Dear HR Manager
ڈئیر ایچ آر مینجر
میں نے آپ کے پاس ملازمت کا اشتہار دیکھا اور خود کو اس ملازمت کے لیے اہل سمجھا۔ کہ میں اس پوسٹ پر اسی کمپنی میں چار سال ملازمت کر چکی ہوں۔ کچھ گھریلو مصروفیات کی وجہ سے مجھے ریزائن کرنا پڑا تھا۔ میرا سابقہ ریکارڈ آپ کے پاس پڑی میری فائل میں موجود ہے اور اب میں دوبارہ اسی پوسٹ کو ری جائن کرنے کی خواہشمند ہوں۔ میرا یہ ماننا ہے کہ میرے جیسا تجربہ رکھنے والا کوئی دوسرا فرد آنے والی سی ویز میں نہیں ہو سکتا۔
ایک خصوصی درخواست اور بھی ہے۔ میرا ایک سپیشل چائلڈ ہے۔ جو کہ وہیل چئیر استعمال کرتا ہے۔ میں سنگل ماں ہوں اور اسکے والد کے جدائی کے بعد بچے کی کسٹڈی میں نے مانگی تھی۔ مجھے اپنے بچے کو بھی اگر آفس ساتھ لانے کی اجازت ملے تو میں دل سے شکر گزار ہونگی۔ کہ میرا بچہ ڈاکٹرز کے مطابق صرف ربوٹک ٹانگوں کی سپورٹ کے ساتھ کھڑا ہو سکتا ہے اور وہ اب سمجھدار ہو رہا ہے۔ تو ہر روز کہتا ہے مجھے بابا سے ملنا، انکے پاس جانا ہے۔ کیونکہ میرے بیٹے کے والد آپ کی کمپنی میں ہی ایچ آر مینجر ہیں۔ تو اس کو بتا دونگی وہ تمہارے پاپا ہیں۔ وہ چاہیں تو اپنی اولاد کے سر پر دست شفقت رکھ دیں۔ نہ بھی رکھیں تو ان کا بیٹا بس اپنے والد کی موجودگی اور انکو روز دیکھ کر ہی خوش ہوجائے گا۔ وہ ایک اچھے اور مضبوط اعصاب کے مالک والد کا بیٹا ہے۔
میرے بیٹے کے لیے ملنے والے خرچ سے اس کے لیے ٹیکنالوجی کی سپورٹ حاصل کر پانا ممکن نہیں ہے۔ تو مجھے ملازمت کی ضرورت ہے۔ اس تمہید کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم ماں بیٹے پر ترس کھا کر یا ہمدردی سے ملازمت آفر کر دی جائے۔ انٹرویو یا جو بھی پروٹوکولز ہیں وہ ہر صورت پورے کیے جائیں۔ اگر میں سوٹ ایپل درخواست گزار پائی جاؤں تو مجھے اس ملازمت کا موقع دے کر احسان مند کیا جائے۔ کہ میں یا میرا بیٹا ماضی میں ہوئے واقعات کو کبھی بھی دہرا کر ایچ آر مینجر صاحب کو آپ سیٹ نہیں کریں گے۔
سی وی کو انٹرویو کے لیے شارٹ لسٹ کر لیا جاتا ہے۔
درخواست گزار کا نام۔ عالیہ علی، تعلیمی قابلیت ایم بی اے فنانس
انٹرویو میں فائنل سلیکشن کے بعد جس دن عالیہ اپنے سابقہ آفس کو بطور فنانس مینجر جائن کرتی ہیں تو آفس میں موجود لوگوں کو یہ سب ایک خواب اور سراب سا لگتا ہے۔ کہ ایک ہی کمپنی کو بطور پارٹنر جائن کرنے والا ایک زندہ دل کپل کیسے اس فرم کو کامیاب کرتا ہے۔ اس جاب اور پارٹنر شپ سے پہلے انکی یونیورسٹی کے دور کی انسیت اور لگاؤ۔ ملازمت کی بجائے ایک سٹارٹ آپ شروع کرنا۔ کیرئیر میں غیر معمولی کامیابی کے بعد شادی کرنا۔ اولاد کا ہونا اور پھر ایک دم سے بغیر ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالے کردار کو بغیر داغ دار کیے یہ کپل باہمی رضا مندی سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو جاتا ہے۔
کسی کو آفس میں نہیں معلوم کہ طلاق کی وجہ کیا تھی اور اب ناقابل یقین دوسری خبر کہ وہی لڑکی اسی آفس کو اسی پوسٹ کو ری جائن کر رہی ہے۔
جویریہ جو کہ پہلے بھی عالیہ کی اسسٹنٹ تھی۔ ٹی بریک میں عالیہ کے پاس اپنی کرسی لے جاتی ہے اور کہتی ہے کہ تم دونوں کا سین کیا ہے یار؟ جب جدا ہوئے تو بھی ایسے کہ کوئی مان ہی نہیں سکتا اور تم اسی آفس میں پھر آگئی ہو جہاں تمہارا سابقہ شوہر ملازمت کر رہا ہے؟ لوگ تو بعد میں فریق مخالف کا سامنا ہی نہیں چاہ رہے ہوتے۔ تم لوگ کیا آپس میں اب بھی رابطے میں ہو؟ یا دوبارہ شادی کا پلان ہے؟
عالیہ بولی۔ تم نہیں اس دفتر کے سبھی ملازمین یہ تجسس رکھتے ہونگے۔ پہلے کیا ہوا اور اب کیا ہوا۔ یہ کیا فلمی سی کہانی ہے۔ سب کو تو نہیں مگر تمہیں بتا دیتی ہوں۔ میرا اپنا دل بھی اس بوجھ کا بھار مزید نہیں برداشت کر سکتا۔ سب کچھ بہت اچھا چل رہا تھا۔ بیٹا پیدا ہوا تو چھ ماہ بعد معلوم ہوا سی پی چائلڈ ہے۔ یہ صدمہ ہم دونوں پر ایک پہاڑ بن کر گرا اور ہم بکھر سے گئے۔ مجھے شاہد نے بہت سنبھالا مگر ایک ماں کا دل اپنی اولاد کی معذوری کو کیسے سہہ سکتا ہے؟ مجھے اپنا سب کچھ بیچ کر اپنے لخت جگر کو ٹھیک کرنا تھا۔ شاہد نے مجھے سمجھایا کہ یہ کوئی بیماری نہیں ہے۔ برین ڈیمج ہے۔ اس کا علاج اور تو برین چپ ہے۔ جو ابھی دستیاب نہیں۔ جیسے وہ کاکلئیر امپلانٹ کی طرح دستیاب ہوئی ہم سرجری کروا کر اپنے بیٹے کا علاج کروا لیں گے اور دوسرا ربوٹک ٹانگیں ہیں۔ جن کی سپورٹ سے یہ بچہ وہیل چئیر سے اٹھ کر کھڑا ہو سکے گا۔ وہ بھی تب جب اسکی عمر تین چار سال ہوجائے۔
مگر ایک ماں کے دل کو کیسے سکون آئے؟ کہ اسکا بچہ کھڑا ہونا تو دور ایک سال چار ماہ کی عمر تک بیٹھ بھی نہیں سکتا تھا۔ ہاتھوں کی انگلیاں ٹیڑھی تھیں کہ فیڈر پکڑنا بھی مشکل۔ سارا جسم ایک کھچاؤ کا شکار اور وہ کھچاؤ چہرے کے مسلز پر بھی نمایاں ہونے لگا۔ میں اپنے بچے کو دیکھتی تو میرا کلیجہ پھٹنے لگتا۔ کہ اسے باقی بچوں کی طرح دکھنا اور سب کام کرنے چاہئیں۔ میں نے آفس جانا چھوڑ دیا اور شاہد کے منع کرنے کے باوجود کبھی کسی چائلڈ نیورو فزیشن کے پاس تو کبھی کسی کے پاس، کبھی ہیومیو پیتھک کے پاس تو کبھی روحانی علاج کی طرف۔ الغرض کوئی جگہ نہ چھوڑی اور خود کو شوگر و بلڈ پریشر کا مریض کر لیا۔ میری سوچوں کا محور میرا بیٹا بن گیا اور شاہد نجانے کہاں گم ہوگیا۔ ہماری ساری سیونگ ختم ہوگئی۔
میں چڑچڑی سی ہوگئی اور یہ سوچنے لگی کہ مجھے کسی باہر کے ملک اپنے بیٹے کو لے کر جانا چاہئیے۔ شاہد سے بات کی تو اس نے منع کر دیا اور پھر ایک دن میں نے شاہد کے موبائل میں اسکی ایک چیٹ پڑھی۔ وہ اپنی ایک جونیئر کو ڈیٹ کر رہا تھا۔ میری ذہنی صحت پہلے ہی خراب تھی اور اس پر ایسی ایک خبر ملنا کہ گھر بیٹا معذور پڑا ہے اور باپ کی عاشقی چل رہی۔ میرے حواس کام چھوڑ گئے۔ شاہد نے مجھے بتایا کہ وہ اسے پسند ضرور کرتا ہے مگر وہ لوگ کسی وجہ سے ایک ساتھ ہیں۔ جو بتائی نہیں جا سکتی۔ میں نے بچے کو لیا امی گھر چلی گئی۔ کوئی تماشا کیے بغیر عدالت سے رجوع کرکے طلاق لے لی۔ اس دوران شاہد نے مجھے کئی اطراف سے اپروچ کروایا مگر میں نے ایک نہیں سنی اور اسے ہر جگہ سے بلاک کر دیا۔ اپنے والدین کو بھی نہیں بتایا کہ وہ مجھے چیٹ کر رہا ہے۔ کہ ہماری اپنی لو میرج تھی۔ کس منہ سے بتاتی۔
خیر چند سال گزرے تو احساس ہوا کہ فیصلہ جذباتی تھا۔ اس لڑکی کی کسی اور جگہ شادی کا معلوم ہوا۔ کہ جب میں خود ہی راستے سے ہٹ گئی تھی تو ان دونوں نے آپس میں شادی کیوں نہیں کی۔ میرے بیٹے نے بولنا شروع کیا تو بابا کہاں ہیں؟ امی سب کے بابا ہوتے ہیں میرے بابا کہاں ہیں؟ اسکا یہ سوال میری ممتا کو تڑپا کے رکھ دیتا۔ اسے بہت سمجھایا وہ کئی دن تک یہ بات نہ کرتا۔ جب اسکی اداسی کی وجہ پوچھتی تو کہتا بابا پاس جانا ہے۔ میرے پاس اس بات کو کوئی جواب نہ ہوتا۔
چند ایک جگہوں پر ملازمت کی کوشش کی۔ کسی جگہ بھی سپیشل بچے کو وہیل چئیر سمیت ساتھ رکھنے کی اجازت نہ ملی۔ کہ اسے آٹھ نو گھنٹوں کے لیے کسی ملازمہ کے پاس نہیں چھوڑا جا سکتا۔ ابھی بہت چھوٹا ہے۔ باپ کا ساتھ پہلے ہی موجود نہیں اور ماں بھی اس ننھی جان کو چھوڑ کر سارا دن کہاں سکون سے رہ سکتی تھی؟
پھر ایک جگہ سے کسی جاننے والے کے کہنے پر کاؤنسلنگ لی۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ ماضی کو بھلا کر ایک نئی زندگی کا آغاز کروں اور اپنے لخت جگر کی سب سے بڑی خواہش پوری کر دوں۔ اسکے باپ سے اسے ملوا دوں۔ انہی دنوں میری سابقہ پوسٹ خالی ہوئی اور مجھے انہوں نے خود کور لیٹر لکھ کر دیا۔ شاہد کو بھی شاید انہوں نے اپروچ کیا اور مجھے اس جاب کو جائن کرنے اور اپنے بچے کے لیے ہم دونوں کو پھر سے ایک آفس میں اکٹھا کر دیا۔ میں نے ان کو ایکسپرٹ مان کر انکی بات کو ویلیو دی ہے اور اپنے جذبات کو پیچھے رکھا ہے۔
میں نہیں جانتی جو ماضی میں ہوا وہ اچھا تھا یا برا۔ میں اب اپنے ماضی میں نہیں بلکہ حال میں جینا چاہتی ہوں۔ میں اپنے بچے کی بہتر پرورش اور اسکا ایک جائز حق اسکے باپ کا پیار اسے ملتا ہوا دیکھنا چاہتی ہوں۔ جدائی ہم والدین کی ہوئی ہے بچے کا والد تو جو ہے وہی رہے گا اور اگر وہ اپنے بچے کے لیے کچھ اچھا کرنا چاہے اسے کسی دن اپنے ساتھ گھر لیجانا چاہے تو اسے میری طرف سے اجازت ہوگی۔ یہ بات میری طرف سے شاہد صاحب کو بتا دی گئی ہے۔ مجھے اب زمانے کی پرواہ نہیں ہے کہ کوئی کیا کہے گا اور مجھے اپنے ماضی کے فیصلے پر کوئی پچھتاوا بھی نہیں ہے۔ وہ راہ میں نے خود چنی تھی۔ اب اس راہ پر چل کر ملنے والی مشکلات کو سہنا بھی میں نے ہے اور یہ بھی میرا اپنا فیصلہ ہے۔ جو مجھے اچھا لگا میں نے کر لیا۔ باقی آگے جو ہو وہ ہو۔ چلو اب تمہیں سکون مل گیا۔ آؤ تھوڑی دیر کامن روم میں ضامن علی کو دیکھتی ہیں کیا کر رہا ہے۔ پہلے تو صبح سے اپنے بابا کے آفس میں ہی ان کے پاس بیٹھا ان سے دنیا جہان کے سوال پوچھتا رہا ہوگا۔