Apne Kaano Aur Samaat Ka Khayal Rakhiye
اپنے کانوں اور سماعت کا خیال رکھیئے
کیا آپ کو معلوم ہے موبائل ہینڈز فری یا ائیر بڈز استعمال کرتے ہوئے عموماً 7 نمبر والیم پر جا کر یہ سکرین شاٹ والی وارننگ کیوں دی جاتی ہے؟ کیونکہ یہاں تک والیم 70 DBa ڈیسی بل تک ہوتا ہے۔ آواز کو ماپنے کا پیمانہ ڈیسی بل کہلاتا ہے۔ 20 ڈیسی بل کی آواز جو بغیر آلہ سماعت کے نہ سن سکے اسے میڈیکلی اور قانونی طور پر ڈیف مانا جاتا ہے۔ 70 ڈیسی بل تک آواز سننا محفوظ ہے۔ آپ جب تک مرضی اس والیوم تک آواز سن سکتے ہیں۔ اس سے تھوڑا سا اوپر ہی جا کر یعنی 85 ڈیسی بل کی آواز کو اگر مسلسل 8 گھنٹوں تک سن لیا جائے تو ہماری سماعت بری طرح متاثر ہو سکتی ہے۔
یعنی آپکا بہرہ پن کی طرف سفر شروع ہو جائے گا۔ آپ اسی وقت سننے کی صلاحیت نہ بھی کھوئیں 40 سال سے 50 سال کی عمر میں اونچا سننا شروع کر دیں گے۔ اتنی اونچی آواز ہمارے بیرونی درمیانی اور اندرونی کان سے ہوتی ہوئی آڈیٹری Nerve تک کو ڈیمج کرتی ہے۔ مگر اس وقت آواز نشہ دے رہی ہوتی تو اس نقصان کا ادراک نہیں ہوتا۔ اور 50 سے 60 سال کی عمر تک آلہ سماعت کے بغیر کوئی آواز نہیں سن سکیں گے۔ مکمل Deafness کا شکار بھی ہو سکتے ہیں۔ آپ نے بے شمار بوڑھے سماعت سے محروم ہوتے دیکھے ہونگے؟ جوانی میں بھی ایسے افراد سماعت کھو دیتے جو شور والی جگہوں پر لمبے عرصے تک کام کرتے۔
70 ڈیسی بل سے اوپر جتنی بھی آواز بڑھتی جائے گی وہ ہماری سماعت کے لیے خطرناک ہوتی جائے گی۔ جہاں موبائل کہے رک جاؤ خدارا رک جایا کریں۔ بائیک کا سلنسر اتار کر چلانے والوں کو بھی والدین جوتے ماریں وہ آواز 100 ڈیسی بل تک ہوتی ہے۔ بڑی بسوں کا پاں والا ہارن بھی 90 سے 110 ڈیسی بل تک ہوتا۔ آپ کے کان کے قریب بجایا جائے تو کان کا پردہ پھٹ جائے۔ 125 کی بھڑک 80 ڈیسی بل کی ہے جسے بڑے شوق سے ریس دے دے کر سنا جاتا ہے۔ ٹریکٹر پر اپنے کانوں کے پاس بڑے بڑے اسپیکر لگا کر گانے سننے والے ڈرائیور بھی کانوں کی صحت کی موت سے کھیل رہے ہوتے۔
کہیں چند کالجی یا ہاسٹل میں موجود دوست اکٹھے ہوں تو وہ بھی بوفر لگا کر شوخے ہوئے ہوتے۔ سینما ہال میں بھی کوئی قانون نام کی چیز نہیں ہے۔ وہ بھی آواز کو 75 سے شروع کرکے 90 اور کبھی کبھار 105 ڈیسی بل تک لے جاتے ہیں۔ فلم ختم ہوتی تو کوئی کم ڈیسی بل کی آواز چند منٹ تک سنائی ہی نہیں دیتی۔ یہ چیز بھی بے حد خطرناک ہے۔ یہاں ہمارے ہاں کوئی ایسی اتھارٹی ہی نہیں ہے جو اس چیز پر کام کرے۔ اور تھرل کے نام پر لوگوں کی سماعت کو ڈیمج ہونے سے بچائے۔
کاش یہ بات مساجد، امام بارگاہ اور نعت خوانی کی محافل، مجالس وغیرہ میں تھرل Thril پیدا کرنے والے شعلہ بیان خطیبوں ذاکرین اور نعت خوانوں کو بھی کوئی سمجھا دے۔ جمعہ پڑھنے جاؤ، نماز تراویح یا عام نماز میں بھی ایک دو صف کے لیے بھی اب 90 فیصد مساجد میں ساؤنڈ سسٹم استعمال کیا جاتا ہے۔ اور اکثر جگہوں پر والیوم دل کھول کر کھولا گیا ہوتا ہے۔ اور آواز 80 سے 100 ڈیسی بل کے درمیان رکھی گئی ہوتی۔ ان ہمارے پیارے علماء کو اس بات کا شاید علم ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے ساتھ اپنے تمام مقتدیوں کو جنت سے پہلے بہرہ پن کی طرف بڑی تیزی سے لیجا رہے ہیں۔
آپ کسی بھی مسجد میں آواز ماپنے والا میٹر لیجا کر آواز کی اونچائی کو ماپ لیں۔ 80 سے اوپر ہی پائیں گے۔ میرے تو کانوں کے ساتھ دماغ بھی پھٹنے لگتا ہے۔ پتا نہیں کیسے یار اتنا بڑا مجمع عقیدت کے نام پر اپنی سماعت کا بیڑہ غرق کر رہا ہوتا۔ اب ایک عرصے سے اکثر گھر ہی نماز پڑھ لیتا ہوں۔ جمعے کو مسجد تب جاتا ہوں جب تقریر ختم ہو چکی ہو۔ ایک تو وہ اسپیکر کوئی اچھی کوالٹی کے نہیں ہوتے دوسرا آواز اتنی اونچی کہ رہے رب کا نام۔
پلیز اپنے کانوں اور سماعت کا بہت خیال رکھیے۔ یاد رہے کہ گزارے لائق معیاری آلہ سماعت کی ایک جوڑی ڈالر مہنگا ہونے اور روپے کے قدر کھونے کے بعد پانچ لاکھ روپے کی ہو چکی ہے۔ جو لوگ اپنے پیدائشی یا کسی بیماری سے ہونے والی سماعت سے محرومی کے بعد بچوں کے لیے آلہ سماعت خریدنے جاتے ان سے ایک بار مل لیں۔ کہ آلہ سماعت خریدنا اسکی کئیر کرنا اس کو کان میں لگانا اور لوگوں کی نظروں کا سامنا کرنا کتنا مشکل کام ہے۔ لاکھوں روپے کی ٹیکنالوجی اور مشینری کا استعمال ہمیں کبھی بھی ایسی آواز نہیں سنا سکتی جو ہم خدا کی طرف سے عطا اس قدرتی کان سے سن رہے ہیں۔