Moonjhi Group
مونجھی گروپ
میری عمر 10 سے 12 سال ہوگی۔ جب پہلی بار میں نے محنت کرکے پیسے کمائے تھے۔ سکول سے گرمی کی چھٹیاں تھیں۔ گلی محلے کے چند لڑکوں نے آپس مشورہ کیا کہ ہم سارہ دن ٹیوب ویلوں پر نہاتے رہتے ہیں جامن کھانے بڑی دور دور ڈیروں پر جاتے ہیں۔ سارا دن گرمی میں ضائع کرتے ہیں تو کیوں نہ ہم مونجھی (دھان) لگانا شروع کریں۔ جو لوگ نہیں جانتے میں ان کو بتا دیتا ہوں کہ چاول کی فصل آج کل کاشت ہو رہی ہے۔ اسکا پودا کھیت میں ہاتھ سے لگایا جاتا ہے۔ چاول بننے سے پہلے کی شکل کو مونجھی یا دھان کہا جاتا ہے۔ اور یہ کام ہمیشہ سے سکولوں سے گرمی کی چھٹیوں میں ہی ہوتا ہے اور دیہاتی سٹوڈنٹس آج بھی اس سے اپنی پاکٹ منی بناتے ہیں۔
اس وقت 300 روپے ایک ایکڑ میں دھان لگانے کی اجرت تھی۔ ہم چھوٹے چھوٹے 8 بچے اس کام کے لیے تیار ہوگئے اور گھروں میں بھی ماؤں کو بتا دیا کہ ہمارا ناشتہ لیکر فلاں جگہ آجانا۔ صبح 6 بجے ہم کھیت میں تھے اور دو سے تین بجے تک ہم نے ایک ایکڑ میں فصل کاشت کر دی۔ اس گروپ میں دو لڑکے تھوڑے سے سینئر تھے وہ اس سے پچھلے سال بھی مونجھی لگا چکے تھے، وہ دونوں ہی اب وفات پا چکے ہیں۔
ایک عثمان بٹ تھا۔ بیکری پر کام کرتا تھا ہاتھ مشین میں آیا اور ہاتھ بیکار ہوگیا۔ پھر ماں فوت ہوگئی۔ اسے کہیں سے بھی نفسیاتی سپورٹ نہ مل سکی۔ کہیں جاب نہیں ملتی تھی۔ تو نجانے کیسے نشے پر لگ گیا اور کہیں سے زہریلا نشہ ملنے پر وفات پا گیا۔ دوسرا لقمان تھا۔ اچھا لڑکا تھا میرا بیسٹ فرینڈ تھا۔ احمدیہ کمیونٹی کے ساتھ اس کا میل ملاپ بڑھا تو انہوں نے اسے احمدی کر لیا اور پھر اسے ایک دن قتل کر دیا گیا۔ اللہ جانے اسکا قاتل کون ہے آج تک کوئی سراغ نہیں ملا۔
خیر ان دونوں مرحومین نے ہمیں لیڈ کیا اور زندگی میں پہلی بار ہم نے ساڑھے سینتیس روپے فی کس ایک دن کی آمدنی سے اپنے پیسے کمانے والی زندگی کا آغاز کیا۔ یہ بیس بائیس سال پرانی بات ہے۔ اس وقت گھر سے عموماً ایک یا دو روپے کا نوٹ پاکٹ منی ملا کرتا تھا۔ اور چالیس روپے ایک دن کے ملنا بظاہر بہت بڑی رقم تھی اور خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ چند دن میں ہی ہم دس لڑکے ہوگئے ہاتھ تیز ہوگیا اور ہم 1.5 ایکڑ دھان کاشت کرنے لگے۔ یعنی 450 روہے دس لڑکوں کی اجرت اور 45 روپے ایک دن کے ملنے لگے۔
جس بچے کو گھر سے ہر روز 1 یا 2 روپیہ ملتا ہو وہ 45 روپے خود سے کر روز کمانے لگے تو سوچیں کانفیڈینس کہاں پہنچ جائے گا؟ سکول کے چند ایک استادوں کا بھی دل سے مشکور ہوں جنہوں نے یہ سمجھایا کہ پارٹ ٹائم پیسے کمانے لگے ہو تو بیٹا پڑھائی بھی ادھوری نہیں چھوڑنی۔ اپنا خرچ خود اٹھا کر یونیورسٹی پہنچنا ہے اور اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کرنی ہے۔ نہ کہ ماں باپ کے پیسوں سے ایم اے، ایم فل پی ایچ ڈی کرکے نوکری کی تلاش میں در در خوار ہوتے پھرنا ہے۔
آپ یقین کریں ہم میں سے کوئی ایک بھی اتنا غریب نہیں تھا کہ ہمارے گھر والوں کو بچوں سے لیبر کرانے کی ضرورت پڑے۔ میں اپنی بات کروں تو ابو سعودیہ تھے اور الحمدللہ اتنے پیسے بھیج دیتے تھے کہ ہمارا گزارا بہت اچھے سے ہو جاتا تھا۔ ہم سب لڑکے اپنے پیسے اپنے ہی پاس جمع کر رہے تھے۔ اور ہم سب سٹوڈنٹس تھے۔ گاؤں کے سرکاری سکول میں پڑھنے والے ایورج سے لڑکے۔ ہم میں سے کوئی ایک بھی کلاس کا مانیٹر یا لائق فائیک ممی ڈیڈی بچہ نہ تھا۔
اور ہم سب کلاس فیلو بھی نہیں تھے۔ جونئیر سینئر سب ملے ہوئے تھے۔
سوری بات کافی لمبی ہوگئی۔ مدعے پر آتا ہوں۔ ہمارا یہ گروپ کوئی 7 سے 8 سال تک قائم رہا۔ 2004 میں میرا میٹرک تھا اس سال ہم تین لوگ ایک ایکڑ دھان لگاتے تھے۔ اور کئی بار ایسا ہوا ایک چھٹی کر لیتا تو دو بھی زیادہ ٹائم لگا کر ایکڑ پورا کرکے ہی آتے تھے۔ گرمی کی چھٹیوں میں وقت ضائع کرنے کی بجائے یہ بہترین مصروفیت تھی۔ ڈیروں پر لگے ہوئے درختوں سے جامن کھانے آم کھانے امرود کھانے ٹیوب ویلوں پر نہانا جسمانی ورزش ہونی اور ساتھ بونس میں پیسے بھی کمانے۔ جب میں کالج گیا تو ایک فوٹوگرافر کا اسسٹنٹ بن گیا۔ گھر میں پی تھی ڈیسک ٹاپ سسٹم موجود تھا تو میں نے فوٹو شاپ چلانا سیکھ لیا تھا۔
اسکے بعد اب کئی جابز بدلی، گورنمنٹ جاب آنے کے بعد بھی میں سسٹم کا حصہ نہ بن سکا اور سیلری تک خود کو محدود نہ کیا۔ الحمدللہ آج کے دن تک اپنی ذات کو (کتابوں اور سفر کے ذریعے) اپنے سرکل میں موجود دوستوں کو اپنے مالی حالات کو بہتر کرنے کا یہ سفر مسلسل جاری ہے کہ زندگی جہد مسلسل کا نام ہے۔ جب تک ہم چلتے رہتے ہیں زندگی باقی رہتی ہے۔ جہاں رک گئے مر گئے۔ بظاہر تو زندہ ہی ہونگے مگر زندگی میں کوئی مقصد اور خوشی نہ ہوگی۔ ساری بھاگ دوڑ کچن چلانے تک محدود ہوگی اور کچن بھی ٹھیک سے نہ چل پائے گا۔
بائیس سال پہلے میرے مونجھی گروپ کے دو تین پارٹنرز آج بھی مونجھی لگاتے ہیں اور سال کے باقی مہینوں میں کوئی اور محنت مزدوری کرتے ہیں۔ میرے ساتھ اس یا اسکے اس پاس موجود دیگر فوٹو سٹوڈیوز میں ملازمت کرنے والے بھی کچھ لڑکے آج تک وہیں 25 سے 30 ہزار ماہوار پر 14 سے 16 گھنٹے فوٹو ایڈیٹنگ کرتے ہیں۔ میں لاہور میں ہوم ٹیوٹر بھی رہا ہوں۔ آج بھی میرے کئی دوست ہوم ٹیوٹر ہیں اور میں ان کو سپیشل بچوں کے ہوم سیشن ریفر کرتا ہوں۔ میں گریڈ 9 میں ایجوکیٹر بھرتی ہوا تھا۔ میں نے جائن ہی نہ کیا تھا۔ میرے ساتھ اس وقت بھرتی ہونے والے بعد میں ESE ہوگئے یعنی ٹیچر کا کم از کم سکیل 14 ہوا تو ان کی 9 میں سے 14 میں چھلانگ لگ گئی۔ بے شمار اس سکیل مین ملازمت کر رہے ہیں اور اس مہنگائی کے دور میں چالیس ہزار ماہوار تنخواہ پر سیکنڈ ٹائم ٹیوشن وغیرہ پڑھا کر بمشکل اپنا کچن چلا رہے ہیں۔
پھر سکیل 16 میں بھرتی ہوا وہ بھی لکھ کر دے دیا کہ جائن نہیں کرنا۔ کسی مہربان نے بتا دیا تھا کہ تم سکیل 17 کے اہل ہو۔ بس اسکی بات پر دل سے یقین کر لیا تھا اور کوشش بھی کی۔ اسی دوران غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ لاہور ہیڈ آفس میں پروگرام آفیسر رہا، لبارڈ ووکیشنل ٹریننگ کالج برائے معذور افراد لاہور میں وائس پرنسپل رہا، یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی میں ایک پراجیکٹ کیا۔ ساتھ ہی ایم اے اور ایم فل ریگولر جامعہ پنجاب سے الحمدللہ امتیازی نمبروں سے مکمل کیا۔ اور پھر 2014 میں محکمہ خصوصی تعلیم حکومت پنجاب کو سکیل 17 میں بطور سینئر سپیشل ایجوکیشن ٹیچر جائن کیا۔ اس وقت میری تنخواہ کوئی 6 سو ڈالر تھی۔ وقت گزرنے لگا تو تنخواہ بظاہر تو بڑھنے لگی مگر روپیہ اپنی قدر مسلسل کھو رہا تھا۔ محض چار سال بعد ہی میری تنخواہ روپوں میں تو کافی بڑھی مگر کسی بھی بین الاقوامی کرنسی میں کنورٹ کرنے یا قوت خرید میں کم ہو کر 4 سو ڈالر پر آگئی۔
میں حیران ہوا کہ یہ کیا سیاپا ہے میری تنخواہ تو اب تک 9 سو ڈالر ہونی تھی مگر یہ 2 سو ڈالر کم ہوگئی۔ دوستوں سے اس تماشے کی بابت پوچھا تو انہوں نے کہا کہ بھائی یہ تنخواہ ہر سال ایسے ہی کم ہوگی۔ یہاں پاکستانی روپوں میں کی جانی والی چھوٹی موٹی سکیل 17 یا 18 (ٹیچنگ کا) کی سرکاری نوکری یا کوئی بھی پرائیوٹ نوکری ہمیں خوشحالی کی طرف کبھی بھی لیکر نہیں جا سکتی۔ فرصت کے اوقات میں اپنی قابلیت اور اسکل کو پالش کرنے میں لگاؤ اور پیسے کمانے کے کچھ اور زرائع تلاش کرو۔ لکھنا آتا تھا یوٹیوب چینلز کے لیے اسکرپٹ لکھنے سے آغاز کیا۔
اکیڈمی میں بھی پڑھایا، پیپر مارکنگ میں ڈیوٹی کی، اوپن یونیورسٹی کی ٹیوٹر شپ لی اسکی آن لائن کلاسز پڑھائیں، پیپر مارکنگ کی اور چھوٹی موٹی انویسٹمنٹ کرکے چند سٹارٹ اپس بھی شروع کئے جو اکثر فلاپ ہی ہوئے۔
اسی عرصے میں پہلی شادی بھی فلاپ ہوئی۔ میری بیٹی عنایہ پہلی شادی سے ہے۔
مگر کبھی بھی ہمت نہ ہاری کہ 90٪ سٹارٹ اپس فلاپ ہی ہوتے ہیں۔ رشتے بنتے ٹوٹتے رہتے ہیں۔ یہ حادثے تو زندگی کا حصہ ہے۔ ازل سے ابد تک لوگوں کے ساتھ پیش آتے رہیں گے۔ انکے بعد ہی تو جینے کی عقل آتی ہے۔ کاروبار میں منافع کم اور گھاٹے زیادہ بھی ہوا کرتے ہیں۔ سب سے پہلا بزنس کا تجربہ جو کامیاب ہوا وہ گزشتہ برس چاول فروخت کرنے کا تھا۔ اور بھی بہت کچھ چلتا رہتا ہے سب کچھ یہاں شئیر نہیں کیا جاسکتا کہ بہت سے دوست یار ایسی ہی باتوں کی ٹوہ میں رہتے ہیں کہ ایسی انفارمیشن کو جب موقع ملے منفی پراپیگنڈے کے طور پر استعمال کر سکیں۔
ایک آخری بات شمامتہ العنبر (میری اہلیہ ضوریز کی ماما) کے میری زندگی میں آنے کے بعد میں نے بہت کچھ سیکھا۔ بہت کچھ پایا۔ اس نے مجھے سپیس دی کہ شادی ایک سوشل ایگریمنٹ ہے۔ اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ فریق دوم کو بس اپنے تک محدود کر لو اور اسکی ترقی کا سفر روک دو۔ بلکہ اسکی زندگی کے مقصد میں اسے آگے بڑھنے میں سپورٹ کرو۔ ایسا بیوی سوچتی ہو تو خاوند بھی اسے قید نہ کرے اسکے پر نہ کاٹے بلکہ اسے آسمانوں میں اڑنے کا اعتماد دے۔ یقین مانیں گھر سے سکون ہو تو باہر بندہ دنیا بھی فتح کر سکتا ہے۔ گھر میں ہی چِک چِک اور پٹ سیاپا چلتا رہتا ہو تو باہر کھے کرنی ہے۔
باتیں اور بھی بہت ہیں۔ پھر کبھی سہی ان شاءاللہ۔ آج کی اس لمبی تمہید کو سمیٹوں تو بس یہ یاد رکھیں۔ کہیں بھی رکنا نہیں ہے۔ گر جانے پر دوبارہ اٹھ جانا ہے۔ سفر لمبا ہو جائے تو تھکنا نہیں ہے۔ کسی بڑے مقصد کے تعاقب میں زندگی جینی ہے۔ ان شاءاللہ ایک دن من چاہی کامیابی قدم چومے گی۔ اپنی نظروں میں آپ کا قد بڑھ جائے گا اور روح کو ایک ایسی خوشی ملے گی جو کسی بھی دھن دولت سے خریدی نہ جا سکتی ہو۔ زیادہ پیسہ کمانا ہی کامیابی ہر گز نہیں ہے۔ کیا آپ اپنی زندگی، زندگی کے حاصلات اور جاب/ کام یا پیشے سے خوش بھی ہیں؟ یہ ہے وہ سفر جو طے کرنا ہے۔ اور سچی بات یہ ہے کہ پیسوں کے بغیر بھی کوئی زندگی نہیں ہے۔