Qasoor To Hamara Hai?
قصور تو ہمارا ہے؟
کہتے ہیں کہ بچپن کا رومانس بہت خوبصورت ہوتا ہے یہ بہر طور کسی نہ کسی طرح قبر تک کے سفر میں آپ کے ساتھ ساتھ چلتا ہے، میری جنریشن کے بےشمار بچوں کی طرح ٹرین کی سیٹی اور ٹریں کا سفر ہمیشہ میرا بچپن کا رومانس رہا ہے۔ جوانی کے دنوں میں بھی جب ہم دوست اکھٹے ہوتے تو رات کو ضرور ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم کی پرانی بینچ پر جا کر بیٹھتے وہاں کی پرانی کینٹین کی کڑک چائے پیتے اور آتی جاتی ٹرینوں کو دیکھتے رہتے تھے۔
اس ریلوے اسٹیشن سے جڑی بےشمار یادیں اب بھی کبھی کبھار بہت بےچین کر دیتی ہیں۔ گو وہ پرانے دوست تو اب نایاب ہو چکے لیکن ان کی یادیں دل میں بسائے وہاں جانا بڑا اچھا لگتا ہے۔ ان کے بغیر چائے پینے میں اس ذائقہ کو ہر گھونٹ ہر گھونٹ میں تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہوں جو پرانے دوستوں کے ہمراہ محسوس ہوا کرتا تھا۔
پچھلے دنوں اپنے پرانے ریلوے اسٹیشن پر جانے کا اتفاق ہوا۔ تاریخی اور شاہی عمارت کا جاہ وجلال اپنی جگہ کھنڈروں میں بدلتا ہوا پایا۔ لیکن جو پہلی بات حیران کن دکھائی دی وہ ریلوے کی باونڈری وال کا نوکیلے راڈوں سے بنا ہوا لوہے کا جنگلہ تھا۔ جس کی عمر ڈیڑھ سو سال بتائی گئی ہے جبکہ پچھلے ستر سال سے میں خود بھی یہ جنگلہ مختلف ریلوے اسٹیشن پر ذاتی طور پر اسے لگا ہوا دیکھ رہا ہوں۔
انگریزوں نے ناجانے کس لوہے سے یہ بنایا تھا کہ پچھلے ڈیرھ سو سال گزرنے کے باوجود نہ تو اسے زنگ ہی لگا نظر آتا ہے اور نہ ہی ہمارے دیس کے نشی چوروں کو سر توڑ کوشش سے اس لوہے کو کاٹ کر چوری کیا جاسکا ہے گو کسی کسی جگہ سے کوئی بڑی مشکل سے ٹکڑا کاٹ بھی لیا گیا ہے لیکن پھر بھی وہ جنگلہ صیح سلامت موجود ہے۔ اس طویل عرصہ کے دوران موسمی اثرات بھی اس کا کچھ نہ بگاڑ سکے ہیں۔ یہ لوہے کے باونڈری وال جنگلے آج بھی پاکستان بھر کے نوئے فیصد اسٹیشن کی زینت بنے ہوئے ہیں اور جب ان پر نیا پینٹ کر دیں یہ پھر سے نئے ہو جاتے ہیں۔
دوسری حیرت ویٹنگ روم یا آرام گاہ میں موجود اس فرنیچر کو دیکھ کر ہوئی جس کا حوادث زمانہ پچھلے ڈیرھ سو سال میں کچھ بھی نہیں بگاڑ سکی وہ ویسے کے ویسے ہی ہیں۔ یہاں تک کہ ان پر کی گئی پالش بھی مدہم نہیں ہو پائی جبکہ انہیں دیکھ کر یہ احساس ضرور ہوتا ہے کہ ان کو توڑنے اور خراب کرنے کی پوری کوشش کی گئی ہے۔ ان کی لکڑی پر اپنے نام تک کھودنے اور کھرچنے کی کوشش کی جاچکی ہے۔ ناجانے یہ فرنیچر کس لکڑی کا بناتھا اور کن کاریگروں نے بنایا تھا کہ یہ کسی بھی پرانے ریلوے اسٹیشن پر آج بھی ویسا ہی دکھائی دیتا ہے۔
اس طرح کا سامان اور فرنیچر اب کیوں نہیں بن پاتا جو صدیوں چلے اور خراب نہ ہو؟ گو ہماری ریلوئے کی بربادی پورے اسٹیشن پر نظر آتی ہے کوئی واش روم قابل استعمال دکھائی نہیں دیتا کوئی ٹھنڈے پانی کا کولر کام نہیں کرتا کوئی بیٹھنے کا بینچ صحیح سلامت دکھائی نہیں دیتا۔ پلیٹ فارم پر موجود واش روم تو اس قدر بدتر ہیں کہ ان کو باہر کھڑے ہو کر دیکھنے کی بھی دل اجازت نہیں دیتا ہے۔ غرض جس جانب نگاہ ڈالیں اس قومی ورثے کی حالت دیکھ کر دکھ ہوتا ہے۔ آخر اس تباہی کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ قدیم ادارہ اس کے ملازمین یا پھر ہم سب جو انہیں استعمال کرتے ہیں؟ غریبوں کا یہ ذریعہ نقل وحمل توجہ کا طالب ہے۔
اس مرتبہ میرا نواسہ حسن عبداللہ خان رحیم یار خان سے آیا تو بڑا خوش تھا کہنے لگا ابو جی! میں ایسی ٹرین میں آیا ہوں جو ہوائی جہاز سے بھی زیادہ خوبصورت ہے۔ اس نے ٹرین کی بوگی کی تصاویر دکھائیں تو واقعی بہت عمدہ تھیں۔ تصویر دیکھ کر اور اسکی باتیں سن کر حیران تھا کہ یہ واقعی پاکستانی ٹرین کا ڈبہ ہے؟ اس نے بتایا کہ ایل سی ڈی کے ساتھ ساتھ ہیڈ فون کی بھی سہولت میسر ہے۔ میری طرح کے بہت سے لوگ جاننا چاہتے ہوں گے کہ یہ کونسی ٹرین کی بوگی ہو سکتی ہے۔
جی ہاں، یہ اے سی پارلر کی بوگی تھی جو گرین لائن، اسلام آباد ایکپریس، کے علاوہ شالیمار ایکسپریس سمیت کئی ٹرینوں میں بھی لگائی گئی تھی جو آج بھی ان ٹرینوں میں لگی نظر آتی ہیں۔ یہ صاف ستھری اور خوبصورت کوچز برادر ملک چین نے بناکر دی تھیں جو اپنی خوبصورتی کی وجہ سے آنکھوں کو بہت بھاتی تھیں۔ یہ پالر کوچز گرین لائین، ریل کار، اسلام آباد ایکسپریس، موسیٰ پاک ایکسپریس، شالیمار ایکسپریس، میں لگائی گئی تھیں۔ ان کا کرایہ بھی صرف اکانومی سے تین فیصد زیادہ ہے۔ بے شک پاکستانیوں کے لیے چین سے منگوائی گئی یہ بوگیاں کسی نعمت سے کم نہ ہیں۔
مجھے بہت خوشی ہوئی اور میری خواہش تھی کہ ایک مرتبہ اس میں سفر کا لطف اٹھایا جائے۔ جدید ترین ٹیکنالوجی سے آراستہ یہ کوچز چینی فنی مہارت کا منہ بولتا ثبوت سمجھی جاتی ہیں جو سفر کو خوشگوار بنانے کے ساتھ بےشمار جدید اور ضروری سہولیات سے بھی لیس ہیں۔ ان میں موجود ایل سی ڈی، چارگنگ پلگ، جدید ڈسٹ بن اور آرام دہ سیٹیں بچوں اور بڑوں کے لیے بڑی دلچسپی رکھتی ہیں۔ خود بخود کھلنے والے دروازے اور ان پر چمکتی روشنیاں بڑی متاثر کن ہیں۔ واش رومز بھی چھوٹے مگر خوبصورت بنائے گئے ہیں۔ بہر حال چینی نفاست اور ہنرمندی صاف جھلکتی نظر آتی ہے۔
کچھ دن قبل شالیمار ایکسپریس پر سفر کرنے کا اتفاق ہوا تو بڑے شوق سے اسی چینی پارلر کوچ کا انتخاب کیا لیکن یہ دیکھ کر بے حد دکھ ہوا کہ چندماہ میں ہی ان کی حالت زار بدل چکی ہے۔ یہ خوبصورت کوچ ہمارے غیر ذمہ دارانہ استعمال اور مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی باعث خستہ حالی کا شکار ہو چکی ہے۔ کہتے ہیں کہ چارجنگ پلگ تو پہلے دنوں میں ہی لوگوں نے نکال کر توڑ دیئے تھے جو ابھی سلامت تھے وہ کام نہیں کر رہے تھے۔ ایل سی ڈی تقریباََ خراب ہو چکی ہیں۔ سیٹوں کے کور بے حد میلے اور پھٹے ہوئے دکھائی دیے۔ ان کوچز اور واش رومز میں اس قدر پان کی پیکیں تھوکی گئی ہیں کہ کوچ کی اصل رنگت کم اور پان کا رنگ زیادہ نمائیاں نظر آتا ہے۔
پاکستان ریلوے کا موقف ہے کہ اگر آپ بہتر سہولیات چاہتے ہیں تو خود کو بھی بہتر کریں اور اپنے اردگرد لوگوں کی تربہت کریں۔ چین جیسی خوبصورتی اور جدید سہولتیں چاہیں تو ان جیسی عادات بھی اپنائیں۔ یہ کوچز ہماری قومی ملکیت اور اثاثہ ہوتی ہیں ان کی حفاظت بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ لیکن ریلوے حکام کا بھی فرض ہے کہ ان کی باقاعدہ دیکھ بھال اور مرمت کا عمل جاری رکھیں اور ساتھ ساتھ لوگوں میں ان کی ہر ممکن حفاظت کے بارے میں آ گاہی کی فراہمی کو بھی ممکن بنائیں۔
سوال یہ ہے کہ آخر اب یہ کوچز اتنی جلدی خراب کیوں ہو جاتی ہیں جبکہ ڈیرھ سو سال پرانی ریلوے کی اشیاء آج بھی محفوظ اور اپنی اصلی حالت میں موجود کیوں ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ پہلے لوگ انگریز کی سرکاری اشیاء کو نقصان پہنچانے سے ڈرتے تھے اور ان کی دیکھ بھال کرنے والے بھی اپنی ڈیوٹی کا احساس کرتے تھے سزا کا خوف انہیں پلیٹ فارم کے بغیر اسٹیشن پر داخل نہیں ہونے دیتا تھا۔ مگر آج ہم سب بےخوف ہیں کہ ہم آزاد ہوچکے ہیں اور سب کچھ ہماری ملکیت ہے۔ کیا یہ سب قصور مسافروں اور عوام کا ہے؟
جی نہیں، مسافروں اور عوام سے بڑھ کر یہ ذمہ داری ان کی ہے جن کو عوام کے ٹیکس کے پیسے سے یہ بیش بہا قیمتی کوچز خرید کر دی گئی ہیں اور ان کے معیار اور خوبصورتی کو قائم دائم اور برقرار رکھنےکے لیے انہیں اس کام کے لیے مامور اور مقرر کیا گیا ہے۔ بہر حال قصور پھر بھی ہمارا ہی ہے کیو نکہ اس کام پر مامور لوگ بھی تو ہم ہی میں سےہیں اور ہمارا ہی حصہ ہیں۔ پاکستان کی قومی ائیر لائن کی افسوس ناک صورتحال سب کے سامنے ہے کہ آج اس کی نیلامی کے لیے بھی مشکلات پیش آرہی ہیں۔ یہی ائیر لائن کبھی دنیا کی بہترین فضائی سروس ہوا کرتی تھی۔ لیکن ریلوے ایک عوامی سواری ہے جو پاکستان کے بےشمار غریب لوگوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔
اس اہم قومی ادارے پر توجہ دینا دراصل غریب عوام پر توجہ دینے کے مترادف ہے۔ یہ ریل، اسکی سیٹی اور اس کا سفر ہماری جنریشن کا رومانس ہے خدارا! اسکی حفاظت کریں۔