Kahani Aik Deaf Larki Ki
کہانی ایک ڈیف لڑکی کی
کراچی سے میری جاننے والی ایک گائنی ڈاکٹر صاحبہ نے کل رابطہ کیا۔ انکے پاس ایک ڈیف لڑکی آئی ہوئی تھی جو اپنا حمل ضائع کرنا چاہتی تھی۔ وہ بلکل اکیلی تھی اور اشاروں کی زبان میں اپنا مدعا سمجھا نہیں پا رہی تھی۔ بس اتنا ہی کلئیر تھا کہ وہ اس حمل کو نہیں رکھنا چاہتی۔ ڈاکٹر صاحبہ نے اسے بتایا کہ وہ اسکی بات ایک سپیشل بچوں کے استاد سے کرواتی ہیں اور وہ انکو بتائے کہ وہ آخر ایسا کیوں کرنا چاہتی ہے۔
وڈیو کال پر ہم سپیشل بچوں کے اساتذہ سائن لینگوئیج کی مدد سے ڈیف لوگوں سے بات کر لیتے ہیں۔ اس نے ساری بات تفصیل سے بتائی کہ وہ ایک اپنے کالج کے کلاس فیلو ایک ڈیف لڑکے سے شادی کرنا چاہتی تھی۔ وہ پیارا اور کمپیوٹر گرافکس میں اچھا کمانے والا لڑکا تھا۔ آگے اسکا ارادہ تھا اپنی فوٹو کاپی اور پرنٹنگ شاپ کھول لے گا۔ مگر والدین اس بات پر بضد تھے کہ دونوں ہی گونگے ہونگے تو بچے بھی گونگے ہی ہونگے۔ پھر انہوں نے نام نہاد "بولنے والا" ایک رکشہ ڈرائیور تلاش کیا جو کسی اور کا رکشہ چلاتا تھا۔ کوئی تعلیم نہیں کوئی شکل و صورت نہیں۔ کل قابلیت یہ کہ وہ سن اور بول سکتا ہے اور نظر آنے میں ایک آدمی/انسان ہے۔ اسے خود نیا رکشہ خرید کر دیا۔ شادی کا سارا خرچ میرے والدین نے کیا۔ پانچ لاکھ روپے سارے جہیز کے ساتھ اس مد میں دیے کہ دونوں جاکر عمرہ کر آئیں۔
اسنے وہ پیسے نجانے کہاں ضائع کر دیے۔ وہ بہت ہی گندہ رہتا ہے۔ نسوار اور پان کھاتا ہے۔ جگہ جگہ تھوکتا رہتا ہے۔ کئی دن تک کپڑے نہیں بدلتا۔ انکے سب گھر والے ایسے ہی ہیں۔ رات کو کھانا کھا کر گندے برتن کچن میں پھینک کر سو جاتے تھے۔ اب میں دھو دیتی ہوں۔ اس سے ہر وقت بدبو آتی ہے۔ دو تین چار گھنٹے کام کرکے واپس آجاتا ہے۔ محنتی نہیں ہے بلا درجے کا ہڈ حرام اور کام چور ہے۔ ایک سال شادی کو ہوا ایک ہزار روپے شروع کے دنوں میں بس مجھے پاکٹ منی دی اور اسکے گھر والے مجھے طعنے دیتے ہیں کہ تم گونگی ہو۔ ہم نے تمہیں قبول کیا۔ میں گونگی تو ان کو پہلے بھی نظر آرہی تھی۔ شادی کے بعد تو نہیں گونگی ہوئی۔ وہ اپنا نکاح نامہ بھی ساتھ لائی ہوئی تھی کہ ڈاکٹر یہ نہ سمجھے کہ وہ شادی کے بغیر حمل کو ضائع کرنے آگئی ہے۔ اسکے پاس اپنے شناختی کارڈ پر اسکے خاوند کا نام بھی تھا۔ وہ اپنے گھر والوں میں سے بھی کسی کو ساتھ نہیں لا سکتی تھی کہ وہ اسے یہ کہہ رہے تھے بچہ ہوگا تو وہ انسان بن جائے گا۔ مگر اسے جو مسئلہ تھا وہ اسکی گندہ اور بدبودار رہنے کی عادت کا تھا۔
ڈیف لوگ مجموعی طور پر اور خصوصاً ڈیف لڑکیاں حد درجے کی نفاست پسند اور باریک بین ہوتی ہیں۔ وہ یہ چاہ رہی تھی کہ وہ مزید وقت دینے کو بھی تیار ہے مگر بچہ ہوجانے کے بعد وہ کوئی فیصلہ لینے میں کمزور پوزیشن پر آجائے گی۔ اس بندے کو جسے وہ ایک نظر بھی دیکھنا نہیں چاہتی وہ اسکی اولاد کا باپ کہلائے گا اور بچے کی خاطر اسے اس گندگی کے ڈھیر سے نبھاہ کرنا ہوگا۔ شکل و صورت کے اعتبار سے بھی وہ خوبصورت لڑکی تھی۔
نجانے ڈیف بچوں کے والدین کیوں سننے اور بولنے والا پارٹنر تلاش کرنے کے چکر میں باقی معیار اتنا نیچے گرا دیتے ہیں کہ انکے بیٹے یا بیٹی کا گزارہ ہی ممکن نہ ہو۔ حالانکہ دو ڈیف لوگوں کی شادی سے انکا ڈیف بچہ پیدا ہونے کے امکانات اتنے ہی ہیں جتنے آپ کے اور میرے کسی بچے کے ڈیف ہونے کے۔ بس ان کو یہ کاؤنسلنگ ہی شاید کہیں سے نہیں مل پاتی۔ ایک ڈیف انسان جس طرح اپنے دل کی بات دوسرے ڈیف سے کر سکتا ہے ہمارے ساتھ کسی صورت نہیں کر سکتا۔
میں نے ڈاکٹر صاحبہ کو ساری صورت حال بتا دی اور ابارشن کرنا ہے یا نہیں یہ انکی صوابدید پر چھوڑ دیا۔