Mirgi Ka Operation
مرگی کا آپریشن
پاکستانی کم عمر آئی ٹی فیلڈ میں ماہر ارفعہ عبدا لکریم پیدائشی طور پر مرگی، جیسے مرض سے شدید لیول پر متاثرہ تھیں۔ اور انکی وفات کی وجہ بھی یہی کم بخت بیماری بنی۔ جنوری کے مہینے میں سال 2012 میں ارفعہ کریم کی وفات ہوئی اور اس وقت میں اپنے پروفیشنل کیریئر کا آغاز کر چکا تھا۔ مرگی کے علاج میں اس وقت لی ریس اور ایپی وال شربت یا ایپی وال 250 اور 500 ملی گرام کی گولی یا اس سے ملتی جلتی دوا دی جاتی تھی۔ اور بے شمار کیسز میں ادویات سے بھی مرگی کے دورے کنٹرول یا کم نہیں ہوتے تھے۔ اس کی بے شمار اقسام ہیں پھر کسی مضمون میں لکھوں گا۔
اللہ بھلا کرے ٹیکنالوجی کا۔ امریکہ میں سال 2015 میں عوامی سطح پر مرگی کے علاج میں ایک پیشرفت آئی اور اسکا آپریشن ہونے لگا۔ قابل فخر بات یہ ہے کہ اس ٹیم میں شامل ایک پاکستانی نیورو سرجن بھی ان میں شامل تھے۔ 2015 میں ہی ان کو امریکہ کی طرف سے پروفیسر کا خطاب دیا گیا۔ ان کا نام پروفیسر آصف بشیر ہے۔ جو اس وقت لاہور میں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف نیورو سائنسز اور لاہور جنرل ہسپتال میں نیورو سرجری کے شعبہ کے سربراہ ہونے کے ساتھ نجی حیثیت میں کام کر رہے ہیں۔ آصف بشیر صاحب نے ہی پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار سال 2021 میں مرگی کے دو کامیاب آپریشن کیے تھے۔ اور دونوں بچے الحمدللہ لگ بھگ سو فیصد ٹھیک ہوگئے تھے۔ اس کے بعد اب تو کافی بچوں اور بڑوں کا کامیابی سے آپریشن ہو چکا ہے۔
یہ آپریشن ہوتا کیسے ہے؟
مرگی کا یہ حساس آپریشن صرف ایک گھنٹے کا ہوتا ہے۔ عموماً تین گھنٹے کے بعد ہم مریض کو گھر بھیج دیتے ہیں۔ اس میں گردن میں شہ رگ کے اوپر ایک ڈیوائس کو لگایا جاتا ہے۔ جسے چھاتی کے اوپر ایک چھوٹی بیٹری کے ساتھ لگا کر منسلک کرلیا جاتا ہے اور اس کی پروگرامنگ کی جاتی ہے۔ جب الیکٹرول متحرک ہوتا ہے تو وہ دماغ کو بھی متحرک کرتا ہے۔ اس طریقے سے مرگی کے مریضوں کے دورے کم ہو جاتے ہیں یا ختم ہو جاتے ہیں۔
مرگی کی بیماری کو پاکستان میں ایک معذوری کا درجہ حاصل ہے۔ یہ Other Health Impairments کی لسٹ میں آتی ہے۔ اور اس سے متاثرہ لڑکوں اور لڑکیوں کو اپنی ساری عمر بہت ہی مشکل میں گزارنی پڑتی ہے۔ شادی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کسی کو معلوم ہو کہ جہاں ہم بیٹے یا بیٹی کا رشتہ دیکھنے جا رہے ہیں وہاں بیٹے یا بیٹی کو مرگی ہے۔ آپ رشتہ کرنا تو دور وہاں جانا بھی گوارہ نہیں کریں گے۔ ہاں آپ کو کوئی بڑا لالچ دیا جائے تو بات بن سکتی ہے۔ پیسہ سب کا باپ ہے۔
خیر آج کے دور میں یہ بیماری بلکل ختم ہو سکتی ہے۔ حکومت پاکستان اگر تعاون کرے۔ اور اس آپریشن میں استعمال ہونے والی مشینری اور دیگر ٹیکنالوجی سے امپورٹ ڈیوٹی ختم کر دے۔ یہ ٹیکنالوجی اپنے تمام ہسپتالوں میں موجود نیورو سرجنز کو مہیا کرے اور پروفیسر آصف بشیر صاحب سے انکی ٹریننگ کرائے۔ تو ہم پاکستان کا مرگی جیسے مرض سے بہت حد تک پاک کر سکتے ہیں۔ نجی ہسپتال اب اس ٹیکنالوجی کو امپورٹ کر رہے ہیں اور ان شاءاللہ جلد ہی پاکستان میں یہ آپریشن عام اور کم قیمت میں ہونا شروع ہو جائے گا۔
یہی حال دیگر قابل علاج معذوریوں میں علاج کی آپشنز کا ٹیکنالوجی کی دستیابی نہ ہونے وجہ سے ہے۔ باہر کے ملک میں جا کر علاج کرانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ اور نہ ہی ہر کسی کے پاس اتنے وسائل ہیں نہ ہی اتنی آگہی ہے۔ میں ان شاءاللہ کوشش کرتا ہوں کہ جن معذوریوں میں علاج کی آپشن موجود ہے۔ وہ یہاں ہے یا باہر کے ملک میں۔ وہ سب بتاتا ہوں۔ تاکہ جو افورڈ کر سکتے ہیں وہ تو علاج کرا لیں۔ اور شاید حکومت پاکستان بھی اس طرف کچھ دھیان کرکے ان بچوں کے والدین کے دکھوں اور تکالیف میں ان کی داد رسی کر سکے۔