Saturday, 21 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Khateeb Ahmad
  4. Committee (2)

Committee (2)

کمیٹی (2)

اویس نے رات اپنی امی سے بات کی کہ امی اگر ہم لڑکی والوں سے کہہ دیں کہ ہمیں جہیز نہیں چاہیے تو کتنا اچھا ہوگا؟ اسکی امی نے کہا کہ ہم کیوں ایسا کریں۔ انہوں نے جو دینا ہے اپنی بیٹی کو دینا ہے ہم کون سا مانگ رہے ہیں۔ کچھ نہ کچھ تو بنایا ہی ہوگا۔ ہماری کوئی ڈیمانڈ نہیں ہے۔ مگر ہم ایسا ان سے نہیں کہیں گے۔ اور فرنیچر سیٹ تو دیں گے ہی۔ اتنے بھی نہیں مرے ہوئے۔ دلہن کے کمرے میں بیڈ ڈریسنگ کیا ہم خرید کر رکھیں گے؟ اویس بولا اگر ہم ایسا کر دیں تو اس میں کیا حرج ہے؟ پاگل ہو کیا تم؟ ایسا کبھی سنا ہے کہ فرنیچر لڑکے والوں نے خرید کر خود ہی رکھ لیا اور لڑکی خالی ہاتھ آگئی۔ اویس کو اپنی امی کی روایتی پنجابی ساسوں والی سوچ سمجھ آگئی اور چپ کر گیا۔

خیر اویس نے کہا کہ وہ اپنی بیوی کو چار نہیں دس ہزار جیب خرچ دیا کرے گا۔ بلکل اتنا جتنی اسکی ابھی تنخواہ ہے۔ اور یہ بات نہ میں اپنے گھر والوں کو بتاؤں گا اور نہ ہی آپ کسی کو بتائیں گی۔ آپ پوری سات کمیٹی بھیجتی رہنا اور اسکے بعد بھی تین ہزار آپکے پاس ہوا کرے گا۔ ارے نہیں آپ نے مجھے ہارٹ اٹیک کرانا ہے۔ مجھے بس چار ہزار ہی چاہیے اور وہ بھی میرے گھر والے واپس کر دیں گے۔ اویس نے کہا ٹھیک ہے جیسے آپ کہیں۔ اور اپنے گھر والوں سے کہیں کہ آج فون کردیں۔ آپ لوگ شادی کے لیے تیار ہیں۔ اور فرنیچر ویسے بنوانا کہاں سے ہے؟ رابعہ نے بتایا کہ بیعانہ دے دیا ہوا ہے، فلاں روڑ پر فلاں نام کی دوکان ہے۔ اب ان کو کہتے ہیں کہ اٹھانا ہے تو تیار کر دیں گے۔ اویس نے کہا ٹھیک ہے، اب ہماری بات شادی والے دن ہی ہوگی۔ میرے لائق کوئی اور کام ہو تو وہ ابھی بتا دیں۔ نہیں اور کچھ بھی نہیں آپ کا بہت شکریہ ملتے ہیں ان شاءاللہ شادی والے دن۔

اگلے ہی اتوار اویس نے اپنے دوست خطیب احمد کو ساتھ لیا اور وہ لوگ اویس کے سسرالی شہر اسی روڑ اسی دوکان پر جا پہنچے جہاں سے رابعہ کا فرنیچر بننا تھا۔ آرے والے چاچا جی کو اپنا تعارف کرایا اور بات صاف بتائی کہ لڑکی والوں کی بجائے پیسے ہم دینا چاہتے ہیں اور یہ بات لڑکی والوں کو کبھی بھی معلوم نہ ہو۔ ان کو بس یہی کہنا ہے کوئی بندہ خدا یہ پیسے دے گیا تھا۔ اور کہنا بھی تب ہے، جب شادی سے چند دن قبل فرنیچر تیار ہو جائے۔ ویسے بات کتنے میں طے ہوئی ہے۔ آرے والے چاچا جی نے کہا 1 لاکھ پچاس مانگا تھا، انہوں نے 1 لاکھ چالیس میں ڈن کیا ہے۔ چالیس ہزار کا صوفہ ہے اور ایک لاکھ میں بیڈ ڈریسنگ اور دو کرسیاں ہیں۔ اویس نے کہا کہ لکڑی کی ہی الماری آپ ہی رابعہ کے سسرال جا کر شادی کے چند دن بعد کمرے میں بنا کر آئیں گے۔ 8 کرسیوں والا ڈائننگ میز بھی ہوگا، دو دیوان چئیرز شامل کریں استری سٹینڈ شامل کریں اور تولیہ اسٹینڈ بھی۔ اس سب کی قیمت بتائیں۔ اور بیعانہ ان لوگوں کا رہے گا باقی ساری پیمنٹ کوئی اکاؤنٹ دیں ابھی ٹرانسفر کرتے ہیں۔ تین لاکھ اسی ہزار میں سب کچھ ڈن ہوا اور 10 ہزار بیعانہ کا نکال کر 3 لاکھ ستر ہزار ان دونوں لڑکوں نے ان کو ٹرانسفر کر دیا۔ اور کہا کہ جلدی سے اب کام شروع کریں ایک ماہ بعد شادی ہے۔

جب شادی کے دن طے کرنے گئے تو رابعہ کے گھر والوں نے کہا کہ سو لوگ تک بارات آجائے۔ جب کہ اویس کے گھر والے دو سو لوگ لیجانا چاہ رہے تھے۔ اویس نے اپنی امی سے کہا کہ وہ خود ہی رابعہ سے بات کر لے گا ہم دو سو لوگ ہی لے کر جائیں گے آپ لوگ اسکے ابو سے اب بات نہ کریں۔ جب اویس کو میرج ہال کا نام معلوم ہوا تو اپنے دوست خطیب کو لے کر وہاں بھی پہنچ گیا۔ اور مینجر منیر چشتی صاحب کو کہا کہ فلاں تاریخ کی بکنگ میں بارات میری آنی ہے۔ اور اپنی بارات کا خرچ میں خود دینا چاہتا ہوں۔ میں آپ کا تاحیات احسان مند ہونگا اگر یہ کام رازداری سے ہو جائے تو۔ ان سے آپ نے یہ کہہ کر پیسے نہیں لینے کہ مالکوں نے ہی نہ لینے کا کہا ہے۔ وہ سال ایک دو بارات کے کھانے خود دیتے ہیں، سفید پوش لوگوں کی بیٹی کی شادی پر۔ تو آپ بھی اسی لسٹ میں شامل ہوئے ہیں۔ اور یہ بات آپکے سوا کوئی اور نہیں جانتا۔ سو لوگوں کی بجائے دو سو لوگ کر لیں۔ مینیو کیا ہے؟ چشتی صاحب نے بتایا کہ چکن ون ڈش ہے 900 روپے میں بات طے ہوئی ہے۔ پانچ ہزار ٹیکس کا الگ ہوگا۔ خطیب نے پوچھا کہ اگر چکن پکوڑا اور بیف قورمہ کر لیں تو کیا ریٹ ہوگا؟ آئس کریم کی جگہ گاجر کا حلوہ کر لیں۔ مینجر نے کہا کہ 1250 ہو جائیں گے۔ خطیب نے کہا ٹھیک ہے ایک لاکھ ابھی دے رہے ہیں 150 بارات کی آمد پر میں آپ کو دے دونگا۔ چشتی صاحب نے کہا کہ آپ لوگوں کے ساتھ ایک تصویر بنا سکتا ہوں۔ میرج ہال کے سامنے ایک فوٹو بنی اور دونوں دوست واپس آگئے۔

پلان کے مطابق فرنیچر والوں نے پیسے نہیں لیے۔ وہی کہا گیا جو ان کو کہنے کے لیے کہا گیا تھا۔ شادی کے کپڑوں کے لیے جو پیسے رابعہ کی امی نے اپنی ایک دوست سے ادھار لیے تھے، وہ ان کو لوٹا دیے گئے پھر بھی پیسے بچ گئے۔ جو شادی کے کھانے کے لیے بھی تقریباً کافی تھے۔ جب بارات آئی دو سو بندہ تھا۔ مینجر صاحب نے رابعہ کے ابو کو کہا کہ فکر مند نہ ہوں ہم سنبھال لیں گے۔ آج آپ کا کھانا بلکل فری ہے۔ مالکوں کو آپ کا معلوم ہوا تو انہوں نے کہا ہماری بھی بیٹی ہے۔ ہم پیسے نہیں لیں گے۔ آپ بس سکون سے بیٹھیں اور کھانا کھائیں۔ کھانے میں مینیو بھی کچھ بدلا گیا ہے۔ رابعہ کے ابو کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے اور چشتی صاحب کو دعائیں دے رہے تھے۔ جب بارات چلی گئی بیٹی اپنے سسرال کو روانہ ہوگئی تو وہ مینجر کے کمرے میں آئے اور کہا کہ ہم دونوں میاں بیوی مالکوں سے مل کر ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں۔ چشتی صاحب نے بتایا کہ وہ تو پاکستان میں رہتے ہی نہیں ہیں۔ جب آئے آپ کو بلا لیں گے آپ آجانا۔ اور یوں وہ لوگ کمیٹی کے پیسوں سے بچا ہوا نوے ہزار لے کر شکرگزاری کے جذبات میں ڈوبے ہوئے گھر آگئے۔

رابعہ کے فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا کہ فرنیچر کے پیسے اسکے خاوند نے ادا کیے ہیں۔ اور نہ ہی بارات کے کھانے کا کچھ علم تھا۔ کہ اسکے پیسے کس نے دیے۔ وہ بس یہ سوچ رہی تھی کہ ہم نے تو چکن قورمہ کہا تھا۔ یہ چکن پکوڑا اور گاجر کا حلوہ کہاں سے آگیا۔ امی ابو سے پوچھ بھی نہ سکی کہ اسکی نندیں اور دیگر مہمان سب پاس تھے۔ ایک لاکھ روپے حق مہر لکھا گیا۔ جو اویس نے گھر آکر اپنی بیوی کو دے دیا۔ اور کہا کہ یہ پیسے وہ جہاں اسکا دل کرے لگا سکتی ہے۔

جب اگلے دن میکے جا کر اسے معلوم ہوا کہ شادی ہال میں بھی پیسے نہیں لیے گئے۔ تو اس نے یہ بات اپنے خاوند کو فرنیچر والی بات کی طرح نہ بتائی اور گھر والوں کو بھی منع کیا کہ کسی سے ان دو باتوں کا ذکر نہ کرے۔ کہ اسکا خاوند یا اسکے سسرال والے نجانے کیا سوچیں۔ کہ ہم نے کسی سے امداد لے کر فرنیچر خریدا اور شادی کا کھانا بھی کسی نے دیا۔ مگر وہ دل ہی دل میں اس فرشتہ صفت انسان کو دعائیں دیتی رہی۔ وہ بہت سوچتی رہی کہ اس نے کونسی ایسی نیکی کی تھی۔ جس کا صلہ ملا اور اتنا محبت کرنے والا شوہر ملا اور شادی کے دو بڑے خرچ اللہ نے غیب سے بندوست فرما دیے۔ اسکے کوئی نیکی یاد نہ آئی۔ بس ایک ہی اچھا کام اسے یاد آیا کہ وہ گھر میں ٹیویشن پڑھنے آنے والے بچوں میں سے ایک بچہ کو بصارت سے محروم تھا۔ اسے فری پڑھایا کرتی تھی۔ وہ بچہ ایک سپیشل سکول میں پڑھتا تھا اور ٹیویشن کے لیے اسکے پاس آیا کرتا تھا۔ اسکو پڑھانے کے لیے وہ ایک بار اپنے سکول سے چھٹی کرکے پورے دن کے لیے اسکے سپیشل سکول بھی گئی تھی کہ یہ ہارڈ کاغذ پر سوئی سے جو نقطے نکالے جاتے ہیں اس الف ب اور اے بی سی کو سمجھ سکے۔ اور دو سال تک اس نے اس بچے کو بلکل فری پڑھایا تھا۔

اویس پر اپنی شادی کا پانچ لاکھ قرض چڑھا۔ جو اس نے اگلے دو سالوں میں تنخواہ سے پیسے بچا کر اتار لیا۔ اویس کی امی کا انتقال شادی کے تین ماہ بعد ہی ہوگیا۔ اس نے اپنے باقی گھر والوں کو اور رابعہ کو بعد میں سب کچھ بتا دیا۔ اسکے مطابق اگر یہ بات کسی کو نہیں معلوم ہونی چاہیے تو وہ اسکی اپنی امی تھیں۔ وہ زندگی کے کسی موڑ پر اپنی بہو کو یہ طعنہ مار سکتی تھیں کہ ساس اور بہو کا کوئی سمجھے تو ماں بیٹی کا رشتہ ہے۔ کوئی نہ سمجھے تو کوئی رشتہ ہے ہی نہیں۔ اب جب وہ زندہ ہی نہ رہیں تو اس نے اپنے ابو اور بہن بھائیوں کو بھی تھوڑا بہت بتا دیا اور ترغیب دی کہ ہم اپنی دیگر شادیوں میں بھی ایسا ہی کریں گے۔ بہنوں کی شادی پر لڑکے والوں کی بھی جو مدد کر سکے وہ بھی کریں گے۔ ان کو ہر ممکن آسانی دیں گے۔ اور بھائیوں کی شادی پر لڑکی والوں کا جو ہاتھ بٹا سکیں وہ بٹائیں گے۔ اور یہ نصیحت ہم اپنی اگلی نسل کو بھی کریں گے۔

آج اویس کی شادی کو چھ سال ہو چکے ہیں۔ وہ لوگ والدین نہیں بن سکے۔ مگر انکی محبت اور خلوص قابل رشک ہے۔ وہ اس کام میں دیر کو خدا کی کوئی مصلحت مانتے ہیں۔ رابعہ اب اپنے سسرال میں ایک اچھے پرائیویٹ سکول کی پرنسپل ہے۔ سکول میں ماشاءاللہ 7 سو کے قریب بچے پڑھتے ہیں۔ اور ان کے سکول سے جب بھی کسی سفید پوش باپ کی بیٹی کی شادی ہوتی ہے۔ بغیر کسی کو بتائے اسکا فرنیچر اسے تحفہ کیا جاتا ہے۔ یا شادی کا مکمل کھانا دے دیا جاتا ہے۔ اس رحمت برستے اسکول میں نو یا دس سپیشل بچوں کو بلکل فری تعلیم دی جا رہی ہے۔ آج 11 جنوری اویس کی شادی کی سالگرہ بھی ہے۔ اور آج اسکا دوست خطیب احمد اپنے دوست کو ساری دنیا کے سامنے کہتا ہے میری جان تم ایک عظیم اور نایاب روح ہو۔ تم جیسے انسان ہی انسانیت کا شرف ہیں۔ مجھے ایسا خطیب بنانے میں جیسا میں آج ہوں یا جیسا بننے کی کوشش میں ہوں تمہارا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ تم جیسے لوگ حقیقت میں کم اور قصے کہانیوں میں ہی پائے جاتے ہیں۔ شادی کی سالگرہ بہت مبارک ہو جند۔۔

نوٹ۔ اس کہانی میں جو کچھ آپ کو حقیقت نہ لگے اور اس پر یقین نہ آئے۔ اسے میرا تخیل سمجھ لیں۔ اصل واقعے میں پہچان چھپانے کی خاطر کچھ اضافہ کیا ہے کچھ تبدیلیاں کی ہیں۔ ممکن ہے بس فرنیچر کا انتظام کیا ہو یا بس کھانے کا بندوست کیا ہو۔ یا کسی اور صورت میں مدد کی ہو۔ لیکن کیا کچھ اتنا اچھا تھا۔ آپ کو وہ ہی بتا دوں تو آپ کی روح ٹھر جائے۔ کمیٹی سات ہزار کی ہی تھی اور اویس کو اسکے متعلق بتانے والی کال بھی سچ ہے۔ جو لکھی ہے یہی بات ہوئی تھی۔ اسی نسبت سے کہانی کا نام بھی کمیٹی رکھا ہے۔

Check Also

Tanhai Ke So Saal

By Syed Mehdi Bukhari