹ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جس کو وہ لوگ کم ہی سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے بچے کو ٹھیک کرنا چاہ رہے ہوتے ہیں۔ جبکہ بچہ ٹھیک ہوتا ہے۔ ان کی سوچ کو بدل کر درست سمت میں ڈالنے پر محنت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور وہ اس بات کو نہیں سمجھتے۔
تین دسمبر کو میری بات ایک جوڑے سے ہوئی جن کے تین بچے سپیشل تھے۔ دونوں میاں بیوی کشمیر سے لاہور شفٹ ہو چکے تھے اور مالی کرائسز کے ساتھ شدید لیول کی ذہنی صحت کی خرابی کا سامنا کر رہے تھے۔ وہاں سے وہ اس لیے نکلے تھے کہ لوگ ان کو لعنت زدہ سمجھتے تھے کہ ان پر معذور بچوں کی صورت میں کوئی عذاب نازل ہوا ہے۔ 6 دسمبر کو ان دونوں نے خود کشی کی کوشش کی۔ جس میں وہ ناکام ہوگئے۔ میں نے خود بھی ان کا گھر وزٹ کیا اور پھر ایک درد دل رکھنے والے دوست کو ان کی خبر گیری کا ٹاسک دیا۔ جو اس جوان نے ایسے پورا کیا جیسا پورا کرنے کا حق ہو۔ مگر اس واقعے نے مجھے میری جگہ سے ٹھیک ٹھاک ہلا دیا ہے۔
آج 18 دسمبر ہوگئی۔ میں اس جوڑے سے کی گئی گفتگو سے ہی باہر نہیں نکل پا رہا۔ مجھے ایسے لگتا ہے، وہ میرے بچے ہیں اور میں ان کا باپ ہوں۔ پروفیشنل مدد بھی لی، لے بھی رہا ہوں صحت افزا مقام کی طرف ایک قریبی دوست کے ساتھ تین دن کا سفر بھی کیا، مگر خاطر خواہ فائدہ نہ ہو سکا۔ اس کے بعد سے آج تک ڈاکٹر کے مشورے سے کسی بھی نئی فیملی سے بات نہیں کی۔
ہر روز لوگ فون کرتے ہیں، میسج کرتے ہیں۔ میں بات نہیں کرتا۔ رپلائی نہیں کرتا۔ یارو میں خود ٹھیک نہیں ہوں۔ مجھے آپ کی دعا کی ضرورت ہے۔ میں ایسا لکھنا نہیں چاہتا تھا۔ نہ کبھی ایسے لکھا ہے۔ مگر اس لیول کا متاثر میں پہلے کبھی نہیں ہوا۔ کچھ بہتر ہوتا ہوں تو آپ بھی یہیں ہیں میں بھی یہیں ہوں۔ بات کر لیں گے۔ ایسا نہیں ہے، آپ نے مجھ سے بات کرنی اور سپیشل بچے نے ایک دم سے ٹھیک ہو جانا ہے۔ میں ایک ایسی دنیا میں خود کو محسوس کرتا ہوں، جس میں، میں ہوں نہیں۔ مگر وہ سب کچھ مجھے میرے آس پاس حقیقت میں محسوس ہوتا ہے۔ گو یہ علامات انتہائی کم درجے کی ہیں مگر ہیں تو سہی۔ تو ملتے ہیں ان شاءاللہ کچھ وقفے کے بعد۔
مجھے کسی بھی سپیشل بچے کی فیملی سے بات کرنے سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔ جب اجازت ملے گی تو میں واپس اپنی روٹین پر آجاؤں گا۔ ایسا میرے ساتھ اکثر ہوتا ہے اور اسکے بعد میں خود ہی چند دن کی بریک لے لیتا ہوں۔ پڑھ رہا تھا کہ ترقی یافتہ ممالک میں موجود سپیشل بچوں اور انکے والدین کے ساتھ کسی بھی طرح کا کام کرنے والے لوگوں /پروفیشنلز کو بھی اپنی خود کی ذہنی صحت اچھی رکھنے کے لیے مسلسل مدد دی جاتی ہے۔ مگر یہاں یہ کانسیپٹ ہی ناپید ہے۔