Thursday, 02 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Khateeb Ahmad
  4. Neki Kar Darya Mein Daal

Neki Kar Darya Mein Daal

نیکی کر دریا میں ڈال

دو سال پرانی بات ہے۔ مجھے ڈی سی آفس سے کال آئی کہ آپ کے خلاف ایک درخواست آئی ہے۔ کل ڈی سی آفس آکر اسکا جواب دیں۔ درخواست کی تصویر مجھے اسی کال کرنے والے کلرک بھائی نے وٹس ایپ کر دی۔ درخواست گزار کا الزام تھا کہ میں گورنمنٹ سکول کی بسوں کے ڈیزل میں ماہانہ لاکھوں روپے کی کرپشن کرتا ہوں اور میں اپنے سکول میں چلنے والی ٹرانسپورٹ کا انچارج تھا۔

احباب کو درخواست گزار کا تعارف کرانا چاہوں گا۔ ایک آدمی ایک چھوٹی سی سپیشل بچی کو لیکر ہمارے سکول آیا۔ مجھے وہ میری بیٹی عنایہ جیسی لگی۔ اسکے پاس کوئی ڈاکومنٹس یعنی پیدائش پرچی تک نہیں تھی۔ وہ اس لڑکی کا ماموں تھا اور بچی کی والدہ وفات پا چکی تھیں۔ باپ نے دوسری شادی کر رکھی تھی اور اپنی دوسری بیوی کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس بچی کو اپنی ولدیت دینے سے بھی عاری تھا کہ کل کو جائیداد میں حصہ دار نہ بنے۔

نادرا میں اس بندے کا نکاح بھی رجسٹر نہیں تھا جو اس بچی کی ماں سے ہوا تھا۔ جو بھی ہونا تھا وہ بچی کے باپ کی طرف سے ہونا تھا اور وہ ہاتھ پلا نہیں پکڑا رہا تھا۔ اپنے سسرال سے تو وہ پہلے ہی چالو تھا سامان جہیز کی واپسی پر انہوں نے اسے عدالت میں کافی ذلیل کیا تھا۔ (یہ بات اس نے بتائی)۔

اپنا تعلق استعمال کرکے دو آن ڈیوٹی پولیس کے سپاہی اسکی دوکان پر بھیجے۔ ان کو یہی کہا کہ اسے سمجھا کر یا آخری حل ڈرا دھمکا کر بس بچی کی پیدائش پرچی اور ب فارم بنوا دیں۔ آپکی بھی ایک معصوم بچی پر نیکی ہوگی۔ ورنہ اسکی تو کوئی پہچان ہی نہ ہوگی۔ باپ کے ہوتے بھی باپ کا نام نہیں ہے اسکے پاس۔ خیر یہ طریقہ کام کر گیا۔ انہوں نے اسے اپنے طریقے سے تھوڑا دبایا تو چار و لاچار اس نے ڈاکومنٹس بنا دیے۔

اسکے بعد اس بچی کا ڈس ایبیلٹی سرٹفیکیٹ بنوایا۔ تو اس میں دو معذوریاں تھیں۔ سماعت سے محرومی اور دانشورانہ پسماندگی۔ ڈیف بچوں کے ساتھ بٹھانا ممکن نہیں تھا کہ بچی کا رویہ ٹک کر بیٹھنے والا نہیں تھا۔ بہت شور کرتی اور دوسرے بچوں کو بھی تنگ کرتی تھی۔ دانشورانہ پسماندہ بچوں میں بٹھانے پر اس بچی کے ننھیال رضامند نہ ہوتے تھے۔

اس سے بڑی بات سنئیے کہ ایسی ڈس ابیلٹی کا ایڈمشن کرنا ہماری پالیسی میں ہے ہی نہیں۔ پھر بھی اکامو ڈیٹ کیا۔ انکا گاؤں ہماری بس کے روٹ میں نہیں تھا۔ میں ہی ٹرانسپورٹ انچارج تھا تو بڑی تگ و دو کرکے روٹ بدل دیا کہ اس بچی کے پاس نہ باپ ہے نہ ہی ماں اسے تعلیم دینا تو ریاست کی ذمہ داری ہے اور میں ریاست کا ایک جزو ہوں میرے اختیار میں جو ہے وہ کروں گا۔

اس بچی کی نانی اور خالہ بھی آئیں۔ ان کو میں نے اور ہماری سائیکالوجسٹ نے سمجھایا کہ یہ بچی ڈیف ہوتی تو اسے ڈیف کلاس میں بٹھایا جا سکتا تھا۔ اسکی میجر ڈس ابیلٹی عقل و دانش کا کم ہونا ہے۔ ساتھ چلتے ہوئے لڑ کھڑا کر گرتی بھی ہے۔ تین ڈس ابیلیٹز میں فال کرتی ہے۔ تو اسے جہاں پہلے رکھنا چاہئیے ہم وہاں ہی رکھیں گے۔ وہ بضد تھے کہ اسے پاگلوں کی کلاس میں نہ بٹھائیں۔ یہ ان جیسی ہو جائے گی اور وہ سب اس سے اچھے بچے تھے۔ یہ سب سے زیادہ شرارتی اور لاڈ پیار میں حد سے زیادہ بگڑی ہوئی اور مار دھاڑ کرنے والی۔

مجھے کبھی کسی کی کال آنے لگی تو کبھی کسی چوہدری اور ایم پی اے یا ایم این اے کے پی اے کی کہ فلاں بچی کا مسئلہ حل کریں۔ میں ان کو کہتا کہ جب اس بچی کے پاس کوئی کاغذ نہیں تھا تب آپ کہاں تھے؟ سب کچھ کرکے اب اسکو داخل بھی کر لیا ہے اور جہاں اسے ہونا چاہئیے وہاں رکھا ہے تو آپ مداخلت کرنے آگئے ہیں۔ ان کو بات سمجھ آجاتی اور کہتے کہ ہمارے پاس آئے ہیں سر تو کال کرنی تھی آپ ناراض نہ ہوں۔ جو بہتر ہے وہی کریں۔

دو ماہ تک یہی تنازع چلتا رہا اور انکی مداخلت حد سے بڑھنے لگی تو سکول انتظامیہ نے اس بچی کا نام خارج کر دیا۔ داخلہ کمیٹی پہلے ہی اس بچی کا داخلہ کرنے پر رضا مند نہیں تھی کہ یہ لوگ بعد میں بہت تنگ کریں گے ان کو کچھ بھی سپیشل ایجوکیشن کا علم نہیں ہے اور وہی ہوا۔

جب بچی کا نام خارج کیا تو وہ لوگ شاید ہمارے ڈی ای او آفس گئے۔ وہاں سے بھی کیا ہونا تھا ہم نے انکی درخواست کے جواب میں جو سچ تھا وہ لکھ دیا اور پھر اسی بندے نے فون کرکے بدتمیزی کی اور سنگین نتائج کی دھمکیاں لگائیں اور پھر ایک جھوٹی درخواست لکھ کر ڈپٹی کمشنر کو دے دی۔

درخواست گزار اس بچی کا ماموں ہی تھا۔ جسے سکول آنے پر چائے بوتل میں خود پلایا کرتا تھا۔

میرے کولیگ اور دوست سر شجر حسین کو پہلے تو میں نے اس درخواست کا بتایا ہی نہیں۔ جب درخواست خارج ہوگئی تو بتایا۔ انہوں نے کہا آپ کا علاج تو کچھ اور ہی بنتا ہے۔ آپکی پٹائی بنتی ہے۔ ان کا کوئی قصور نہیں۔ خیر ابھی اور کریں نیکیاں۔ یہ سب کچھ کرکے ہم اب توبہ کرچکے ہوئے ہیں۔ آپ ابھی جوان ہیں ہمت اور برداشت ہے تجربے کرتے رہیں۔

وہ اپنی نوعیت کا پہلا اور آخری تجربہ نہیں تھا۔ اب بھی میں ایسے کاموں میں ممکنہ انجام جانتے ہوئے بھی پڑ جاتا ہوں اور کوئی نیا سبق ملنے پر اکیلا بیٹھا بیٹھ کر قہقہے لگا کر انسانی نفسیات کی جزیات اور فطری رویوں کو قریب سے دیکھ کر ہستا ہوں۔ دل نہیں ٹوٹتا نہ ہی برا ہوتا ہے۔ نتائج اچھے ہوں یا برے ویسے بڑے مزے کے ہوتے ہیں۔ ابھی جوانی ہے ہمت اور برداشت بھی ہے تو تجربات چلتے رہنے چاہئیں۔

Check Also

Aurat Kya Hai

By Muhammad Umair Haidry