Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Javed Ayaz Khan
  4. Zindagi Par Maut Aur Maut Par Zindagi Ka Pehra Hai

Zindagi Par Maut Aur Maut Par Zindagi Ka Pehra Hai

زندگی پر موت اور موت پر زندگی کا پہرہ ہے

پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر چلنے والی ایک خبر نے چونکا دیا۔ جس کےمطابق انڈیا میں"دل کے سولہ ہزار کامیاب آپریشن کرنیوالا نوجوان کارڈیولوجسٹ ڈاکٹر گورو گاندھی صرف 41 سال کی عمر ہارٹ اٹیک سے چل بسا۔ جسے طبی امداد کے لیے ہسپتال تک نہ لے جایا جاسکا"۔

خبر کے ساتھ ہی اس نوجوان کی تصویر شئیر کی گئی ہے اور لکھا ہے انکی وجہ شہرت انکی کامیاب ترین ہارٹ سرجری کو قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن لوگوں کو زندگی کی نوید دینے والا اپنی جان نہ بچا سکا۔ گو یہ آج کل کے دور میں ایک معمول کی خبر ہے۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ موت کا جو وقت مقرر ہے اسے کوئی نہیں روک سکتا۔ لوگوں کی جان بچانے والا یہ مسیحا دراصل اللہ کے حکم سے ہی ان کی زندگی بچاتا تھا۔ لیکن حکم خداوندی پر وہ اپنی جان تک بھی نہ بچا سکا۔

اہلخانہ کے مطابق ریاست گجرات جام نگر کے اس ڈاکٹر کا طرز زندگی صحت مندانہ تھا۔ وہ باقاعدگی سے جم بھی جاتا تھا اور باقاعدگی سے کرکٹ بھی کھیلتے تھا۔ مگر رات کو معمول کے مطابق سونے والا یہ ڈاکٹر صبح زندگی کی بازی ہار چکا تھا۔ ڈاکٹر گاندھی کے چاہنے والے اور مریض عجیب گو مگو کی کیفیت سے دوچار نظر آتے ہیں اور حیرت زدہ ہیں کہ لوگوں کے دلوں میں جھانکنے والا ڈاکٹر گاندھی آخر اپنے دل میں کیوں نہ جھانک سکا۔ شاید یہی اسکا مقصد حیات تھا کہ اس نے اپنی چھوٹی سی عملی زندگی کے صرف دس سالوں میں دل کے سولہ ہزار کامیاب آپریشن کرکے ایک نیا ریکارڈ قائم کردیا تھا۔

اپنے لیے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا

"بے شک اللہ بہت بڑا ہے" ہرشے پر قادر ہے۔ کہتے ہیں زندگی سے زیادہ کوئی جی نہیں سکتا اور موت سے پہلے کوئی مر نہیں سکتا۔ اس طرح کے بے شمار واقعات روز ہی ہماری نظروں سے گزرتے ہیں۔ یہ خبر سن کر جہاں بہت دکھ ہوا وہیں چند روز قبل نظر سے گزرنے والا حیران کن واقعہ بھی یاد آ گیا۔

یونان میں ایک عجیب واقعہ رونما ہوا۔ وہاں کے ایک ساحل پر دو بچے ایک بڑی سی گیند سے کھیل رہے تھے۔ کھیل کے دوران گیند تیز ہوا کی وجہ سے اچھل کر ان سے دور ہوگئی۔ تیز ہوا نے اسے سمندر میں گرا دیا۔ جہاں کی بلند لہروں نے اسے اپنی جانب کھینچ کر نگل لیا اور وہ سمندری لہروں میں کہیں غائب ہوگئی۔ ان بچوں نے اسے واپس لینے کی کوشش کی مگر بے سود وہ رفتہ رفتہ ان کی نظروں سے اوجھل ہوگئی تو بچے مایوس ہوکر لوٹ گئے۔

دوسری جانب مقدونیہ سے تعطیلات منانے کیلئے ایفان نامی ایک نوجوان اسی ساحل پر یونان آیا ہوا تھا۔ جہاں یہ بچے کھیل رہے تھے، ہاں سے 120 کلومیٹر دور وہ سمندر کی لہروں سے نبردآزما تھا۔ وہ سمندر میں تیرتے ہوئے کچھ زیادہ ہی آگے ہی نکل گیا تھا۔ وہ ساحل کی طرف آنے کی کوشش کر رہا تھا۔ مگر مخالف تیز ہوا کے جھونکے اسے مزید گہرے سمندر کی طرف لے جا رہے تھے۔ یوں وہ ساحل سے کئی کلومیٹر دور کھلے سمندر میں پہنچ گیا۔ اب اس کا ڈوبنا یقینی ہوگیا تھا۔ وہ لہروں کے آگے بے بس ہو چکا تھا حوصلہ ہار چکا تھا۔ اس کے مضبوط اعصاب اور قویٰ نے جواب دے دیا تو ایفان نے ہار مان کر خود کو بے رحم موجوں کے حوالے کردیا اور موت کا انتظار کرنے لگا۔ مگر جسےاللہ رکھے اسے کون چکھے؟

ڈوبتے کو تنکے کا سہارا، بچوں کے ہاتھ سے چھوٹنے والی وہی گیند ایفان کے سامنے آگئی۔ گویا وہ اسے ہی تلاش کر رہی تھی۔ اس نے گیند کو پکڑا، جس نے اسے تیرنے میں مدد فراہم کی اور وہ آہستہ آہستہ تیرتا ہوا ساحل کی طرف آنے لگا۔ اس دوران امدادی ٹیم بھی اس تک پہنچ گئی۔ یوں ایفان یقینی موت سے بچ گیا۔

زندگی میں کوئی بھی چیز اتفاقاً نہیں ہوتی۔۔ ہر چیز رب کے حکم اور مشیت سے درست اور منصفانہ توازن میں چلتی ہےاور موت کا وقت مقرر ہے۔ وقت مقرر تک موت خود زندگی کی حفاظت کرتی ہےاور جب مقدر ہو تو زندگی دوڑتی ہوئی موت سے لپٹ جاتی ہے۔ کہتے ہیں ایک آدمی کو موت کا خطرہ لاحق ہوگیا وہ موت کے خوف سے تیز تیز بھاگنے لگا اسے آواز آئی 'پگلے موت تیرے پیچھے نہیں تیرے آگے ہے۔ وہ پلٹا اور الٹی سمت دوڑنے لگا پھر آواز آئی "نادان موت تیرے آگے نہیں بلکہ تیرے پیچھے ہے۔ آدمی بولا عجیب بات ہےآگے بھی موت ہے اور پیچھے بھی موت ہے؟ تو آواز آئی "موت تیرے ساتھ ساتھ ہے تیرے اندر ہے رک جا بھاگ کر کہیں نہیں جاسکتا۔ جو علاقہ زندگی کا ہے وہی علاقہ موت کا ہے۔

آدمی نے پوچھااب پھر کیا کروں؟ جواب ملا "صرف انتظار جب زندگی ختم ہوگی تو موت آجائے گی اور زندگی ضرور ختم ہوگی کیونکہ زندگی موت کی امانت ہے اور کسی کی جرات نہیں کہ اس میں خیانت کر سکے۔ زندگی کا ایک نام موت ہے زندگی اپنا عمل ترک کردے تو اسے موت کہتے ہیں۔ یہی زندگی کا انجام واختتام ہوتا ہے"۔

اس آدمی نے پھر سوال کیا "مجھے زندگی کی تمنا ہے لیکن مجھے موت کی شکل دیکھنے کی خواہش بھی ہے تاکہ میں اسے پہچان سکوں" تو آواز آئی "آئینہ دیکھو موت کا چہرہ تیرا اپنا چہرہ ہے" اسی نے میت بننا ہے اسی نے مردہ کہلانا ہے۔ موت سے فرار ممکن نہیں ہے۔ زندگی کا آخری مرحلہ موت ہے زندگی ایک طویل مرض ہے جس کا خاتمہ موت کہلاتا ہے۔ اس سے قطعی ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ تو ہماری زندگی کا لازمی حصہ ہےکیونکہ زندگی دینے والا ہی تو زندگی لینے والا ہے۔ "ہر چیز فانی ہے سواے میرے رب کی ذات کے" بس اسکی تیاری کی فکر ضروری ہے۔

میرے اباجی مرحوم کہا کرتے تھےاس سفر کا سامان اول تو ہونا ہی نہیں چاہیے اگر ہو تو اپنے سامان کو بہت مختصر رکھو یہ خود اٹھانا پڑتا ہے تاکہ زندگی کی گاڑی سے اترنے میں دقت نہ ہو یاد رہے موت زندگی کی ہمسفر ہے۔ ناجانے کب اور کہاں اچک لے جائے۔ ہم خود اس کی جانب سفر کرتے ہیں۔ ہم خود اس کے پاس دوڑتے چلے جاتے ہیں۔ زندگی کی تلاش میں ہم موت کی ایسی بند گلی میں داخل ہو جاتے ہیں۔ جہاں سے واپسی ناممکن ہوتی ہے اور آگے راستہ بند ہوتا ہے۔ گھبرا کر شور مچاتے ہیں لیکن کوئی سننے والا نظر نہیں آتا۔ بالآخر ہمیشہ کے لیے خاموش ہو جاتے ہیں۔

موت کی یہ حقیقت نہ ہو تو شاید زندگی ایک المیہ بن جائے بس بات صرف سمجھنے کی ہے گھبرانے کی نہیں، مقام غور کا ہے خوف کا نہیں ہے۔ زندگی صرف اللہ کے نافذ قوانین پر عمل کے ساتھ ساتھ ایک مقررہ عرصے کا بھی نام ہے۔ اگر صرف عمل کی بات ہوتی تو کوئی حرج نہ تھا۔ اس عمل کے لیے ایک وقت اور عرصہ بھی مقرر ہو چکا ہے۔ مہلت عمل بہت تھوڑی سی ہوتی ہے۔ زندگی اور موت کے مختصر درمیانی عرصے کو میدان عمل کہا جاتا ہے۔ اور میدان عمل کے سارے راستے خالص عبادت الہی اور خدمت خلق سے ہوکر گزرتے ہیں۔ خدا کی خوشنودی اسکی مخلوق سے محبت اور اسکے بناے ہوے قوانین پر عمل پیرا ہونے سے جڑی ہوئی ہے۔ اپنی عبادات کے ساتھ ساتھ اپنے معاملات کی فکر کرتے رہو تو کبھی موت کا خوف نہیں ہوگا۔

یاد رہے دنیا ایک دھوکہ ہے ہماری ہوس زر، لالچ، خود غرضی، کثرت کی خواہش، لوگوں کی حق تلفی، کرپشن، ناجائز منافع خوری، تکبر، جھوٹی شان وشوکت کی خواہش ہمیں زندگی سے محبت کرنے پر مجبور کر تی ہے۔ معاملات میں بے اعتدالی سے زندگی سے محبت بڑھتی ہے۔ جو رفتہ رفتہ موت کےخوف میں بدل جاتی ہے۔ کیونکہ جس کو زندگی سے محبت نہ ہو اسے بھلا موت کا کیا خوف ہو سکتاہے؟ یہی موت کا خوف انسان کا سکون چھین لیتا ہے۔

ہم سب اپنی موت کی خواہش تو ایمان پر کرتے ہیں لیکن ایمان کے بنیادی تقاضے کی مطابق اپنے دنیاوی معاملات کو نظر انداز کر دیتے ہیں یعنی شاید جینا ایمان پر نہیں چاہتے؟ یہ عمل لاشعوری طور پر ہمیں موت سے ڈراتا رہتا ہے۔ زندگی کا پیغام یہی ہے کہ موت کے لیے تیار رہو کیونکہ موت ہی ہماری فانی زندگی کو دائمی حیات کی جانب لے جاتی ہے۔ سامان آخرت کے لیے ایمان کے بعد رضا الہی کا حصول ایک مومن کی سب سے بڑی خواہش سمجھی جاتی ہے جس کے لیے عبادات اور معاملات کا درست ہونا ضروری ہے۔

یہ بات ذہن نشین کر لیں رضاء الہی کا راستہ درست معاملات اور خدمت انسانیت سے ہو کر گزرتا ہے۔ جو دوسروں کے لیے زندہ رہتے ہیں موت ان سے ان کی بلند نگاہی، بلندخیالی، اور بلندہمتی نہیں چھین سکتی۔ وہ لوگ موت کے ساے میں بھی زندگی کے ترانے گاتے نظر آتے ہیں اور مر کر بھی لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ قرآن کریم مین ارشاد ربانی ہے "اے اطمینان والی روح! اپنے رب کی طرف لوٹ چل تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی، پس میرے بندوں میں شامل ہو اور پس میرے بندوں میں شامل ہوجا۔۔ (الفجر 27:30)

یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں
کہ کام آے دنیا میں انساں کے انساں

Check Also

Ikhlaqi Aloodgi

By Khalid Mahmood Faisal