Kahani Aik Dadi Ki
کہانی ایک دادی کی
ابھی تو پنجاب میں سرکاری سکول کے ٹیچرز مقامی زکواۃ کمیٹی کے ایڈمنسٹریٹر ہیں۔ ہمارے اپنے گاؤں میں یہ ذمہ داری میرے پاس ہے۔ اس سے پہلے جب ایسا نہیں تھا اور میں کالج کا سٹوڈنٹ تھا تب بھی میں دو سال اس کمیٹی کا چئیرمین رہا تھا۔ میرے ساتھ میرے ایک اور دوست وائس چئیرمین تھے اور سیاسی وابستگیوں سے ہٹ کر زکواۃ تقسیم کرنے کے لیے کچھ سماجی اور نیک دل سیاسی کارکنان نے ہم دو نوجوان لڑکوں کو یہ ذمہ داری سونپی تھی۔
ایک بوڑھی اماں ہمارے گھر آئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میری دادی ان کی بہو کی مانند ہیں اور میری دادی بھی ان کو چاچی کہہ رہی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ میرا نام بیٹا لسٹ میں ڈال دو۔ میں نے کہا دادی آپ کے تو ماشا اللہ اتنے بیٹے ہیں اور آپ کے تو پوتے بھی کماتے ہیں۔ بولیں انیس پوتوں کی دادی جن میں سے دس بارہ کماتے ہیں اور تمہارے سامنے کے کتنے زندہ اور کمانے والے بیٹوں کی ماں ہوں۔ مجھ سے قسم کروا لو کسی نے کبھی میرے ہاتھ پر دس روپے بھی رکھے ہوں۔ باپ کے ہوتے کوئی حرام کی اولاد نہیں کہلواتا اور مجھے پانچ سو روپیہ بھی مہینے کا مل جائے تو میری دوا دارو کے لیے کافی ہے۔ ہم نے اماں کا نام تو اس لسٹ میں ڈال دیا۔
جب میں نے تھوڑی سی اس معاملے کی تحقیق کی تو معلوم ہوا وہ بلکل سچ کہہ رہی تھیں۔ وہ اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کے گھر رہتی تھیں جو دیہاڑی دار مزدور تھا اور اس بندے کا اپنے بڑے بھائیوں سے کوئی خاص بول چال نہیں تھا۔ ان بڑے بیٹوں کا یہ کہنا تھا کہ جس کے ساتھ اماں رہ رہی ہے وہ ہی اب اماں کے اخراجات کا ذمہ دار ہے۔ یا اماں ہمارے گھر آجائے۔ ماں جی کے سب بیٹے ہی جہالت کہیے یا کم علمی یا معمولی سے تنازعات کی وجہ سے ایک دوسرے سے کٹے ہوئے تھے۔ اب سب کو اپنے تئیں یہ لگتا تھا کہ فلاں اماں کو پیسے دیتا ہوگا۔ فلاں پوتا تو باہر کے ملک ہوتا ہے وہ دیتا ہوگا۔ مگر کوئی بھی ایک دوسرے سے پوچھتا نہیں تھا کہ تم نے اماں کو پیسے دیے؟
جب میں نے اماں سے کہا کہ اماں تم خود ان سے کہو کہ سو روپیہ ہی چاہے ہر ماہ کیوں نہ دیں۔ وہ آپ کو ریگولر خرچ دیا کریں۔ بولیں بیٹا جسے کوئی بیٹھا ہوا نظر نہ آرہا ہو اسے کوئی کھڑا بھی نظر نہیں آتا۔ میں کہوں گی وہ پھر بھی نہ دے سکے تو مجھے زیادہ دکھ ہوگا۔ میں اس دکھ کو نہیں لینا چاہتی۔ جب ان کو کہیں سے علم ہوا کہ انکی ماں زکواۃ لے رہی ہے تو شاید ان کو کچھ خیال آئے۔ کالج سے نکل کر لاہور یونیورسٹی جانے تک ہم نے دادی اماں کو زکواۃ دی مگر کسی بیٹے نے ہمیں نہیں کہا کہ آپ یہ بند کر دیں۔ ہمیں نہیں چاہئیے۔ ان کو معلوم تو ہو ہی گیا ہوگا گاؤں میں سب کی باتیں سب کو ہی معلوم ہوتی ہیں۔ وہ اچھی ہوں یا بری اور چھپانے والوں کا چرچا سرعام مزے لے کر کیا جاتا ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ ان دادی اماں کے بیٹوں یا پوتوں تک یہ بات نہ گئی ہو۔
ایسی دادیاں اور بوڑھی مائیں اب بھی کئی گھروں میں ہونگی۔ جن کے بیٹے اور پوتے ہونگے مگر کوئی ان کا پرسان حال یا ریگولر مالی سپورٹ کرنے والا نہیں ہوگا۔ ہم سب لوگ اپنے آس پاس ایسے بزرگوں کو تلاش کرکے خاموشی سے انکی ریگولر ماہانہ مدد کرکے یہ نیکی کما سکتے ہیں۔ ہم سب کے ہی آس پاس ایسے بزرگ ہمیں ضرور مل جائیں گے۔ شہروں کا تو مجھے علم نہیں ہے۔ دیہاتوں میں ایسی مثالیں کئی ہیں۔ بس ہمیں اپنے رشتہ داروں گلی محلے گاؤں شہر میں ایسے بزرگ تلاش کرکے انکی مدد ضرور کرنی ہے اور اپنے ہاتھ سے کرنی ہے اور اسکے بعد پھر اپنی زندگی میں آنے والے سکون، فراوانیوں اور آسانیوں کو بھی دیکھنا ہے۔