Iss Qaum Ki Ijtemai Nafsiyat
اس قوم کی اجتماعی نفسیات
یہ چند دن پہلے کی بات ہے۔ جی ٹی روڑ پر دو لوگ آپس میں جھگڑ رہے تھے۔ جھگڑا کوئی مرغوں والا نہیں ایک لڑکا ایک آدمی کو ایسے مار رہا تھا جیسے ریسلنگ ہو رہی ہو۔ پاس کھڑے دو تین لوگ یہ سب دیکھ رہے تھے۔ میں نے فوراً بائیک روکی۔ اور مارنے والے لڑکے کو جا کر روکا۔ بڑی مشکل سے اسے پیچھے کیا اور پوچھا کہ ہوا کیا ہے؟ اس نے کہا کہ اس نے میرے منہ پر تھوکا ہے۔ میں نے کہا وہ کیسے؟ کہتا میں اسکے پیچھے تھا۔ اس کو کراس کرنے ہی لگا اور وہ بھی اپنی درست سائیڈ کی طرف سے تو اس نے بغیر پیچھے دیکھے دائیں سائیڈ پر ہوا میں تھوک دیا اور تھوک میرے منہ پر پڑی۔
تھوکنے والے کی ساری قمیض پھٹ چکی تھی۔ منہ پر مار کے نشان واضح تھے۔ اٹھا اور بولا کہ میں نے کون سا جان بوجھ کر ایسا کیا ہے۔ مارنے والے نے پھر اسے پکڑ اسکی دھلائی شروع کر دی۔ اسکا کہنا تھا کہ یہ اپنی غلطی کیوں ماننے کو تیار نہیں ہے۔ کسی کے منہ پر تھوکنا کوئی چھوٹی بات ہے۔ جب وہ مار مار کر خود تھک چکا تو اسے گریبان سے پکڑ کر گندے نالے میں پھینک دیا اور چلا گیا۔
تھوکنے والا باقی کی ساری عمر یہ واقع بھول نہیں پائے گا اور واش روم میں بھی تھوکتے وقت اسے بائیک پر تھوکنا یاد آئے گا۔ اور جس پر تھوکا گیا اسکا غصہ ایسا تھا کہ اسے جان سے مار دے۔ وہ اس بات پر اسے پولیس یا عدالت سے کوئی سزا نہیں دلوا سکتا تھا۔ اسکا غصہ کافی حد تک جائز تھا کہ آپ کے اور میرے منہ پر کوئی تھوک دے۔ ہم کبھی اس بات کو بھول پائیں گے؟ مگر اس نے جس بے دردی سے اس غریب کو مارا وہ سزا اسکی غلطی سے بہت زیادہ تھی۔
یہ اس قوم کی نہیں ہجوم کی اجتماعی نفسیات ہے۔ جگہ جگہ تھو تھو کرتے پھریں گے۔ بغلوں اور پرائیوٹ پارٹس کو پبلک میں، فیملی میں، کلاس میں، دفتر میں، ہر جگہ کھجاتے نظر آئیں گے۔ اور س ا لے وہی ہاتھ سلام کے لیے کسی کے آگے بڑھا دیں گے۔ اسی ہاتھ سے کچھ کھانے لگیں گے اور ضرورت پڑنے پر اپنا منہ بھی صاف کر لیں گے۔ چلتی کاروں سے باہر منہ نکال کر تھوکتے لوگوں کو دیکھا ہے۔ بائیک والوں کا تو محبوب مشغلہ ہے۔ مساجد، محافل، مجالس اور دیگر تقریبات میں منہ کھول کر کٹے کی طرح ڈکار مار کے سب کا دل خراب کریں گے۔
وضو کی جگہوں پر بیٹھے ایسے گندے طریقے سے گلہ صاف کرتے ہیں کہ انکا گلہ ہی کاٹ دینے کا دل کرتا ہے۔ ایک ہزار فیصد کوشش ہوتی وضو گھر سے کرکے مسجد جاؤں۔ بڑے شہروں میں بھی سڑک کنارے دیواروں پر کتوں کی طرح پیشاب کرتے نظر آئیں گے۔ سائیکل سے بائیک پر گئے اور پھر اللہ نے کار دے دی۔ مگر کیلے یا مالٹے کے چھلکے جہاں دل کرے گا پھینک دیں گے۔ خالی بوتل یا جوس کا ڈبہ بیچ سڑک کے پھینک دیں گے۔ اور پیچھے سے آتا ہوا اس بوتل یا جوس کے ڈبے پر ٹائر گزار کر ٹھاہ کرکے خود کو فاتح کشمیر سمجھے گا۔
گندے نالے سے اٹھ کر جانے والا ابھی تک یہ بات ماننے کو تیار نہیں تھا کہ اسکا کوئی قصور تھا۔ حالانکہ چلتی بائیک پر سے تھوکنا ہی اسکا جرم تھا۔ وہ تھوک کسی پر پڑے یا نہ پڑے۔ اور اسکا چالان کوئی دس ہزار روپے ہونا چاہیے۔
میری دادی کہتی ہیں کہ ہم کچے برتن کو تو موڑ سکتے ہیں۔ مگر پکے ہوئے برتن کو کبھی نہیں موڑ سکتے۔
یہ سب باتیں یہاں فیس بک پر کرنے کی نہیں ہیں۔ بلکہ پرائمری کلاسز کے لازمی نصاب میں شامل کرنے کی ہیں کہ بچوں کو بچپن میں ان سب باتوں کا شعور دیا جائے۔ استاد صاحبان ان باتوں کو ریگولر ڈسکس کریں۔ سپارہ پڑھانے والے قاری صاحب بچوں کو یہ سب مینرز سکھائیں۔ ممبر پر بیٹھے امام و خطیب ان باتوں کو ڈسکس کریں۔ والدین خود اپنے بچوں کو یہ سب باتیں سمجھائیں۔ کہ ہماری اگلی نسل کی جان تو اس Ugly لائف سٹائل سے چھوٹ سکے۔ ورنہ بچے بھی وہی کریں گے جو اپنے والدین یا ارد گرد موجود لوگوں کو کرتے دیکھیں گے۔