Normal Delivery, Daayi Ya Hospital?
نارمل ڈلوری، دائی یا ہسپتال؟
آج ایک بھائی نے ظہر کے قریب فون کیا۔ کہ میری اہلیہ کی آج ممکنہ ڈیلیوری ہے۔ اور یہ ہمارا پہلا بچہ ہے۔ یہ خوشی کا موقع ہے اور گھر میں صبح سے جھگڑا ہو رہا ہے۔ امی کہہ رہی ہیں کہ محلے کی دائی پروین سے گھر کے اندر ہی کیس کرائیں گے۔ اور اہلیہ کہتی ہیں مجھے ابھی ہسپتال لیکر چلیں۔ امی مجھے کہتی ہیں کہ تم نہ درمیان میں آؤ یہ خواتین کا کام ہے تمہیں اس کا کچھ نہیں علم۔ اور اہلیہ کہتی ہیں میں ہمیشہ کے لیے گھر چھوڑ دونگی مگر خود کو اور آنے والے مہمان کو ایک ان پڑھ دائی کے سپرد نہیں کر سکتی۔ یہاں کوئی ایمرجنسی ہوگئی تو اسکا ذمہ دار کون ہوگا۔ یہ رسک کسی قیمت پر بھی نہیں لے سکتی جائے سب کچھ بھاڑ میں۔
اہلیہ سامان پیک کر رہی ہے اور اپنے میکے والوں کو فون بھی کر دیا ہے کہ مجھے آکر لے جائیں۔ امی کہہ رہی ہیں کہ یہ گھر چھوڑ کر گئی تو تم کبھی بھی واپس نہیں لاؤ گے۔ اگر لاؤ گے تو میں تمہیں معاف نہیں کروں گی۔ امی کہتی ہیں کہ ہسپتال میں ڈاکٹر ہر کسی کا آپریشن کرکے ہزاروں میں بل بنا دیتے ہیں۔ انکو بس پیسے چاہیں۔ اب میں کیا کروں گھر میں شدید تناؤ کا ماحول ہے۔
میں نے اسے کہا کہ آپ افورڈ کر سکتے ہیں تو خود بھابھی کو لیکر کسی ایسے ہسپتال جائیں۔ جہاں بچوں کی نرسری بھی ہو اور آکسیجن کی فراہمی سو فیصد یقینی ہو۔ اگر نہیں بھی افورڈ کر سکتے تو سرکاری ہسپتال لے جائیں۔ وہاں نرسوں اور ڈاکٹروں کی کڑوی کسیلی باتیں اور لا پرواہی برداشت کر لیں۔ وہ گھر میں ہونے والی ڈیلیوری سے ہزار گنا بہتر ہے۔
انہوں نے بتایا کہ میرے پاس پچاس ہزار روپے ہیں۔ جو میری بیوی نے ہی مجھے دیے ہیں۔ امی کو ان پیسوں کا نہیں پتا وہ مجھے بتائے بغیر 9 ماہ جمع کرتی رہی ہے۔ وہ یہ بھی کہہ رہی اور بھی جتنے پیسے لگیں گے میرے بھائی بل ادا کر دیں گے آپ پیسوں کی وجہ سے نہ پریشان ہوں مگر ہم ایک دائی سے ڈیلیوری کا رسک نہیں لے سکتے۔
میں نے کہا وہ بلکل ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ آپ ان کو خود ہسپتال لے کر جائیں۔ اور امی آپکی بلکل غلط ہیں۔ اگر خاوند کوئی للو یا لائی لگ ہو تو یہ گھر میں موجود بڑی بوڑھیاں بہوؤں کا بیڑہ غرق کر دیتی ہیں۔ پہلا حمل اور پہلی ڈیلیوری ایک لڑکی کے لیے کبھی بھی آسان نہیں ہوتی۔ اور پوری دنیا کی تحقیقات پڑھ کر دیکھ لیں پہلی اولاد میں ڈس ابیلٹی کی ریشو زیادہ ہے۔ جسکی واضح وجہ ماں باپ کو اس ضمن میں آگہی کا نہ ہونا ہے۔ جو ساس کہتی وہ کیا جاتا اور وہ ایک جنریشن پہلے یعنی کم از کم تیس پینتیس سال پرانی پریکٹس کو آج بھی اپلائی کر رہی ہوتی۔ جبکہ اب لڑکیوں کے ویسے نہ طاقتور جسم ہیں نہ ہی وہ پراپر ڈائیٹ لیتی ہیں۔
نارمل ڈیلیوری جند جان سے ممکن ہوا کرتی ہے۔ اور وہ بھی سب کی نہیں۔ کئی باتیں دیکھنا ہوتی ہیں کہ ڈیلیوری نارمل کرنے کا رسک لینا یا نہیں۔ اور جدید الٹرا ساؤنڈ مشینری سب کچھ بتا رہی ہوتی کہ کیا کریں۔ وہاں نارمل ڈیلیوری کی بھی کوشش کی جا سکتی ہے۔ اگر نہ ہو تو بروقت سرجری ممکن تو ہوتی ہے۔۔ مگر گھر میں کیا ہوگا؟ لیبر پین میں تڑپ تڑپ کر ماں ہلکان ہو جاتی اور ایسی صورت حال میں دوران پیدائش ہی بچے کو آکسیجن کی کمی سے برین ڈیمج کا خطرہ بڑھ جاتا۔ آپ نے جسمانی طور پر مفلوج بچے دیکھے ہونگے چارپائی پر پڑے ہوئے جسم اکڑا ہوا۔ ان میں اکثریت کو پیدائش کے وقت یا پیدائش کے کچھ دیر بعد آکسیجن نہیں ملی ہوتی۔ اور دماغ کو آکسیجن نہ ملے تو اسکا کوئی حصہ مفلوج ہو سکتا ہے۔
انکی ابھی کال آئی کہ امی کو ناراض چھوڑ کر ہم لوگ ہسپتال آگئے تھے۔ نارمل ڈیلیوری ہوئی ہے مگر امی کہہ رہی ہیں کہ وہ نہیں آئیں گی۔ اور نہ ہی میں بیگم کو گھر لے کر آؤں۔ میں نے کہا یار میری مانو تو بیگم کو کل اسکے میکے چھوڑ آؤ۔ اسے گھر لیجا کر اپنی امی سے ذلیل نہ کرانا۔ پہلے امی کو خود سمجھاؤ جب بات سمجھ جائیں تو بیگم کو لے جانا۔ ابھی گھر جاؤ گے تو اس خوشی کے موقع پر بھی گھر میں ماتم ہی ہوگا۔
یہ ہم لڑکوں کی مائیں اس نسل در نسل چلتی آرہی پریکٹس کو کب ترک کریں گی؟ کہ ڈیلیوری کے وقت وہ ہی ہوگا جو وہ کہیں گی۔ اس ضد نے یقیناً ماضی میں بھی لاکھوں لڑکیوں کو جسمانی اور ذہنی اذیت دے کر انکے لخت جگر پیدائش کے وقت جان سے مارے ہونگے اور بچ جانے والوں میں سے کئیوں کو عمر بھر کی معذوری دی ہوگی۔ اور یہ ضد آج بھی بے شمار گھروں میں پائی جاتی ہے۔
ایسی صورت حال میں لڑکے کا نیوٹرل رہنا ایک مجرمانہ فعل ہے۔ وہ اپنی بیوی اور بچے کی زندگی داؤ پر کیسے لگا سکتا ہے؟ جو لوگ اس غلطی کو کسی وجہ سے کر چکے وہ ہی جانتے کہ اسکی قیمت کتنے درد سہہ کر ادا کرنی پڑتی ہے۔ ہم سب کچھ اللہ پر ہی ڈال دیتے ہیں کہ اللہ کو ہی یہی منظور تھا۔ مگر احتیاط کرنے اور ڈیلیوری جیسے زندگی موت والے عمل میں جدید سائنس کی ترقی اور آسانی سے سے مدد لینے میں آخر برائی ہی کیا ہے؟