Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Javed Ayaz Khan
  4. Razdari Ka Barhta Zehar

Razdari Ka Barhta Zehar

رازداری کا بڑھتا زہر

یہ ابھی چند دھائی قبل کی باتیں ہیں، مجھے یاد ہے کہ ہمارے گھر روز کسی نہ کسی کے گھر سے کچھ نہ کچھ ضرور آتا تھا کبھی مٹھائی، کبھی چاول، کبھی میٹھے پکوڑے، کبھی کھیس (بولی) ابلے ہوےگندم کے میٹھے دانے، کبھی حلوہ، کبھی دودھ کی کھیر یہ صرف کھانے پینے کی اشیاء نہیں ہوتی تھیں بلکہ ان میں چھپی ہمارے محلے داروں اور دوستوں کے گھروں میں آنے اور ہونے والی خوشخبریاں ہوا کرتی تھیں۔

ہم پوچھتے امی جان یہ میٹھے پکوڑ ے کہاں سے آےہیں تو وہ بتاتیں کہ فلاں محلہ دار کے بچے نے چلنا شروع کیا ہے اس خوشی میں یہ پکوڑے تقسیم کئے ہیں۔ بچہ پیدا ہونے کی مٹھائی۔ ختنہ کے لڈو، پہلی بار بچے کے بال کٹوانے کی کھیر، پہلا دانت نکلنے میٹھے چاول غرض محلے کے ہر گھر میں ہونے والی ہر تازہ خبر اسی بہانے پہنچتی رہتی تھی۔ بچے کے پہلے دن اسکول جانے کی خبر، پھر ہر سال پاس ہونے کی خوشخبری سے منہ میٹھا کرانا، شادی طے کرنے، منگنی، شادی کی تاریخ مقرر ہونے اور پھرہفتہ پہلے سے گیت اور ڈھولکی کا بلاو، مایوں، مہندی اور پھر شادی اور ولیمہ لمحہ لمحہ کی خبر محلے کے گھر گھر ساتھ ساتھ پہنچتی رہتی تھی۔ ایسے ہی کسی حادثے، بیماری اور صحت یابی کی خیرات، ہر دکھ تکلیف سے آگاہی اور دکھ کی کسی بھی گھڑی میں سب کو اطلاع دی جاتی ہر اچھی خبر کی مبارکباد اور ہر بڑی خبر پر افسوس لازم ہوا کرتا تھا۔

مجھے یاد ہے کہ کسی محلے میں کسی کی بھی موت ہو جاتی تو پورے محلے کے ریڈیو، ٹی وی تین دن بند رہتے گھروں میں بچوں تک کو اونچی آواز میں ہنسنے یا بات کرنے سے منع کیا جاتا اور اپنی خوشی کی تقریبات بھی موخر کردی جاتیں۔ یہاں تک کہ کسی گھر میں باہمی لڑائی کی خبریں بھی پوشیدہ نہ رہتیں اور پھر ان کے درمیاں صلح کرانا بھی فرض سمجھا جاتا تھا۔ کسی کو روزگار ملنا یا بے روزگار ہونا سب کے علم میں ہوتا تھا۔

مجھے یاد ہے کہ ہماری امی جان کہتی جاو فلاں گھر میں یہ سامان دے آو! ان کے گھر کے حالات بے روزگاری کی وجہ سے تنگ ہیں۔ ہمسایوں کے گھر کا شاید ہی کوئی راز یا خبر ایسی ہوتی تھی جو پورے محلے کو پتہ نہ چلے۔ یہاں تک کے رشتے ناتے بھی مشورہ کرکے طے کئے جاتے تھے کیونکہ اس وقت تعلقات بھروسے، محبت اور اعتماد کی مضبوط بنیادوں پر استوار ہوتے تھے۔ ہمارے اباجی کہتے تھے کہ رازداری دراصل ایک ایسا خوف ہے جو گھن کی طرح اندر ہی اندر انسان کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔ رازداری سے تنہائی اور اکیلا پن جنم لیتا ہے اور اکیلا پن خوف پیدا کرتا ہے۔ دکھوں کا حل ہمیشہ بتانے سے ہی نکلتا ہے اور خوشی کا ساتھ ایک دوسرے سے بانٹ کر ہی دیا جاسکتا ہے۔ خوشی یا غمی کی کوئی خبر چھپانے اورنہ بتانے کو برا سمجھا جاتا بلکہ نہ بتانے پر شدید گلہ کیا جاتا تھا۔ پھر ناجانے کیا ہو ا؟ اور کیوں یہ کلچر ماضی کا حصہ بنتا چلا گیا؟ رازداری اور خفیہ رکھنے کی جدیدیت وہ زہر ہے جو سب کو الگ الگ نچوڑ رہا ہے۔

آج ہم جس دور میں سانس لے رہے ہیں، وہاں راز داری کو آزادی کی علامت سمجھا جانے لگا ہے۔ "میری زندگی میرا معاملہ " کا فلسفہ اتنا سرایت کر گیا ہے کہ گویا ہر فرد اپنی ایک الگ دنیا میں قید ہو چکا ہے، جہاں نہ کوئی دیکھ سکتا ہے اور نہ سن اور محسوس کرسکتا ہے اور نہ ہی کچھ پوچھنے کی جرات رکھتا ہے۔ کبھی راز داری وقار کی علامت ہوتی تھی۔ ایک شخص دوسروں کی عزت کا پاسبان ہوتا تھا۔ بھید سینے اور دلوں میں محفوظ رکھے جاتے تھے۔

آج رازداری کا مطلب ہے چھپانا، بچانا، دور رہنا اور سب سے بڑھ کر کسی کو جواب دہ نہ ہونا بن چکا ہے۔ ہم نے تعلقات کی بنیاد اعتماد کی بجائے "خفیہ پن" پر رکھ دی ہے۔ ماں باپ کو بچوں کی زندگی کا علم نہیں ہوتا، بھائی بہن ایک دوسرے کی حقیقی کیفیت سے ناواقف، میاں بیوی بھی ایک دوسرے کے موبائل پاسورڈ سے محروم ہوتےہیں۔ سوال کرو تو جواب ملتا ہے کہ "یہ میرا ذاتی معاملہ ہے" مگر یہ "ذاتی معاملہ" کب اجتماعی زہر بن گیا؟ کسی نے نہ جانا اور نہ سوچا؟ تب احساس ہوا جب جب لوگ تنہائی سے مرنے لگے۔ ڈئپریشن کا شکار ہونے لگے۔ گھروں کے بند کمروں سے گلی سڑی لاشیں سامنے آنے لگیں۔

ادکارہ عائشہ خان اور حمیرا اصغر کی المناک موت پر سوشل میڈیا اور میڈیا پر اسقدر لکھا جکا چکا ہے کہ ان واقعات کے کسی بھی پہلو پر مزید لکھنا اب ممکن نہیں رہا ہے۔ یہ اور ان جیسے کتنے ہی لوگ سب رازداری کے زہر کا شکار ہو کر تنہائی کے ہاتھوں زندگی گنوا چکے ہیں۔ عجیب دور ہے کہ ماں بچوں کو کہتی ہے کہ اپنے باپ کو کچھ مت بتاو اور باپ اپنے بچوں کو ماں سے رازداری برتنے کو کہتا ہے اور ان کی دیکھا دیکھی بچے یہ سب آپس میں کرنے لگے ہیں۔

کچھ عرصہ سے یہ آوازیں بھی سنائی دیتی ہیں کہ جائنٹ فیملی سسٹم سے آزادی چاہیے، باپ بھائیوں اور بزرگوں کی روک ٹوک سے آزادی چاہیے معاشرتی اقدرا اور پابندیون سے آزادی چاہیے شاید اب اس آزادی کے نتائج اور ثمرات آنا شروع ہو چکے ہیں جو اس بات کا الارم ہیں کہ احتیاط کا دامن ہاتھ سے مت چھوڑیں۔ ایک دوسرے کی خبر رکھیں ایک دوسرے کا خیال رکھیں۔

جدیدیت نے ہمیں بےشمار سہولتیں تو دی ہیں لیکن دلوں کے فاصلے بڑھا دیے۔ سوشل میڈیا پر ہر کوئی سب کچھ شئیر تو کر رہا ہے مگر حقیقت میں سب کچھ چھپا رہا ہے۔ لوگ اپنے دکھ اوراحساس گناہ، جرم اپنے ذہنی خلفشار اور نیتوں کے کھوٹ کو: رازداری کی باریک چادر میں لپیٹ کر محفوظ سمجھتے ہیں حالانکہ کہ وہ اندر ہی اندر گل سڑ رہے ہوتے ہیں۔ رازداری کا یہ زہر دوطرح سے اثر انداز ہوتا ہے۔ ایک تو فرد اندر ہی اندر تنہائی، ذہنی دباؤ اور خفیہ جرم میں ڈوبتا چلا جاتا ہے اور دوسرا معاشرہ اعتماد کھو بیٹھتا ہے۔ جب کوئی کسی پر بھروسہ نہ کرئے اور ہر شخص دوسرے سے کچھ چھپائے تو معاشرہ باہم بدگمانی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔ کیا وقت نہیں آگیا کہ ہم رازداری اور پردے داری میں فرق کریں؟

راز وہ ہوتا ہے جو کسی کی عزت کو بچائے اور زہر وہ ہے جو دلوں میں دوری شک اور خودغرضی کو بڑھائے۔ ہمیں اپنے تعلقات میں شفافیت، سچائی اور قربت کو دوبارہ جگہ دینی ہوگی۔ یہ سمجھنا ہوگا کی اعتماد بانٹنے سے بنتا ہے چھپانے سے نہیں۔ معاشرہ دن بدن تنہائی کی جانب بڑھ رہا ہے اور تنہائی وہ زہر ہے جو ایک انسان کو ہی نہیں پورے معاشرتی وجود میں سرایت کرتا جا رہا ہے۔ اس عفریت سے نجات حاصل کرنے کے لیے ہمیں اس بارئے میں انفرادی اور اجتماعی بنیادوں پر سوچنا ہوگا۔ ماہریں نفسیات کے مطابق اب تک پوری دنیا میں چھ لاکھ افراد اس موذی مرض کا شکار ہو کر جانیں گنوا چکے ہیں۔ اللہ نے اپنی دو بڑی نعمتوں اور احسان کا ذکر قرآن پاک میں فرمایا ہے کہ اس نے "تمہیں بھوک میں کھانا اور خوف میں امن دیا"۔

آج دنیا جان چکی ہے کہ خوف شاید بھوک سے بھی بڑا عفریت ہے۔ کرونا اوئرس کے دوران دنیا نے خوف کی تباہی دیکھی ہوئی ہے۔ رازداری، تنہائی اور اکیلا پن خوف میں مبتلا کرتے ہیں اور خوف جان لیوا ہوتا ہے۔ میری دعا ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسی ان دیکھی تنہاہی کی وبا سے محفوظ رکھے جو باہمی جدائی اور دوری پیدا کرتی ہے۔ اپنے اردگرد کے لوگوں کا خیال رکھیں۔ رازداری اور تنہائی کے اس جان لیوا زہر کو مزید مت پھیلنے دیں۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنا ہی دراصل مقصد حیات ہے۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan