Friday, 15 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Khateeb Ahmad
  4. Personal Growth

Personal Growth

پرسنل گروتھ

دسمبر 2012 میں میری ماہانہ تنخواہ 10200 روپے تھی۔ میں ایک پرائیویٹ سکول میں سپیشل ایجوکیشن ٹیچر تھا۔ ٹھیک دس سال بعد 2022 کے شروع میں میری ماہانہ تنخواہ 125000 روپے تھی۔ یہ میرے کیرئیر کے آغاز کی سالانہ تنخواہ کے برابر صرف ایک ماہ کی تنخواہ تھی اور میں اب بھی ایک سپیشل ایجوکیشن ٹیچر ہی تھا۔ مگر ایک سرکاری میں۔

میں اپنے ان دس سالوں کا جائزہ لیا کہ ان میں میری صرف فنانشل گروتھ ہی ہو پائی ہے یا میرے پروفیشن کو لے کر بھی میں سال 2022 میں کھڑا ہوں۔ یعنی آج کے دور کی ضروریات، نئی سوچ، نئی ٹیکنالوجیز، نیا علم، نئی تحقیقات اور پریکٹسز سے میں کتنا آگاہ ہوں۔ علم کی حد تک تو تقریباََ میں ٹھیک ہی تھا۔ کیونکہ میں ڈس ابیلٹی رائٹر تھا تو مجھے جدید چیزوں سے جڑے رہنا ہوتا تھا۔ مگر ان چیزوں یا پریکٹسز کو اپلائی کرنے کا کوئی خاص پلیٹ فارم میرے پاس نہیں تھا۔ پاکستان میں نہ ہی والدین کی اتنی مالی حیثیت ہے کہ ورلڈ کلاس سروسز افورڈ کر سکیں اور نہ ہی حکومت کے پاس اتنے فنڈز ہوتے ہیں کہ اپنے پاس داخل شدہ طالبعلوں کو عالمی لیول کی سروسز مہیا کی جا سکیں۔ اپنے محدود وسائل اور محدود افرادی قوت کے ساتھ محکمہ سپیشل ایجوکیشن جو کچھ مہیا کر رہا ہے وہ قابل تعریف اور سراہے جانے کے لائق ہے۔

بہرحال مجھے عالمی لیول کی سروسز کو اپلائی کرنا تھا۔ دوسرے نمبر پر پیرالل ہی ایک چیز اور ساتھ چل رہی تھی۔ میرے دو تین سمال بزنس سٹارٹ اپس۔ میرا پرائمری سورس آف انکم میری تنخواہ اور سپیشل بچوں کو فراہم کی جانے والی سروسز کی مد میں آنے والی فیس تھی۔ سیکنڈری سورس آف انکم میرے بزنس تھے اور مجھے ابھی اس ترتیب کو بھی بدلنا تھا۔ یعنی سروس ڈیلیوری کو اب سیکنڈری کرنا تھا کہ وہ فیلڈ ضروریات پوری کرنے کے لیے ناکافی تھی۔

پاکستان میں ایک سپیشل بچے کی اسسمنٹ ہم لوگ صرف 5000 روپے کرتے تھے اور وہ بھی والدین افورڈ نہیں کر سکتے تھے یا ان کو لگتا تھا کہ ان کو تمام سروسز فری ملنی چاہئیں۔ یہی سروس ہمارے جیسی قابلیت کے لوگ سعودیہ یا دوبئی میں ایک ہزار ریال یا درہم کے عوض فراہم کرتے ہیں۔ یعنی 75000 پاکستانی روپے اور سپیچ تھراپی کا ایک فزیکل سیشن جو میں ایک ہزار میں آفر کرتا تھا وہ بھی لوگ پانچ سو میں دینے کی ریکوئسٹ کرتے کہ انکی آمدن ہی بڑی محدود ہوتی تھی اور یہی سیشن گلف میں دو سو ریال یا درہم کا ہے، یعنی 15 ہزار روپے۔

بات صرف پیسے کمانے یا اپنے بچوں پر لگانے کی بھی نہیں ہے۔ یہاں سپیشل بچوں کے دیہاتی یا شہروں میں بھی کم پڑھے لکھے والدین میں اس طرح سے سروسز اور تھراپیز کی اہمیت اور افادیت کا شعور بھی نہیں ہے اور ایک دو ماہ میں واضح نتائج نہ ملنے کی صورت میں تھراپسٹ کو فراڈ ڈکلئیر کرکے کسی اور جگہ چلے جاتے ہیں۔ سرکاری سکولز میں سپیشل بچوں کا رٹینشن ریٹ اس وجہ سے بھی زیادہ ہے کہ تمام سروسز بشمول پک اینڈ ڈراپ بلکل فری ہے۔ حکومت پنجاب صرف پک اینڈ ڈراپ ختم کر دے۔ میں لکھ کر دینے کو تیار ہوں ہمارے تمام سکول خالی ہو جائیں گے۔

ایک گاؤں سے اگر ایک ہی گھر سے دو بچے حافظ آباد شہر جا رہے ہیں۔ ایک بھائی ایجوکیٹرز میں پڑھتا ہے اور دوسرا سپیشل ایجوکیشن سکول میں۔ ایجوکیٹرز والے کو وین تو والدین لگوا دیں گے ماہانہ کرایہ دے کر۔ مگر سپیشل بچے کو پیسے لگا کر سکول نہیں بھیجیں گے کہ اسکو لیجانا اور گھر چھوڑنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ بہرحال حکومت یہ ذمہ داری ادا کر بھی رہی ہے۔ آپ سوچ کے فرق کو سمجھیں کہ ان سپیشل بچوں کی اہمیت اپنے ہی والدین کے قریب اپنے ہی بچوں کے درمیان کتنی ہے اور یہ بات میں پوری ذمہ داری سے کر رہا ہوں۔

پھر کیا ہوا کہ میں نے اپنی سکول جاب سے ایک سال کی چھٹی لے لی۔ مجھے ہر ماہ کے آغاز میں تنخواہ کی صورت میں ملنے والے میٹھے زہر سے آزادی کی ضرورت تھی اور جو میں نے سوچا تھا پھر ویسا ہی ہوا۔ اس لانگ بریک نے مجھے وہ کرنے کا موقع دیا جو میں نجانے کب سے سوچ رہا تھا۔ مگر ماضی کے دس سالوں میں ان پر عمل کرنے کا وقت ہی نہیں مل پا رہا تھا اور میں کوئی نوکری اورئنٹڈ ڈر ڈر کر جاب کرنے والا سرکاری ملازم کبھی نہ بن سکا کہ میری یہ جاب نہ رہی تو نجانے کیا ہو جائے گا۔

Check Also

Jis Ko Bhi Dekhna Ho Kayi Baar Dekhna

By Syed Mehdi Bukhari