Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Khateeb Ahmad
  4. 15 March

15 March

15 مارچ

پندرہ مارچ کی صبح دس بجے میں اپنی کلاس کے بچوں کو سبق پڑھا رہا تھا کہ اہلیہ کی کال آئی۔ مجھے کہا کہ بریک میں آپ گھر آجائیں میری طبیعت نہیں ٹھیک۔ ہسپتال جانا ہے۔ لگتا ہے آج ہمارا بیٹا اندھیروں کی دنیا سے روشنیوں کی دنیا میں آنکھیں کھولے گا۔ میں نے کلاس اپنے کولیگ شجر صاحب کے حوالے کی اور چھٹی لے کر فوری گھر آگیا۔ امی اور اہلیہ میرے آنے تک تیار تھیں۔ ہم گاڑی میں بیٹھے اور ہسپتال چلے گئے۔

ریڈیالوجسٹ اور گائناکالوجسٹ دونوں نے ضوریز احمد کی پیدائش کی متوقع تاریخ 18 مارچ بتا رکھی تھی۔ اور کہا تھا کہ پہلے پیدائش کے آثار ظاہر ہوجائیں تو بھی آجائیں۔ میں ایک ماہ پہلے ہی شہر کے سارے ہسپتال خود وزٹ کرکے ایک ہسپتال کا انتخاب کر چکا تھا۔ جہاں سے ہم نے نارمل ہو یا سی سیکشن ڈیلیوری کروانا تھی۔ ہمارے شہر میں ڈیلیوری کے وقت بچوں کے ڈاکٹر کا پاس ہونا اور نومولود بچے کو Receive کرنے کا رواج بلکل بھی نہیں ہے۔ اور اکٹر اوقات انستھیزیا یعنی بیہوشی والے ڈاکٹر کی بجائے خود ہی گائناکالوجسٹ جزوی یا کلی بیہوشی کا انجیکشن لگا دیتی ہیں۔

میں نے ہسپتال کے مالک سے خود ملکر بات کی تھی۔ ڈیلیوری نارمل ہو یا سی سیکشن کی طرف جانا پڑے۔ انستھیزیا اور پیڈز کے اچھے ڈاکٹرز کو آپ سٹینڈ بائے رکھیں گے۔ کچھ وجوہات کی بنا پر نارمل ڈیلیوری ممکن نہ تھی۔ کچھ اہلیہ کے دل میں پچھلے بیٹے کی نارمل ڈیلیوری کے دوران ہی وفات کا ڈر بھی بیٹھا ہوا تھا۔ تو ڈاکٹرز نے یہی فیصلہ کیا ہم سیکشن کی طرف جائیں گے۔

شمامہ نے نرس بھیج کر مجھے اندر بلایا اور مجھ سے پوچھا کہ آپ مجھ سے ناراض تو نہیں ہیں؟ میں نے کہا وہ کیوں؟ تو بولی میں نارمل ڈیلیوری کی طرف نہیں جا رہی۔ میں نے کہا ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ آپ بلکل بھی پریشان نہ ہوں۔ نارمل ڈیلیوری ممکن ہی نہیں ہے ورنہ آپکو قائل کر لینا تھا۔

شام 5 بجے کے قریب انستھیزیا اور بچوں کا ڈاکٹر آگئے۔ میری خواہش پر مجھے بھی سبز لباس پہنا کر اندر لیجایا گیا۔ بیہوشی والے ڈاکٹر صاحب نے کچھ دیر بچے اور ماں کے دل کی دھڑکن ریکارڈ کی۔ اور زچہ کی نبض پکڑے رکھی۔ پہلے مشورہ ہوا کہ regional anesthesia دیا جائے۔ یعنی ریڑھ کی ہڈی میں انجیکشن لگا کر نچلے دھڑ کا کنکشن دماغ سے آنے والے الیکٹرک سگنلز کی سپلائی سے کاٹا جائے۔ اور ماں ہوش میں ہی رہے۔۔ مگر بعد میں مشورے سے کچھ چیزیں ڈسکس کرکے جنرل انستھیزیا یعنی مکمل بیہوشی پر اتفاق ہوا۔

آپریشن کا جیسے ہی کٹ لگا، خون نکلا تو میرا سارا جسم ٹھنڈا ہوگیا۔ اور آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھانے لگا۔ جیسے میں بیہوش ہوجاوں گا۔ میں تھوڑا سا پیچھے ہٹ گیا۔ اور حواس بحال ہوگئے۔

چند ہی لمحوں میں بچہ بچوں کے ڈاکٹر کے ہاتھوں میں تھا۔ ڈاکٹر تو ینگ لڑکا تھا مگر ماشاءاللہ انتہائی پروفیشنل تھا۔ عموماً 30 سیکنڈ سے 60 سیکنڈ کے دوران بچے کا رونا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ مگر اس ماں کے پتر نے میرے پتر کو اسکی زندگی کے پہلے 14 سیکنڈز میں ہی کمر پر تھپکی وغیرہ دے کر رلا دیا۔ مگر اسکے بعد 5 منٹ تک بچہ بچوں کے ڈاکٹر کے ہی ہاتھوں میں رہا۔ میرے لیے یہ بڑا ہی منفرد سا خوبصورت تجربہ تھا۔

ہمیشہ یاد رکھیں کہ بچے کی زندگی کا پہلا ایک منٹ اور پھر اگلے پانچ منٹ بہت ہی اہم ہوتے ہیں۔ بچوں کے دماغ تک تاخیر سے رونے یا ناک منہ کی ٹھیک صفائی نہ ہونے کیوجہ سے آکسیجن نہیں پہنچ پاتی۔۔ اور چند کیسز میں برین ڈیمج تک ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ اس کو تفصیل سے انشاء اللہ ایک الگ پوسٹ میں لکھوں گا۔ خیر آپریشن تھیٹر میں کاکے کی ٹیں ٹیں ہونے لگی۔ اور سب خوشی سے مجھے اور میرے بیٹے کو دیکھنے لگے۔ ایک پیاری سی نرس آپی نے کاکے کو صاف کرکے کپڑے پہنائے اور مجھے تھہما دیا۔

اور ضوریز احمد صاحب کو چپ کروانے کا ٹاسک ڈاکٹرز کی طرف سے مجھے سونپا گیا۔ لوری شوری دے کر جلد ہی ٹاسک انکے سامنے ہی مکمل کر لیا گیا۔

اس ہسپتال میں یہ پہلی بار ہوا تھا کہ والد بھی آپریشن کے وقت پاس موجود ہے۔ اور بچوں کا ڈاکٹر بھی اس ہسپتال میں پہلی بار آپریشن تھیٹر میں بچے کو ریسیو کرنے گیا تھا۔

آپ سب سے یہ سب شئیر کرنے کا مقصد کچھ یوں ہے کہ بھائیو یہ کام عورتوں کے نہیں ہم مردوں کے کرنے والے ہوتے ہیں۔ روایتی دائیوں اور لیڈی ہیلتھ ورکرز سے ڈیلیوری کے میں ہر گز حق میں نہیں ہوں۔ جہاں بچے یا ماں کو کسی بھی ایمرجنسی میں کوئی مدد نہ دی جا سکتی ہو۔ اور شہر شفٹ کرنے میں دونوں کو کوئی بڑا نقصان ہو سکتا ہو۔

کوشش کریں ایک ماہ پہلے ہی اپنے بجٹ کا ہسپتال سلیکٹ کر لیں۔ آپ کو پہلے ہی پتا ہو کہ ہم نے وہاں جانا ہے۔۔ ڈاکٹرز ہر کسی کا آپریشن ہر گز پیسے بنانے کیوجہ سے نہیں کرتے۔ جو وہ دیکھ رہے ہوتے ہم نہیں دیکھ سکتے۔ نہ انکے پاس اتنا وقت ہوتا کہ ساری تفصیل ہمیں بتائیں۔۔ میرے شہر میں لوگ ایک سے دوسرے اور تیسرے ہسپتال درد زہ میں لڑکی کو چنگ چی رکشوں پر لیکر گھوم رہے ہوتے کہ کوئی نارمل ڈیلیوری کر دے یا کم پیسوں میں آپریشن کر دے۔

خدا کے لیے درد زہ میں لڑکی کو گھر سے ہسپتال شفٹ کرنے کے لیے ایک عدد اچھی کار رینٹ پر لے لیا کریں۔ کیری ڈبہ نہیں میں نے کار کہا ہے۔ وہ بھی کوئی اچھی جیسی کار میں بیوی کو بیاہ کر لائے تھے۔ بائیک رکشہ کیری ڈبہ کسی بھی قسم کا اس وقت کے لیے محفوظ اور آرام دہ نہیں ہوتے۔۔

اور وہ بیچاری ہسپتالوں میں گھومتی درد سے کراہتی نمانا سا منہ بنا کر اپنی ساس یا نندوں یا دیگر خواتین کا منہ دیکھ رہی ہوتی کہ جلدی سے وہ کچھ فائنل کر لیں۔ اور خاوند صاحب سمجھ رہے ہوتے کہ یہ خواتین کے ہی کرنے والا کام ہے۔ وہ بہتر سمجھتی ہیں۔ ایسا عموماً پہلے بچے کی پیدائش پر ہوتا ہے۔

جبکہ ساس اپنے بچوں کی پیدائش اور اپنے زمانے کو ہی ذہن میں رکھ کر پچیس سے چالیس سال پرانے دور والی ڈیلیوری چاہ رہی ہوتی۔۔ آپریشن سے ہر صورت بچنے کی کوشش کی جاتی۔ اور نا تجربہ کار ہاتھوں میں زچہ بچہ کو دیکر بہت بڑا رسک مول لیا جاتا۔ اور یہ کہا جاتا کہ جب آپریشن اور ہسپتال نہیں تھے تب کیا بچے نہیں ہوتے تھے۔

یقیناً ہوتے تھے یار۔ مگر تب جتنی ماؤں اور بچوں کی ماں کے پیٹ میں دوران پیدائش یا پیدائش کے فوراً بعد یا چند دن کی عمر میں وفات ہوتی تھی۔ اب وہ چیز نہیں ہے۔ اسباب سے منہ نہ موڑیں اور اللہ پر توکل بھی رکھیں۔ یقیناً جس جان نے اس دنیا میں آکر جتنی سانسیں لینی ہیں۔ وہ ضرور لے گا۔ مگر زچہ و بچہ کو اپنی استطاعت کے مطابق ڈیلیوری کے وقت بہترین سہولیات دینے کی پوری کوشش کریں۔ اور یہ کام آپ یعنی خاوندوں نے کرنا ہے۔

الحمدللہ آپکی بھابھی اور بھتیجا بلکل خیریت سے ہیں۔ میری دل سے دعا ہے میرا مالک ان سب جوڑوں کو نیک اور صالح، لمبی عمر والی صحت مند اولاد نصیب کرے جو بھی اولاد کے لیے دعا اور کوشش کر رہے ہیں۔

Check Also

Sher e Mysore Sultan Tipu Shaheed (1)

By Zulfiqar Ahmed Cheema