Muft Cheez Ki Koi Qadar Nahi Karta
مفت چیز کی کوئی قدر نہیں کرتا
ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ ہمیں ہمیشہ کامیابی ملے۔ یا جیسا ہم سوچتے ہیں سب ویسا ہو۔ سب اچھا ہی ہو اور کچھ بھی برا نہ ہو۔ اکثر ویسا ہی ہو جاتا جیسا ہم نہیں چاہ رہے ہوتے۔ میں سپیشل بچوں اور بالغ افراد کی تعلیم و بحالی پر پچھلے بارہ سال سے کام کر رہا ہوں۔ اور ان سالوں میں سیکھی گئی ایک چیز آپ سے شئیر کر رہا ہوں۔ کہ کوئی بندہ سپیشل ہے یا نارمل جس کو کوئی بھی چیز مفت ملتی ہے وہ اسکی کوئی قدر نہیں کرتا۔ ہم بظاہر ہمدردی کر رہے ہوتے مگر اگلے بندے کے لیے وہ ہمدردی قاتل ثابت ہوتی ہے۔
گزشتہ برس کچھ ایسے واقعات پیش آئے جنہوں نے مجھے اپنے کام کی نوعیت بدلنے پر مجبور کر دیا۔ کچھ سپیشل افراد اور انکے گھر والوں کو سمال بزنس شروع کرائے گئے۔ ڈونرز کی طرف سے پیغام تھا کہ ہم دیے گئے پیسے واپس نہیں لیں گے۔ آپ یقین کریں ان لوگوں میں سے اکثریت نے وہ سیٹ اپ چند ماہ میں ختم کر دیا۔ کسی مجبوری کا بہانہ بنا کر کام کرنے کا سامان تک بیچ دیا اور پھر اسی حالت میں آ گئے جہاں تھے۔ کسی کو فروٹ، دہی بھلے، فروٹ چاٹ، چنا چاٹ کی ریڑھی لگوائی تھی۔ تو کسی کو گیس ویلڈنگ کا کام شروع کرایا کسی کو برگر پوائنٹ بنا کر دیا تھا اور کسی کو سموسے پکوڑے چپس وغیرہ بنانے کا سیٹ اپ شروع کرایا تھا۔
ایسا نہیں ہے کہ بس کام شروع کر دیا۔ کئی کئی دن ان کی ذہن سازی کی گئی۔ محنت کرنے اور خود کمانے کی ترغیب دی گئی۔ یہ سمجھایا گیا کہ کوئی بھی کام فوری نہیں چل پڑتا کچھ وقت لگتا ہے۔ اور صبر و تحمل سے کام لینا ہوتا ہے۔ مگر کاروبار میں اپنا کچھ لگا نہیں ہوا تھا تو چند ایک کے سوا کسی نے محنت نہیں کی۔ اور سب لوگ وہیں آ گئے جہاں پہلے تھے۔ اب وہ پھر کسی ڈونر کی تلاش میں ہیں کہ انکی مدد کی جائے۔ مدد ایسی کہ بس ماہانہ پیسے ملیں راشن ملے کچھ بھی ہاتھ سے کرنا نہ پڑے۔
اب ہم اس پراجیکٹ کو مکمل بند کر چکے ہیں۔ جس کو کام شروع کرائیں گے اس سے پورے پیسے آسان اقساط میں طے شدہ مدت میں واپس لیں گے۔ اور کسی ضمانت کے بغیر کوئی قرض نہیں ہوگا۔ چند لوگوں نے رابط کیا۔ جب یہ بات کی تو کہنے لگے اگر کام ہی نہ چلا تو رقم واپس کیسے دیں گے۔ آپ رہنے دیں ہم کسی اور سے بات کر لیتے ہیں۔
دو سال قبل اپنے سکول میں ہی زیر تعلیم ایک سپیشل بچے کے والد کو بکری خرید کر دی۔ الحمدللہ انہوں نے دل خوش کر دیا۔ پچھلے عید قربان پر اسی بکری کا ایک بکرہ انہوں نے 60 ہزار روپے کا بیچا اور سارے پیسے مجھے دے دیے۔ جبکہ انکی بکری 38 ہزار کی آئی تھی۔ انکا کہنا تھا ان پیسوں سے کسی اور مستحق کی ایسی ہی مدد کر دی جائے۔
الیکٹرانک وہیل چیئر ہم کسی کو بھی نہیں دیتے۔ کہ وہ وہیل چیئر مارکیٹ میں بیچی جا سکتی ہے۔ اور آئے روز کئی سپیشل افراد اپنی الیکٹرانک وہیل چیئر اور بائیک فروخت کرتے دکھائی دیتے ہیں جو انکو کسی ہمدرد نے خرید کر تحفہ کی ہوئی ہوتی۔ ڈونر کو یہ بتا دیا جاتا کہ وہ خراب ہوگئی تھی۔ سادہ وہیل چیئر دینا ہی بہتر ہے اور اب کوشش کرتے ہیں کچھ نہ کچھ رقم چاہے ایک دو ہزار ہی کیوں نہ ہو والدین سے بھی شامل کرایا کریں کہ وہ اسکی کئیر کریں۔
سپیشل افراد کی بحالی میں سب سے بڑا چیلنج ان کی ذہن سازی کرنا ہے۔ ان کو دوسروں پر الزام لگانے دوسروں سے گلے شکوے کرنے سے روکنا ہے۔ نہ کہ مالی وسائل کی کوئی کمی ہے۔ آپ اربوں روپے لگا دیں میں لکھ کر دینے کو تیار ہوں یہ چند ماہ میں سب کچھ بیچ کر پھر وہیں کھڑے ہونگے جہاں تھے۔ جب تک یہ محنت کی عظمت کو نہیں سمجھیں گے۔ کسی سے کچھ بھی فری لینے کو برا نہیں سمجھیں گے۔ اپنی اس حالت کا ذمہ دار حکومت اور دیگر لوگوں کو سمجھتے رہیں گے۔ علاج کی نفسیات سے نکل کر ان بچوں کو مختلف قبول نہیں کریں گے۔ ان کی حالت کبھی نہیں بدل سکتی۔
ایک سپیشل بچے کے والد کو یہی سمجھا رہا تھا تو بولا آپ نے مدد نہیں کرنی تو نہ کریں ہمیں لیکچر نہ دیں۔ ہم جانتے ہیں کیا کرنا ہے۔ کسی اور جگہ رابط کر لیتے ہیں۔ اور اسکا رویہ انتہائی جاہلانہ تھا جیسے اسکے سپیشل بچے کی اس حالت کا میں ذمہ دار ہوں۔ اور وہ کوئی بھی کام کرنے کو تیار نہ تھا بس اسے پیسوں میں مدد چاہیے تھی۔ اور وہ پیسے اس نے اسکے علاج پر غارت کرنے تھے۔ وہ بتا رہا تھا بچے کو لیکر سندھ میں کسی جگہ جانا ہے۔ اور مسکولر ڈسٹرافی کا کوئی علاج نہیں ہے یہ ہم والدین کو سمجھا ہی نہیں سکتے۔ اسے بھی کہا کہ اسکا کوئی علاج نہیں ہے تو مجھے بظاہر برا بھلا اور دل میں یقیناً گالیاں دیتا ہوں چلا گیا۔
جو والدین ان بچوں کو قبول کرتے ہیں۔ انکی تعلیم و بحالی (اگر ممکن ہو) کرتے ہیں۔ یا جو سپیشل افراد قرض حسنہ لیکر واپس کرنے کی نیت سے کوئی کام کرتے ہیں۔ اور دل و جان سے محنت بھی کرتے ہیں۔ وہ اپنے ارادوں میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔ اور جن کو فری میں کچھ بھی مل جاتا۔ وہ سب اڑا کر پھر سے کسی مہربان کی راہ دیکھ رہے ہوتے۔ اور انکے حالات کبھی بھی نہیں بدلتے۔ کہ کوئی کسی کو کتنا دے سکتا ہے؟ اور کب تک دے سکتا ہے؟ اپنا بوجھ جیسے بھی ہو خود ہی اٹھانا پڑتا ہے۔ کوئی سہارا دے تو اسے سہارا ہی سمجھیں کہ یہ وقتی آسانی ہے۔ اور اسکے بعد ہم نے اس سہارے کے بغیر خود کو سنبھالنا ہے۔
ایسا انشاءاللہ ممکن ہوگا۔ مگر کم از کم ایک صدی لگے گی پاکستان سپیشل افراد کو اس لیول تک آنے میں۔ اور ہم ان رویوں کے ساتھ انشاءاللہ کام کرتے رہیں گے۔ ان افراد کو محنت کی طرف راغب کرتے رہیں گے۔ کہ دس میں سے ایک بھی اگر یہ راز پا گیا تو وہ بعد میں آنے والوں کے لیے ایک مثال ہوگا۔