Fareeha Aik Gohar e Nayab
فریحہ ایک گوہر نایاب
ہماری زندگی میں کچھ لمحے اور یادیں ہمیشہ کے لیے رک سے جاتے ہیں۔ جیسی وی سی آر پر ریموٹ سے ہم چلتی فلم روک دیا کرتے تھے۔ گذشتہ برس جون کے ماہ میں جہلم کے ایک دیہات میرا جانا ہوا جہاں ایک نوجوان سپیشل لڑکی نجانے کیوں کھانا پینا اور کسی سے بات کرنا چھوڑ چکی تھی۔ اسکی ایک سکول ٹیچر دوست نے مجھ سے انباکس میں آکر رابطہ کیا کہ اگر آپ آئیں تو شاید ہم کوئی راہ نکال سکیں۔ وہ ایک دم سے چپ کر گئی ہے۔ بھائیوں سے بھی بات نہیں کر رہی۔ وہ اپنے دو بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی اور بھائی انگلینڈ تھے۔ اسکی وجہ سے چھٹی آنا چاہ رہے ہیں۔ آپ آجائیں تو شاید کوئی بہتری کی راہ نکل آئے۔ انکے گھر میں اس لڑکی کے والدین اور ایک بیوہ پھپھو رہتی تھیں۔
سکول سے تو چھٹیاں تھیں جلدی گھر سے نکلا تو میں صبح کوئی نو دس بجے انکے گھر تھا۔ میں بھی بہت عجیب ہوں۔ نجانے کیا سوجھی پھولوں کا گلدستہ اور دو موتیے اور گلاب سے بنے گجرے اس لڑکی کے لیے جہلم مین بازار پھولوں کی دکان سے خرید لیے۔
اس لڑکی کی معذوری ایسی تھی کہ وہ بیس سال کی عمر تک بلکل ٹھیک چلتی پھرتی بھاگتی دوڑتی رہی۔ پھر روز بروز جوڑوں اور پٹھوں میں درد رہنے لگا اور دو سال میں وہ اٹھ کر بیٹھنے کے قابل بھی نہ رہی۔ بھائیوں نے انگلینڈ سے بھی علاج معالجہ کروایا مگر صورت حال دن بدن گھاٹے کی طرف ہی جا رہی تھی اور اب تو گردن سنبھالنا بھی مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ ابھی وہ تیس سال کی ہوچکی تھی۔ پچھلے سات آٹھ سال سے بیڈ پر ہی تھی۔
مجھے بلانے کا مقصد یہ تھا کہ اس کے بول چال کے بائیکاٹ کی وجہ معلوم کی جائے اور اسے کھانا کھلانے پر آمادہ کیا جائے۔ اندھے کو کیا چاہئیے؟ دو آنکھیں۔ ایک نئی کیس اسٹڈی تھی تو فوراً حامی بھر لی۔ آگے پھر کام کرنے کا میرا اپنا ہی انفارمل سا انداز ہے۔
جاکر پھولوں کا گلدستہ اسکے بیڈ کے سرہانے رکھا اور گجرے سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر میں بیڈ پر ہی پاؤں نیچے لٹکا کر بیٹھ گیا۔ کمرے میں اسکی دوست جو مجھ سے رابطے میں تھی وہ میں اور وہ بیڈ پر چھت کو دیکھتی وہ لڑکی پڑی تھی۔ میرے سلام کا کوئی جواب نہ دیا بس ایک بار مجھے دیکھا اور پھر نظریں دوسری جانب پھیر لیں۔
میں نے اس لڑکی کو کہا ہوا تھا کہ وہ کچھ نہیں بولے گی۔ کچھ دیر وہاں رکے گی اور پھر باہر آجائے گی۔ اسے بولنے پر آمادہ میں اپنے انداز میں کروں گا اور اسکی فیملی کو بتا دے پورا دن بھی لگ سکتا ہے۔ وہ دیوان چئیر پر دس پندرہ منٹ بیٹھی میرے ساتھ ادھر ادھر کی باتیں کرتی رہی اور پھر باہر جاکر دیگر اہل خانہ کے ساتھ باتیں کرنے لگی۔
صبح دس بجے کا وہیں ایک جگہ پر بیٹھا ہوا مجھے ایک بج گیا۔ موبائل بند کرکے گاڑی میں ہی رکھا ہوا تھا کہ کال میسج کی مداخلت کسی صورت قبول نہ ہونی تھی۔ ایک لفظ تک نہ میں بولا نہ ہی اس نے کوئی بات کی۔ تین گھنٹے پن ڈراپ خاموشی یا باہر سے آوازیں آتی رہیں۔ دروازہ کھلا ہوا تھا سامنے سے گھر والے بھی گزرتے رہے۔ ظہر کی اذان ہوئی تو میں نے کمرے میں ہی موجود واش روم میں جاکر وضو کیا اور اس لڑکی سے پہلا کلام کیا کہ کعبہ کس طرف ہے؟ اس نے بھی برا سا منہ بنا کر جواب دے دیا کہ الماری کی طرف ہے۔ میں جب نماز کی نیت باندھنے لگا تو بولی جائے نماز تو بچھا لیں۔ جگہ صاف نہیں ہے۔ میں نے کہا وہ کہاں پڑا ہے؟ بولی الماری کے اندر۔ میں نے کہا کھول لوں الماری؟ بولی کچھ نہیں اس میں کھول لیں۔ جائے نماز نکالا اور پوچھا یہ آپ کا ہے؟ بولی جی۔۔
نماز پڑھی تو دیوان چئیر پر بیٹھ گیا اور خود ہی بنا پوچھے بول کر بتایا کہ میں ایک ٹیچر ہوں اور آپ کی دوست کا فیس بک پر دوست ہوں۔ اسنے آپ کی بڑی تعریف کی تو ملنے کی چاہ ہوئی۔ مجھے نہیں معلوم اسنے آپ کو کیا بتایا، بس مجھے آپ سے ملنے کا شوق تھا۔ بولی یہ پھول اور گجرے اسکے لیے ہیں؟ میں نے کہا نہیں آپ کے لیے ہیں۔ بولی میں تو آپ کی دوست نہیں ہوں۔ میں نے کہا تو ابھی بن جائیں کون سا کوئی امتحان ہوگا تو ہی ہماری دوستی ہوگی۔
بولی آپ ڈاکٹر ہیں ناں؟ یا کوئی سائیکالوجسٹ؟ مجھے الو بنا رہے ہیں؟ میں نے کہا بلکل نہیں میں ایک عام سا سکول ٹیچر ہی ہوں۔ بولی میں نے قسم کھا رکھی تھی کسی سے بات نہیں کرنی۔ آپ نے نجانے کیسے میری قسم تڑوا دی مجھے یقین نہیں آرہا۔
اتنی بھی تمیز نہیں کہ کسی کے گھر جاکر بیڈ پر نہیں بیٹھتے اور بیڈ روم میں کون آجاتا ہے؟ آپ جو بن رہے ہیں وہ ہیں نہیں۔ اتنی بھی بچی نہیں ہوں۔ یا تو میرے چھوٹے بھائی کے آپ دوست ہیں یا کوئی گیم اور ہے۔
میں نے کہا مجھے یہاں بلایا گیا ہے کہ ایک لڑکی نا بات کرتی ہے نا کھانا کھاتی ہے۔ آپ تو ٹھیک باتیں کر رہی ہیں۔ کھانے کا وقت ہے تو کھا بھی لیں کچھ شاید۔ بولی آپ پہلے سچ بتائیں آپ کون ہیں اور کیوں مجھے بولنے پر مجبور کیا ہے؟
میں نے کہا وہی سچ ہے جو بتا چکا ہوں۔ بولی اچھا یہ پھول اور گجرے کیوں؟ میں نے کہا آپ کو بلانے کا بہانہ اور کچھ سمجھ ہی نہیں آیا کیا لوں۔
بولی اچھا بتائیں آگے کیا ہے؟ بات تو کر رہی ہوں کھانا نہیں کھاؤں گی۔ میں نے کہا اوکے نہ کھانا بس یہ بتا دو کہ کیوں نہیں کھانا؟ بولی بس یہ بتا کر جان چھوٹ جائے گی؟
میں نے کہا آپ کی جان کسی شکنجے میں آئی ہوئی ہے تو یہ بھی نہ بتائیں۔ دو سو کلومیٹر سفر کرکے ملنے آئے مہمان سے راجے ایسا سلوک تو نہیں کرتے ہونگے۔ اچھا یہ بتائیں آپ کی کاسٹ راجہ ہے تو آپ رانی ہیں؟
بولی جی نہیں ہم راجے نہیں راجپوت ہیں۔ میں نے کہا باہر تو راجہ ہاؤس لکھا ہوا ہے۔ بولی کیا ہوگیا ہے آپ کو راجپوت ہاؤس لکھا ہوا ہے۔
اسکی دوست بھی آگئی کہ بڑی باتیں ہو رہی ہیں بھائی سے؟ اس سے مخاطب ہو کر بولی کہ یہ کون ہیں اور کیوں آئے ہیں؟ امی کو بلاؤ زرا۔۔
آنٹی آتی ہیں۔ وہ بھی یہی بتاتی ہیں کہ میں اسکی دوست کا دوست ہوں اور تم سے ملنے آیا ہوں۔
خیر دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد میں کمرے میں جاتا ہوں اور اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر مصافحے کی پیشکش کرتا ہوں کہ چلیں پھر کبھی ملاقات ہوگی ابھی بس چلتا ہوں مجھے حافظ آباد جانا ہے۔ بڑی مشقت سے وہ اپنا ہاتھ بمشکل بیڈ سے چھ سات انچ اوپر اٹھا پاتی ہے۔ میں ہاتھ ملا کر کرسی پر بیٹھ جاتا ہوں اور پہلی بار صبح سے اب تک اس لڑکی کے چہرے پر ایک مسکراہٹ سی پھیل جاتی ہے۔
میں بھی ہسنے لگتا ہوں اور کہتا ہوں کہ میں قسم سے کوئی ڈاکٹر نہیں ہوں۔ یقین رکھیں۔ بولی آپ نے جانا نہیں تھا تو ہاتھ کیوں ملایا؟ میں نے کہا بس دیکھنا تھا ہاتھ کتنا اوپر اٹھ سکتا ہے۔ کھانا خود کھاتی ہیں یا کوئی کھلاتا ہے؟ بولی چھ دن سے نہیں کھایا۔
میں نے پوچھا کیوں؟ تو بولی بھوکی رہی تو شاید جلدی مر جاؤں۔ امی ابو اور بھائیوں کی بے بسی مجھ سے دیکھی نہیں جاتی۔ وہ اسی امید پر زندہ ہیں کہ فریحہ دوبارہ ٹھیک ہوجائے گی۔ کسی کو میرے مرض کا ہی معلوم نہیں تو علاج کیسے ہوگا۔ یہ کوئی انوکھی ہی بیماری ہے۔ میرا چھوٹا بھائی ہی آپ کو یہاں بھیجنے والا ہے۔ اسکا بس چلے تو اپنا آپ بیچ کر اپنی باجو کو ٹھیک کر دے۔ مگر میں ٹھیک نہیں ہو سکتی اور یہ دکھ میرے والدین اور دونوں بھائی سہہ نہیں سکتے۔ تو سوچا نہ روٹی کھاؤں گی ناں بات کروں گی۔ چند دن میں خود ہی انکی آزمائش ختم کرکے اس بے جان جسم میں اٹکی روح کو اسکے اصل ٹھکانے پر بھیج دونگی۔
میں نے کہا چالیس دن تک ایک انسان بھوکا پیاسا رہے تو نہیں مرتا۔ پہلے گوگل سرچ تو کر لینا تھا یہ پلان۔ بولی موبائل بھی اب نہیں پکڑا جاتا۔ ورنہ ایسا کر ہی لیتی۔ مجھے کوئی زہر آپ لا دیں تو مہربانی ہوگی۔ کیا رکھا ہے اس اور ایسی بوجھ زندگی میں؟
میں نے کہا آپ تو بوجھ نہیں ہیں کسی پر۔ بولی سب کو امید ہے میں ٹھیک ہوجاؤں گی وہ بھی ٹوٹ جائے تو مجھے سکون ملے۔ یہ کسی نہ کسی کو بلا لیتے ہیں جیسے آپ کو بلا لیا۔
میں نے کہا مجھ سے ملکر اچھا نہیں لگا؟ بولی وہ بات نہیں ہے۔ آپ ایموشنل کیوں ہوتے ہیں اتنا لڑکیوں کی طرح؟ میں نے کہا آپ بات ہی دل دکھانے والی کرتی ہیں۔ بولی او بس کرو یار، اب رونے نہ لگ جانا پلیز، دل دکھانے والی بات واہ۔
میں نے کہا آپ کے بھائی آپ کی آواز سننے کو ترس گئے ہیں۔ اتنا پتھر دل بھی کوئی لڑکی بھلا ہو سکتی ہے؟ پہلے کھانا کھائیں اور پھر ان سے بات کریں۔ میرے سامنے تاکہ مجھے وہ میری فیس بھیج سکیں۔
بولی دیکھا وہی بات ہوئی ناں؟ ویسے یہ سب کرنے کی کتنی فیس ہے؟ میں نے کہا سو پونڈ۔ بولی آپ کو تو پانچ سو ملنے چاہئیں کتنے تیز ہیں آپ۔ ویسے کرتے کیا ہیں؟ میں نے کہا یہی جو آپ کے ساتھ کیا۔ بولی لوگوں کے گھروں میں بھی جاتے ہیں؟ میں نے کہا ہاں کوئی ایمرجنسی ہو تو چلا جاتا ہوں۔ جیسے آپ نے سب کا کھانا چھڑوایا ہوا تھا۔ اپنی بھوک ہڑتال کرکے۔
فریحہ نے کھانا کھا لیا اور مجھے وہ دن انکے ہی گھر رکنے کی دعوت دی۔ میں نے کہا اوکے رک جاتا ہوں۔ مگر آپ نے اپنی کہانی مجھے سنانی ہے۔ آنٹی نے اسے اسکی الیکٹرک وہیل چئیر پر بیٹھنے میں مدد کی اور ہم رات گیے تک اپنی گزری ہوئی زندگی کی لان میں بیٹھے باتیں کرتے رہے۔
فریحہ ایک گوہر نایاب تھی۔ اسی سال فروری میں وفات پاگئی تھی۔ وہ پاک روح اب ہمارے درمیان اس دنیا میں موجود نہیں ہے۔ وہ اپنی لائف میں بس تین باتیں چاہتی تھی کہ کوئی اس سے اس کی بیماری پر بات نہ کرے۔ وہ چاہتی تھی اس جیسی دیگر لڑکیوں کے والدین اور درد دل رکھنے والے لوگ اپنی بیٹیوں یا ایسی بچیوں کی گھر پر تعلیم کا بندوبست ضرور کریں اور آخری بات ان کو بھی ویسے ہی چاہا جائے جیسے انکی عمر کی دوسری لڑکیوں کی چاہت ہوتی ہے کہ کسی آنکھ کا تارا ہم بھی بنیں، کوئی تو ہو جو ہماری دید سے اپنی عید کرے اور اس فطری جذبے کو معذوری کے بوجھ تلے کبھی بھی دفنایا نہ جائے۔