Kya Imran Khan Khatarnak Hai?
کیا عمران خان خطرناک ہے؟
کسے نہیں معلوم کہ ٹرمپ کی طرح پاکستان میں عمران خان کو اس سے بھی زیادہ ووٹ پڑے تھے اور باقی تمام پارٹیوں کے پاس مل کر بھی نیلے رنگ جتنے ووٹ نہیں ہیں اور پھر بھی وہ حکومت میں ہیں۔ عمران خان کو اقتدار منتقل نہیں کیا گیا اصلی فارم 45 لے کر الیکشن جیتنے والے امیدوار عدالتوں میں خوار ہوتے اور انصاف کی خاطر روتے ہی رہ گئے۔ کل ایک انٹرویو میں حامد میر کہہ رہا تھا کہ پاکستان کی کسی کورٹ یا پیمرا نے ہمیں قیدی نمبر 804 کا نام اور تصویر آن ائیر کرنے سے منع نہیں کیا۔ بلکہ ایسا نا معلوم افراد کی خواہش پر ہو رہا ہے اور وہ نامعلوم سب کو معلوم ہیں۔
سمجھ سے باہر ہے کہ اسٹیبشملنٹ اتنی کھل کر کیوں سامنے آگئی ہے؟ کیا ان کو نہیں معلوم کہ عوام انکے متعلق کیا رائے رکھتے ہیں؟ کتنی آوازوں کو دبایا جا سکے گا؟ کتنے بندوں کو اٹھایا جا سکے گا؟ آخر ایسی کیا مجبوری ہے؟ کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی دو بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنا سب کچھ ہی داؤ پر لگا دیا ہے۔ کیا یہ صرف اقتدار کی جنگ ہے؟ یا انا اور ضد ہے؟ اور ضد ہے بھی تو کس کی؟ اسٹیبشمنٹ کی یا ان چند خاندانوں کی جو باریاں بدل کر چند لوٹے ساتھ ملا کر ہمیشہ حکومت بنا لیا کرتے تھے۔
اچھا افضل چن، فواد چوہدری، جہانگیر ترین، پرویز خٹک جیسے لوٹوں کی سیاست تو ناقابل یقین طور پر ایسی گندی ہوئی کہ وہ کہیں کے نہیں رہے۔ ان کو Electables کہا جاتا تھا۔ کہ وہ جس کے ساتھ جائیں گے وہ حکومت بنائے گا اور جب حکومت گرانی ہوگی تو ان کو پیچھے کر لیا جائے گا۔ آج وہ کہاں کھڑے ہیں؟
جنرل باجوہ سے پہلے تک جو بھی تھا پاک آرمی کی ایک محبت اور احترام بہرحال موجود تھا۔ ن لیگ اس کو برا بھلا کہا کرتی تھی اور میاں صاحب ووٹ کو عزت دو مجھے کیوں نکالا کی بات کرتے تھے۔ اس کا دور ختم ہوا تو اس سے بھی بڑھ کر عوام اپنی آرمی سے دور اور متنفر ہوتی چلی گئی اور یہ خلیج تو بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ ایسا ہر گز نہیں ہونا۔ آرمی ہمارا ایک قابل احترام اور باوقار محکمہ ہے۔
نیوز دکھانے والے کٹھ پتلی ٹی وی چینلز کی اوقات بھی اس سے پہلے یوں واضح نہ ہوئی تھی۔ ٹویٹر پر وی پی این لگا کر ساری حکومت اور وزرا اسے استعمال بھی کر رہے ہیں۔ اچھا امریکہ میں سی این این اور فوکس نیوز جیسے بڑے چینل اسٹیبلشمنٹ کی ایما پر ٹرمپ کے ہارنے کے تجزے چلا رہے تھے۔ امریکی عوام اب ان چینلز کی ساکھ پر سوال اٹھا رہی ہے۔
چیف جسٹس کا عہدہ ایک باوقار عہدہ ہوا کرتا تھا۔ ثاقب نثار اور قاضی صاحب کے دور میں اس عہدے کی توقیر بھی کمپرومائز ہوئی۔
کیا عمران خان اتنا ہی خطرناک ہے؟ کہ اس کو اقتدار میں آنے سے روکنے کے لیے یہ سب کچھ کیا گیا اور آگے بھی جاری رہے گا؟ نومئی کو تو عمران خان پہلے دن سے فالس فلیگ آپریشن کہتا آ رہا ہے۔ شاید وہ اپنا بیانیہ نہ بدلے۔ اگر بدل بھی لے تو بھی عوام اور عدلیہ اور محکمہ فوج کے درمیان پیدا ہونے والی اور بے اعتمادی کو کیسے ختم کیا جا سکے گا؟
کیا عمران خان ٹرمپ کی طرح تقسیم کی سیاست کا حامی ہے؟ کہ اس نے بہت بڑی دراڑ پیدا کر دی ہے۔ وہ جو بھی ہے جیسا بھی ہے۔ اسکا ماضی جیسا بھی تھا اسکی حکومت جیسی بھی تھی۔ کیا یہ سچ نہیں کہ اس سے بڑا کوئی اس وقت قومی لیڈر نہیں ہے؟ اس سے زیادہ کس کے پاس عوامی حمایت موجود ہے؟
کبھی لگتا ہے اسٹیبشملنٹ کسی وجہ سے ہی اس حد تک گئی ہوگی اور کبھی لگتا ہے وہ بندہ ٹھیک ہے چند خاندانوں کے چنگل سے اس ملک کو آزاد کروانا چاہتا ہے۔ سازش ہو یا کچھ بھی اور۔ میرے حلقے سے عمران خان واضح اکثریت سے جیتا تھا۔ اسکے امیدوار کی جیت کا اعلان بھی ہوا۔ پھر عدالت نے ن لیگ کے امیدوار کو جتوا دیا اور سب کو پتا ہے کہ مینڈیٹ عوام نے عمران خان کو دیا تھا جس طرح پورے ملک میں عوام نے اسے مینڈیٹ دیا۔ اپنے قومی حلقے کی سیٹ کو لے کر دل بہت برا ہوا تھا۔
جو بھی ہونا ہے بس اب تو ہو ہی جائے اور اس اذیت سے چھٹکارا ملے۔ کہ کون ٹھیک ہے اور کون غلط۔ سانس لینا دشوار ہے سکول ہر سال نومبر میں بند ہو جاتے ہیں۔ ہر الیکشن چوری ہو جاتا ہے۔ ہم اپنے محافظوں کے ڈر سے دبے اور سہمے ہوئے ہیں۔ یہ دہشت اور خوف آخر کس نے پھیلا رکھا ہے؟ اور کیوں؟ عوام آخر کیوں ماننے کو تیار نہیں کہ عمران خان غدار اور ملک دشمن انسان ہے؟ اور کیا اس کو قید میں رکھ کر زبردستی یا کوئی نیا بیانیہ بنا کر کروڑوں لوگوں کو اسکی حمایت سے پیچھے کیا جا سکتا ہے؟ مجھے تو ایسا نہیں لگتا۔