1.  Home/
  2. Blog/
  3. Khateeb Ahmad/
  4. Committee (1)

Committee (1)

کمیٹی (1)

اویس کے گھر والے لڑکی والوں کو بڑا زور دے کر کہہ رہے تھے کہ ہمیں شادی گرمی شروع ہونے اور رمضان سے قبل ہر صورت لرکے دیں۔ اور لڑکی والے بس مختلف ہیلے بہانے کرکے شادی کو کم از کم ایک سال مؤخر کرنا چاہ رہے تھے۔ ممکن تھا کہ منگنی لڑکے والوں کی طرف سے ختم ہو جاتی کہ ان لوگوں کو بھی انکی بیٹی کے سسرال والے مجبور کر رہے تھے کہ ہمیں جلدی شادی کرکے دیں۔ اویس اور اسکی بڑی بہن کی شادی اکٹھی ہونی تھی۔ دن بدن تناؤ بڑھتا جا رہا تھا اور لڑکی والوں کا ضرورت سے زیادہ تاخیر کرنا اس نئے جڑے رشتے کی مٹھاس کو کم کر رہا تھا۔ رابعہ اویس کی منگیتر ایک پرائیویٹ سکول میں ٹیچر تھی اور اسکے ابو ایک پرائیویٹ کالج میں سکیورٹی گارڈ تھے۔ لوئیر مڈل کلاس فیملی تھی اور سفید پوش لوگ تھے۔

جب کہ اویس کی فیملی کو مڈل کلاس کہا جا سکتا ہے۔ انکے گھر مناسب سی گاڑی تھی دو عدد اے سی اور سولر سسٹم وغیرہ لگا ہوا تھا۔ اویس کی ایک ملٹی نیشنل فرم میں اچھی ملازمت تھی لگ بھگ ایک لاکھ تنخواہ تھی۔ اویس کے ابو اور دو بھائی بھی کمانے والوں میں شامل تھے۔

تین ماہ منگنی کو ہو گئے تھے مگر ابھی تک دونوں کی آپس میں ایک بار بھی کال یا میسج پر بات نہیں ہوئی تھی۔ دونوں ہی اس سوچ کے حامی تھے کہ شادی سے پہلے رابطہ کرنا اچھا نہیں ہے۔ اور دونوں ہی اس پر عمل کر رہے تھے۔

قریب تھا کہ اویس کے گھر والے رشتہ ختم کردیتے۔ رابعہ اپنے ابو کے موبائل سے اویس کا فون نمبر لے کر اسے میسج کرتی ہے۔ کہ میں آپکی منگیتر رابعہ ہوں۔ آپ کے چند منٹ درکار ہیں۔ جب بھی ایزی ہوں پلیز بتا دیں میں فون کر لوں گی۔ اویس نے جب میسج دیکھا تو رپلائی کر دیا کہ مجھے ایک سے دو بریک ہوتی ہے آپ 1:10 پر فون کر لیں۔ مقررہ وقت پر رابعہ نے فون کر لیا۔ سلام دعا کے بعد رابعہ نے اویس سے کہا کہ جس دن آپ کے گھر والوں نے مجھے دیکھنے آنا تھا میں نے بہت دعا کی تھی کہ آپ لوگ مجھے پسند کر جائیں۔

کیونکہ میرے ابو میرے لیے تین چار سال سے رشتہ تلاش کر رہے تھے اور کہیں بات نہیں بن رہی تھی۔ وہ بہت پریشان رہنے لگے تھے اور انکی یہ پریشانی میں دیکھ نہ سکتی تھی۔ انہوں نے بڑی مشکل سے اپنا پیٹ کر ہم بہن بھائیوں کو پالا اور اچھی تعلیم دی۔ میں اب چوبیس سال کی ہونے والی ہوں۔ ابو میری عمر کو لے کر پریشان ہوتے ہیں کہ لڑکیوں کی شادی بیس بائیس سال کی عمر میں ہو جانی چاہیے اور میں نومبر میں 24 سال کی ہو رہی ہوں۔ تو میں نے شکرانے کے نوافل پڑھے جب آپ لوگوں نے فون کرکے کہا کہ ہمیں لڑکی پسند ہے۔ میرے گھر والوں کو تو آپ پہلے ہی پسند آ چکے تھے۔

مجھے نہیں معلوم ہمارا یہ رشتہ بچتا ہے یا ختم ہوجاتا ہے۔ میں اپنی ایک دوست کے کہنے پر آپ کو فون کر رہی ہوں وہ میرے پاس ہی بیٹھی ہے۔ میرا خداگواہ ہے میری زندگی میں کسی بھی طرح سے آنے والے آپ پہلے مرد ہیں۔ ہم جیسے غریب گھرانوں میں شادی سے پہلے لڑکوں کو پیچھے لگانے کا کوئی رواج نہیں ہے۔ ایک دو کزنز نے اپروچ کیا مگر میں نے ان کو صاف کہہ دیا کہ میرے ابو نے آپ کے ساتھ شادی نہیں کرنی تو بھائی آپ اپنا اور میرا ٹائم ضائع نہ کریں۔ چند ماہ پھر بھی پیچھے پڑے رہے میری سالگرہ پر کیک وغیرہ لائے مگر ناکام ہی لوٹے۔ آپ وہ پہلے مرد ہیں جسے میں نے اپنی سوچ میں اور دل میں جگہ دی کہ آپ سے میرا نکاح ہونے والا ہے نسبت طے ہوچکی ہے۔ میں نہیں چاہتی کہ ہمارا رشتہ ختم ہو۔ بس ایک کال کرکے اس رشتے کو بچانے کی کوشش کرنے لگی ہوں۔

اویس نے کہا جی آپ کریں بات۔ رابعہ بولی کہ میری یہاں دس ہزار روپے ماہانہ تنخواہ ہے۔ یہاں ایک سات ہزار ماہوار کی کمیٹی شروع ہوئی تھی۔ ٹوٹل 20 کمیٹیاں تھیں تو میں نے بھی ایک کمیٹی ڈال لی۔ اب تک 6 کمیٹیاں جا چکی ہیں اور 14 باقی ہیں۔ 1 لاکھ 40 ہزار روپے ملیں گے تو ہم نے سوچا ہوا ہے کہ ان پیسوں سے ہم فرنیچر خرید لے لیں گے۔ ساری ٹیچرز مجھے آئندہ ماہ کی کمیٹی دینے پر رضا مند ہیں میری پرچی نکلے یا بے شک نہ نکلے کہ تمہارا رشتہ پیسوں کی وجہ سے نہ ٹوٹ جائے۔ میں اس بات کو لے کر پریشان ہوں کہ اگلے ماہ اگر شادی ہو جاتی ہے تو بعد کی 13 کمیٹیاں میرے گھر والے کیسے دیں گے؟ میرے ابو کی 14 ہزار تنخواہ ہے۔ امی لڑکیوں کے جہیز کے سامان کی سلائی کڑھائی سے ماہانہ چار پانچ ہزار کما لیتی ہیں۔ وہ بھی کام اب کم ہوتا جا رہا ہے لوگ بیڈ شیٹس یا ڈریسنگ ٹیبل پر رکھنے والا کپڑے پڑ ہاتھ کی کڑھائی یا کروشیا کا کام کرانا کم کرتے جا رہے ہیں۔ تو کسی صورت بھی 7 ہزار ماہانہ کمیٹی دینا ممکن نہیں ہے۔

کیا میں آپ سے پوچھ سکتی ہوں آپ کی تنخواہ کتنی ہے؟ اویس بولا جی بلکل پوچھ سکتی ہیں۔ میری ایک لاکھ نو ہزار روپے ماہانہ تنخواہ ہے۔ رمضان میں ڈبل تنخواہ ملتی ہے۔ رابعہ بولی کیا آپ مجھے تھوڑا سا جیب خرچ دیا کریں گے؟ اویس کی آنکھیں پانی سے پہلے ہی بھر چکی تھیں اب چھلک پڑیں۔ ڈبڈباتی آواز کو کنٹرول کرتے ہوئے بولا ہاں بلکل دیا کروں۔ وہ تو سبھی دیتے ہیں۔ رابعہ تھوڑی سی خوش ہوئی کہ کتنا آپ نے سوچا ہوا ہے؟ اویس بولا جتنا میری بیوی کہے گی اتنا ہی دے دونگا۔ ہیں سچ میں آپ ایسا کریں گے؟ جی سچ میں کہہ رہا ہوں۔ اچھا آپ اپنے گھر والوں کو بھی بتائیں گے کہ آپ مجھے جیب خرچ دیتے ہیں؟ نہیں میں بلکل بھی نہیں بتاؤں گا۔ ہاں پلیز ان کو تب تک نہ بتائیے گا جب تک میں نہ کہوں۔ وہ پھر ساس پوچھتی ہیں کہ کتنے پیسے جمع کیے ہیں ان سے کچھ بنا لو۔ اور میرے پاس تو پیسے جمع ہی نہیں ہونے۔

اچھا تو کیا آپ مجھے چار ہزار جیب خرچ دے سکتے ہیں؟ رابعہ کے پاس بیٹھی اسکی دوست انعم نے اسے اشارہ کیا کہ اصل بات کرو اب سب لوگ جا رہے ہیں۔ سکول خالی ہو رہا ہے۔ اویس بولا بس چار ہزار؟ جی بس چار ہزار۔ وہ میں امی کو بھجوا دیا کروں گی۔ امی کہہ رہی ہیں کہ میں گھر خرچ سے بچت کرکے تین ہزار بچا لیا کروں گی اور کمیٹی چلتی رہے گی۔ بس ایک سال کی ہی تو بات ہے۔ تیرہ ماہ میں 4 ہزار ماہوار ہو تو 52 ہزار روپے میں اپنی امی کو دونگی۔ اور یہ پیسے میری امی کمیٹی ختم ہونے کے ایک سال بعد مجھے لوٹا دیں گی اور میں آپ کی امانت دے دونگی۔ اگر آپ ایسا کر لیں تو میں ساری عمر آپکی شکر گزار اور احسان مند رہوں گی۔ اور ہمارا رشتہ بھی نہیں ٹوٹے گا۔ جب منگنی ٹوٹتی ہے ناں تو لوگ طرح طرح کی باتیں بناتے ہیں۔ پھر دوبارہ رشتہ مشکل ہوجاتا ہے۔ ابو جی نے اپنے کالج کے پرنسپل سے بھی ویسے بات کی ہے اگر وہاں سے پیسے قرض مل گئے تو آپ کو زحمت نہیں دونگی۔

اویس فون میوٹ کرکے زار و قطار رو رہا تھا۔ رابعہ نے کہا آپ سن رہے ہیں ناں؟ میں بس بولتی ہی گئی آپ بھی کہیں گے کتنا بولتی ہے یہ لڑکی۔ اویس نے کال کاٹ دی کہ اس سے بات ہی نہیں ہو رہی تھی۔ اس نے میسج کیا کہ باس نے بلا لیا ہے، کل بات کرتے ہیں۔ میں نے آپکی بات سن لی ہے۔ رشتہ ختم نہیں ہوگا، آپ بلکل پریشان نہ ہوں۔ میسج پڑھ کر رابعہ کی آنکھوں میں خوشی چھلکنے لگی انعم کو زور کی جپھی لگائی اور خوشی سے جھومتی ہوئی دونوں گیٹ تک آگئیں۔ انعم بولی میں نہ کہتی تھی بدھو ایک بار بات تو کر لو بھائی مان جائیں گے۔ نہ بھی مانے رشتہ تو ویسے ہی ختم ہو رہا ہے۔ دل میں کسک تو نہیں رہے گا کہ بات ہی نہ کر سکی۔ اب تمہاری شادی کرانے کا سہرا میرے سر ہے۔ بھول نہ جانا۔ کبھی بھی نہیں بھولوں گی یار۔ تم نہ ہوتی تو میں کبھی ایسے اویس سے بات نہ کر پاتی۔ میرے لیے یہ پل صراط عبور کرنے جتنا مشکل کام تھا۔ جو تم نے آسان کیا۔ رابعہ تم مجھے بہت عزیز ہو۔ جانی میرے حالات تم سے کہاں چھپے ہیں، میرے پاس کچھ بیچنے لائق ہوتا تو بیچ کر تمہاری مشکل آسان کر دیتی۔ مگر اس تنخواہ کے علاوہ ہمارا کوئی اور ذریعہ آمدن نہیں ہے۔

ارے کیسی باتیں کرتی ہو۔ میں خود کو بیچ کر بھی تمہارے اس احسان کی قیمت نہیں چکا سکتی جو تم نے مجھے اویس سے بات کرنے پر آمادہ کرکے کیا ہے۔ یہی بات میں اگر اویس کے علاوہ کسی سے کرتی تو مجھے پیسے شاید اس سے ڈبل مل جاتے مگر بدلے میں بھی تو کچھ دینا تھا ناں؟ مجھے کئی بار خیال آیا کہ کسی بھی طرح فرنیچر کا بندوست کر لیتی ہوں۔ مگر یہ رشتہ نہیں ٹوٹنے دینا۔ مگر یہ دنیا ہوس پرست ہے۔ بدلے میں جسم دینے کے سوا میرے پاس اور کچھ بھی نہیں تھا۔ اور یہ لوگ جو اجتماعی شادیاں کراتے ہیں۔ بہت ہی گھٹیا لوگ ہیں، جو میڈیا بلا لیتے ہیں اخباروں میں تصاویر لگواتے ہیں اور دلہا اور دلہنوں سے انٹریو کرنے والے لوگ کیسے کیسے سوالات کرتے ہیں۔ اور میرے سسرال والے کیا ایسی خیرات کی شادی میں شامل ہوتے؟ کبھی بھی نہیں۔

ان ڈفروں کو کوئی سمجھائے کہ اس سے آدھے بجٹ میں اس سے ڈبل شادیاں ہو سکتی ہیں، مگر ان میں نمود و نمائش نہ ہو۔ غریب کو احساس نہ دلایا جائے کہ تم غریب تھے اور ہم نے اتنی غریب اور یتیم بچیوں کی شادی کی سب کو ایک کمرے کا سامان جہیز دیا۔ ایسی کسی تقریب میں ایسا کرنے والوں کی اپنی بیٹی کو بطور دلہن بٹھایا جائے تو ان کو کیسا لگے گا؟ اگر یہ اچھا کام ہے تو کوئی ایک مثال دے دیں، جس میں ڈونرز کی اپنی بیٹیاں بھی اس اجتماعی شادی تقریب سے دلہن بن کر رخصت ہوئی ہوں؟ کوئی ایک مثال بھی نہیں ملے گی۔ تو میری بہن تمہارا ایک بار پھر شکریہ تم نے مجھے کسی گناہ یا ایسی ذلالت سے بچا لیا جو مخیر حضرات ہم جیسے غریبوں کی بیٹوں کی شادی کے نام پر کرتے ہیں۔

اگلے دن ایک بج کر دس منٹ پر اویس نے خود کال کر لی۔ کل سے لے کر اب تک وہ اپنی منگیتر کے کہے ہوئے ایک ایک لفظ کو یاد کرتا رہا۔ خود کو کوستا رہا، اپنے آپ کو گالیاں دیتا رہا کہ میں ہی کتنا ڈفر اور ڈنگر کھوتا ہوں۔ میں نے سوچا ہی ناں کہ وہ لوگ شادی میں تاخیر آخر کرنا کیوں چاہ رہے ہیں۔ میرے گھر والوں نے بھی اس نقطے پر نہ سوچا کہ ان کو اعتماد میں لے کر بات کی جائے۔ بس یہی کہتے رہے ہمیں ایک ماہ میں شادی کردو۔

جاری۔۔

Check Also

Maa Ji

By Naveed Khalid Tarar