Wednesday, 15 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Khateeb Ahmad
  4. Manfiyat Se Bhare Hue Log

Manfiyat Se Bhare Hue Log

منفیت سے بھرے ہوئے لوگ

ان لوگوں کو جن کا سپیشل بچوں کے ساتھ شاید کسی بھی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ انہیں اکثر یہ کہتے سنا ہے کہ حکومتی اور نجی سطح پر سپیشل بچوں کے نام پر ملنے والے فنڈز کو سپیشل بچوں تک ٹرانسفر نہیں کیا جاتا اور جن کے لیے فنڈز ملتے ہیں وہ انہی حالات میں رہتے ہیں اور فنڈز خرچ کرنے والوں کے حالات بدل جاتے ہیں۔ آج تین دسمبر عالمی یوم برائے آگہی سپیشل افراد پر اس الزام کی سچائی بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔

گورنمنٹ ملازمت کرنے سے پہلے میرا تین ایسے اداروں میں ملازمت کرنے کا تجربہ ہے جو سو فیصد چیرٹی اور زکواۃ خیرات وغیرہ پر چلتے تھے۔ پہلا سپیشل ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ سنٹر جوہر ٹاؤن لاہور نزد سوک سنٹر اتوار بازار کے پاس۔ دوسرا غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ جوہر ٹاؤن کے ہیڈ آفس سمن برگ اور تیسرا تجربہ لاہور بزنس مین ایسوسی ایشن کے تعاون سے چلنے والا ایک ووکیشنل ٹریننگ کالج برائے بالغ سپیشل افراد۔ بالترتیب میں سپیشل ایجوکیشن ٹیچر سے پروگرام آفیسر اور پھر وائس پرنسپل بنا۔ فنڈز کی کلیکشن اور ترسیل کے نظام کو نہ صرف دیکھا بلکہ اس میں شامل ہونے کا بھی موقع ملا۔

ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا جیسا الزام لگایا جاتا ہے۔ ان تینوں اداروں کا کام باہم معذوری سے متاثرہ افراد کو تعلیم اور ہنر کی ٹریننگ دینا تھا، نہ کہ انکے حالات بدلنا اور ان کو روپے پیسے دینا۔ وہ تینوں ادارے اپنی اوقات سے بڑھ کر ڈیلیور کر رہے تھے اور بہت ہی محدود فنڈز میں جیسی سروسز مہیا کر رہے تھے وہ قابل تحسین تھیں اور جو ڈونر ان اداروں کے ساتھ منسلک تھے وہ اس بات کا شعور رکھتے تھے کہ سپیشل بچوں کو کوئی بھی سروس ڈیلیوری اتنی آسان نہیں بے شمار مالی سپورٹ مانگتی ہے اور ایسی صورت میں جہاں والدین ساری سروسز بشمول بچوں کو گھر سے لینا اور چھوڑا بلکل فری مانگ رہے ہوں۔

وہاں کام کرنے والے پروفیشنلز اور مینجمنٹ اگر سائیکل یا بائیک استعمال کریں یا پاکستان میں چلنے والی لوکل ٹرانسپورٹ پر خوار ہوں تو وہ ایماندار ہیں اور اگر ذاتی یا ادارے کی گاڑی استعمال کریں تو بد دیانت؟

وہاں آنے والے تمام بچوں کو انکی ذاتی گاڑی یا الیکٹرک وہیل چئیر دینا دنیا کے کسی ایک ادارے کی پالیسی مجھے بتادیں؟ ہمارا کام ان بچوں کو تعلیم کے ہنر سے آشنا کرکے انکی سوچ بدلنا ہے نہ کہ ہمارے پاس اربوں کھربوں کے فنڈز ہوتے ہیں کہ انکے مالی حالات ہی بدل دیں۔ کسی کو آپ ایک کروڑ روپیہ مفت میں دے دیں۔ یقین مانیں وہ اسے خرچ کرکے پھر راہ دیکھ رہا ہوگا ویسا ہی کوئی اور سخی مل جائے۔ ان پیسوں سے کام بھی کرے گا تو اس میں جان نہیں لگائے گا۔ لاٹریاں جیتنے والوں کے حالات بدلتے پوری دنیا میں کسی نے نہیں دیکھے۔

پروفیشنلز اپنی سروس کا چارج کرتے ہیں اور ان کو انکے وقت کی معقول تنخواہ ملتی ہے۔ میری گورنمنٹ ملازمت میں ڈیڑھ لاکھ کے قریب ماہانہ تنخواہ تھی۔ ڈیوٹی ٹائم 36 گھنٹے ایک ہفتے میں۔ یہاں عمان میں رہتے ہوئے میں سپیشل ایجوکیشن سروسز ڈیلیوری کو جائن کروں تو میرے لیول کے پروفیشنل ہفتے میں 20 سے چوبیس گھنٹے کام کرکے ماہانا پاکستانی سات آٹھ لاکھ روپے کما رہے ہیں۔ جتنا وقت بڑھے گا انکی اتنی ہی آمدن بڑھے گی۔ انکے پاس اپنی ذاتی پراڈو رینج روور اور مرسڈیز ٹائپ گاڑیاں ہیں۔ پوری دنیا میں یہ بہت مہنگی فیلڈ ہے یار پاکستان میں رہتے ہوئے جو لوگ اپنا وقت اس فیلڈ کو دے رہے وہ آج کے دن جادو کی محبت جپھی کے لائق ہیں ناکہ ان پر کیچڑ اچھالا جائے۔

ہماری فیلڈ میں کچھ لوگوں کے کوئی اور بھی سورس آف انکم ہونگے جن کی بنا پر وہ سب تو نہیں کوئی اکا دکا اگر اپنے حالات بدل لے تو اسکی ترقی مشکوک سمجھی جاتی ہے۔ کوئی این جی او بنانے یا چلانے والوں (جو اکثریت میں سپیشل افراد خود یا سپیشل بچوں کے والدین ہوتے ہیں) پر سب سے پہلا الزام یہی لگتا ہے یہ گاڑیاں اور انٹرنیشنل دورے اور عیاشیاں معذور بچوں کے لیے ملنے والے فنڈز سے آئے ہیں۔

اس الزام کا جواب ہے کہ کامن سینس بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ اس ادارے کے کام کے سلسلے میں ان فنڈز سے ہی گاڑی خریدی جائے گی اور اسکی ریگولر کاسٹ بھی انہی فنڈز میں سے جائے گی۔ اگر کوئی انٹرنیشنل ٹرپ ہونا ہی فنڈ ریزنگ کے لیے ہیں تو وہ فرد یا ٹیم اپنے پلے سے ویزہ ٹکٹ اور دیگر اخراجات اپنی سیلری سے کیسے افورڈ کر سکتی ہے؟ آپ بیوقوف ہیں یا دماغ میں بھوسہ بھرا ہوا ہے؟ یا منہ پر بس کتا باندھا ہوا ہے کہ بھونکنے کے سوا کوئی دوسرا کام نہیں کرنا۔ ایسے احساس کمتری کے مارے یا نجانے کن برے ذاتی تجربات سے گزر کر ایسے بن جاتے ہیں اور راہ چلتے ہر کسی کو وٹے مار رہے ہوتے ہیں۔ آپ ان کو تھوڑا عرصہ فالو کرکے دیکھ لیں یہ منفیت سے بھرے ہوئے ہونگے۔

دس سال حکومت پنجاب کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ ہوا۔ بجٹ کیسے ملتا ہے کیسے خرچ ہوتا ہے سب دیکھا بلکہ عملی طور پر خرچ کیا۔ ایک ہیڈ ماسٹر جو اپنی تنخواہ میں سے پیسے خرچ کر رہا ہوتا اور نجانے کب بجٹ ملے تو اس کو واپس ملتے اس پر کرپشن کا الزام لگتا ہے۔ لگانے والے سب سے پہلے وہاں ہی موجود چپڑاسی اور خاکروب چوکیدار مالی اور دیگر درجہ چہارم کے ملازمین اور پھر باہر سے بھی اسی ذہنی سطح کے جو ہمیشہ منفی سوچ رکھتے ہیں۔

ایک سرکاری یا پرائیویٹ سکول جو سپیشل بچوں کے لیے ہے اور وہ اپنے بچوں کو فری ٹرانسپورٹ بھی دے رہا ہے۔ اسے سالانہ بنیادوں پر کروڑوں روپے درکار ہوتے ہیں اخراجات کی مد میں خرچ کرنے کے لیے اور مینجمنٹ بیچاری اسی فکر سے آزاد نہیں ہو پاتی کہ فلاں بلز کیسے کلئیر کرنی ہے اگلے ماہ کی سیلری لیٹ نہ ہوجائے پٹرول پمپ کی پیمنٹ کہاں سے کلئیر کریں۔

اکا دکا کوئی کیس اگر خیانت کرتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ سب کو رگید دیا جائے اور اس فیلڈ کو ہی مشکوک کر دیا جائے۔ آپ صرف ایک سپیشل بچے کی تعلیمی ضروریات کو سال بھر کے لیے سپانسر کرکے دیکھیں آپ دیکھیں گے کہ کتنے پیسے لگتے ہیں۔ سو دو سو بچوں کو بیک وقت تعلیم یا ہنر سکھانا ایک بہت بڑا کام ہے۔ یہ کام کوئی پرائیویٹ ادارہ کرے یا کوئی حکومت وہ قابل تحسین اور داد ہے۔ ان کا دست و بازو بنا جائے۔ اپنا وقت دینا ہو یا مالی امداد یا ان کا ایڈووکیٹ بن کر ان اداروں یا سپیشل افراد کی اور انکے کام اور کردار کی مثبت امیج بلڈنگ کرنی ہو۔ ہمیشہ اپنا کردار مثبت اور عملی طور پر خیر کے کاموں میں شریک ہونے والا رکھیں۔ نہ کہ کچھ بھی کیے بغیر، کچھ بھی عملی طور پر جانے بغیر الزام تراشی کرنے والا۔

Check Also

Public Private Partnership

By Muhammad Aamir Hussaini