Hamara Bhi Koi Hath Thaamne Wala Ho
ہمارا بھی کوئی ہاتھ تھامنے والا ہو
میں جب کسی سپیشل بچے کی فیملی سے انفرادی طور پر ملتا تھا۔ یا حکومتی سطح پر کوئی کیمپ یا سروے آتا تھا۔ تو اس بچے کے والدین کی طلب اس بچے کی بہتری اور تعلیم سے زیادہ مالی امداد ہوا کرتی تھی۔ کہ ہمیں کوئی وظیفہ ملے کوئی کارڈ ملے جس سے پیسے ملا کریں۔ تعلیم اور بحالی ان کو کم ہی سمجھ آتی تھی۔ یہاں عمان میں کئی سپیشل بچوں کے والدین سے ملا ہوں۔ انکی تو سوچ کا زاویہ ہی کچھ اور ہے۔ اس پر تفصیل سے لکھوں گا۔
آج ایک نوجوان سے بات ہوئی۔ بولا خطیب بھائی سوشل میڈیا پر لکھ یا وڈیوز اور ریلز میں بول کر شعور دینے والے، نت نیا نالج شئیر کرنے والے، کورسز بیچنے والے تو ہزاروں موجود ہیں۔ ہمیں اور ہماری ڈگریوں اور کالج یونیورسٹی میں گزارے وقت کا کوسنے والے گھر میں اور باہر بھی بہت ہیں۔ ہمیں موقع دینے والے کتنے لوگ ہیں؟ جو ہمارے ساتھ ہوا ہے کیا ہم نے چاہا تھا کہ ہم ایسے بن جائیں؟ یا ہمیں معلوم تھا کہ ہماری تعلیم ہمیں یوں بند گلی میں لا کھڑا کرے گی؟ اگر ایسا معلوم ہوتا تو ہم یونیورسٹی میں پانچ دس سال پرانے اور ایکسپائر نالج سے بھرے ہوئے بوسیدہ نوٹس کاپی کروا کر ان کو اپنے الفاظ میں لکھ لکھ کر کاپیاں بھرتے رہتے؟
بولا کسی بھی فیلڈ میں کامیاب لوگ دنیا میں کہیں بھی ہیں اور کسی کو نہ سہی اپنے آس پاس یونیورسٹی سے پاس کسی لڑکے یا جوان لڑکی کو موقع دیں۔ تو ہم ضرور انکی توقع پر پورا اتر سکتے ہیں۔ جب وہ ہماری فیلڈ نہیں ہوگی تو ہم اپنی جان لڑا دیں گے۔ اس کام کو کرنے میں۔ اگر اس میں ہی ہماری ڈگری ہوئی تو ہم شاید اس لیول کا انٹرسٹ اور ڈیڈی کیشن نہ ڈیویلپ کر پائیں۔
اسکی آخری بات بہت پیاری تھی کہ آپ آج سے دس پندرہ سال پہلے جب یونیورسٹی سے نکلے تھے تو آپ کیا ایسے تھے جیسے آج ہیں؟ آپ پر کسی نے اعتماد کیا اور آپ نے اس اعتماد کو نہیں توڑا۔ بس ہمارا بھی کوئی ہاتھ تھامنے والا ہو اور موقع دینے والا ہو تو نتائج حیران کن ہونگے۔ ہمیں گالیوں اور طعنوں کے ساتھ کوئی بندہ موقع تو دے اور تھوڑا وقت دے کہ اب تو ہم کرو یا مرو والی پوزیشن تک پہنچ چکے ہیں۔ ہم اسکے لیے نہیں اپنی بقا کے لیے اپنا سب کچھ وارنے کو تیار ہیں۔