Phoolon Aur Kaliyon Par Tashadud
پھولوں اور کلیوں پر تشدد
گھریلو ملازماوں پر تشدد کی جب بھی کوئی نئی خبر آتی ہے تو دل میں دکھ کی ایک لہر ضرور اُٹھتی ہے۔ مگر اپنی بے حسی اور بےبسی کا احساس شاید اگلے سانحہ کا منتظر ہو کر رہ جاتا ہے۔ روزنامہ جنگ میں پچھلے دنوں چوری کا الزام لگا کر گھریلو ملازمہ پر مبینہ تشدد کی ایک نئی خبر نے ایک مرتبہ پھر مجھے چونکا دیا ہے۔ ماضی جیسا یہ واقعہ بھی چند دنوں میں ماضی کا حصہ بن جاے گا سمجھ نہیں آتی آخر لوگ ہر چیز کا غصہ اپنے کمزور ملازموں پر ہی کیوں نکالتے ہیں؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی معاشرے کا شیرازہ بکھر چکا ہے۔
معاشرہ کئی طبقات میں بٹ چکا ہے۔ امیر اور غریب لوگوں کے درمیان فرق کی ایک واضح لکیر اور تفریق نظر آتی ہے۔ امراء اور متمول گھرانوں کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں جینے کا حق صرف انہیں ہی ہے۔ غرباء اور ناکس و محتاج لوگ جینے کا حق نہیں رکھتے۔ یہ امراء اپنے مال اور طاقت کے نشے میں اتنے دھت ہیں کہ اپنے گھروں میں رکھے ملازمین پر بے جا رعب جھاڑتے ہیں اور ناجائز سختی کرنا تو اپنا حق تصور کرتے ہیں۔
ان ظالموں پر شیطان اس قدر حاوی ہوچکا ہے کہ گھروں میں کام کرنے والے چھوٹے بچوں اور بچیوں پر بھی تشدد کرتے ہیں۔ آئے روز اخبارات کی شہ سرخیوں میں اور سوشل میڈیا کے ذریعے ایسے کئی واقعات شائع اور نشر ہوتے ہیں۔ تشدد کے یہ دلخراش واقعات ہر پاکستانی کے سر کو شرم سے جھکا دیتے ہیں۔ غریب لوگ بے چارے اپنی معاشی مجبوری، بے روزگاری، غربت اور وسائل کی کمی کی بناء پر اپنے چھوٹے بچوں کو زیور تعلیم سے دور رکھنے پر مجبور ہیں اور جگر کے ٹکڑوں کو ان امراء کے گھروں میں ملازم رکھواتے ہیں۔ جبکہ یہ بدبخت اور بدطینت لوگ ان کی مجبوریوں سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ان بچوں کا استحصال کرتے ہیں۔ ان کا خاص نشانہ ہماری ملازم بچیاں ہوتی ہیں۔ یہ وہ پھولوں جیسی نازک کلیاں ہوتی ہیں جو ابھی کھلنے بھی نہیں پاتیں کہ کچل دی جاتی ہیں۔ جن کے تو ابھی گڑیوں اور کھلونوں سے کھیلنے کے دن ہوتے ہیں اور جنہیں ہماری مجبوریاں اور بھوک اس دلدل میں ڈال دیتی ہیں۔ جہاں انہیں گرم استریوں اور راڈوں سے جھلسا دیاجاتا ہے ان کے چہرے مسخ کر دئیے جاتے ہیں۔
ہمارے بچے ہمارے معاشرے کا ایک اہم ترین جزو ہیں وہ چاہے اپنے والدین کے گھر ہوں یا تعلیمی اداروں میں پڑھنے کے لیے یا پھر کسی کے گھر کام کرنے کے لیےہوں دیگر افراد کی طرح ان کا بھی ایک بلند اخلاقی مقام اور معاشرتی درجہ ہوتا ہے۔ ان تمام جگہوں پر بہت سے معاملات اور امور ایسے ہوتے ہیں جن میں ان بچوں کو اخلاقی اور قانونی تحفظ درکار ہوتا ہے۔ ہر ریاست کا قانون اور آئین ان بچوں کو بنیادی انسانی حقوق فراہم کرنے کا پابند ہوتا ہے اور معاشرے کو ان کے حقوق کی پاسداری و حفاظت کے لیے ہدایت دیتا ہے۔
در حقیقت یہ ملازم بچیاں ہماری پوری قوم کی وہ بچیاں ہوتی ہیں جو اپنے ماں باپ کی غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنے پیٹ پالنے کے لیے گھروں میں کام کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ ہمارے ملک میں حکومتی چائلڈ پروٹیکشن اور چائلڈ لیبر کےمتعلق ادارے موجود ہیں مگر ان واقعات کو دیکھ کر ان کی موجودگی کا احساس نہیں ہوتا بے شمار این جی اوز بڑے بڑے فندز خرچ کرکے بھی ان واقعات کی روک تھام ممکن نہیں بنا سکی ہیں۔
ہم صرف انسان ہی نہیں مسلمان بھی ہیں اور ہمارا دین بچوں اور بچیوں کی زندگی کو وہ قانونی، اخلاقی اور معاشرتی حق عطا کرتا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ "وہ شخص ہماری امت میں سے نہیں جو چھوٹے بچوں پر شفقت نہ کرے" جس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی بے شمار آیات قرآن و احادیث بچوں پر شفقت اور ان سے محبت کے احکامات سے بھری پڑی ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ اس قدر بگاڑ کا شکار ہوچکا ہے کہ ہر بڑا اورطاقتور معمولی معمولی کوتاہیوں پر اپنے گھریلو ملازمین خصوصاََ چھوٹی بچیوں پر بہت زیادہ تشدد کرتا ہے۔ انہیں اپنے گھروں میں قید کر دیتے ہیں زنجیروں اور بیڑیوں میں جکر دیتے ہیں ان ظالموں اور جابروں کو خبر نہیں کہ وہ ایسا کرکے اپنے اوپر دوزخ کی آگ واجب کررہے ہیں۔ انہیں معلوم ہی نہیں کہ ایک ایسی طاقت بھی ہے جو ہم پر سب سے بڑھ کر اختیار و طاقت رکھتی ہے اور اس سے ہمارا کوئی بھی عمل مخفی نہیں ہے۔
سب سے دلخراش بات یہ ہے کہ ان بچیوں پر یہ ظلم کرنے والی زیادہ تر وہ خواتین ہوتیں ہیں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور پڑھی لکھی ہوتی ہیں یا کہلاتی ہیں۔ ملازم مجبور ضرور ہوتے ہیں لیکن غلام نہیں ہوتے اگر کوئی غلطی اور کوتاہی سامنے آے تو انہیں ملازمت سے فارغ کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے ذرا سوچیں اگر ان کی جگہ ہمارے اپنے بچے ہوں تو کیا ہو۔
اسلام تو دشمن کے بچوں پر بٍھی تشدد یا زیادتی کی اجازت نہیں دیتا۔ عام طور گھریلو ملازمہ پر چوری کا الزام لگایا جاتا ہے اور ان کے خلاف تشدد کے ساتھ ساتھ مقدمہ بھی درج کرادیا جاتا ہے۔ سنہ 2016 میں جب طیبہ نامی کم سن ملازمہ کے بری طرح زخمی چہرے کی تصاویر پہلی مرتبہ ٹوئٹر پر شیئر کی گئیں تو کافی واویلا ہوا بڑا شور مچا۔ وہ ایک با اثر شخص کے گھر میں کم سن ملازمہ کے طور پر کام کرتی تھی۔
اس کے بعد اب تو ہر چند دن بعد کم سن ملازماوں کے ایسے واقعات پڑھنے اور سننے کو ملتے ہیں جنہیں سن کر اور دیکھ کر دل لرز اُٹھتا ہے۔ اس طرح کے واقعات انسان کو ذہنی مریض بنا دیتے ہیں بی بی سی کے مطابق اب یہ طیبہ اب اسلام آباد کے ایک فلاحی ادارے میں رہتی ہے۔ وہ سکول جاتی ہے اور اپنی نئی زندگی کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی کوشش کر رہی ہے لیکن جو کچھ اس کے ساتھ ہوا اس کے بارے میں بات کرنا اب بھی اس کے لیے آسان نہیں۔
فلاحی ادارے کے نگرانوں میں سے ایک کا کہنا ہے کہ شروع شروع میں جب طیبہ یہاں آئی تو اسے یقین ہی نہیں آیا کہ اب اسے کام نہیں کرنا پڑے گا اور دوبارہ وہ تشدد کے اس کرب سے نہیں گزرے گی رفتہ رفتہ وہ معمول کی زندگی کی طرف لوٹ رہی ہے مگر اس دکھ اور اذیت کو آج بھی محسوس کرتی ہے اور شاید پوری زندگی نہ بھلا سکے گی۔
ہمارا معاشرہ اس قدر بےحس ہوچکا ہے کہ وقتی طور پر کسی بھی واقعہ کی مذمت تو کرتا ہے لیکن آئندہ کے لیے اس کے سد باب کا انتظام نہیں کرتا۔ اس لیے چند ہی روز بعد ایک نیا واقعہ سامنے آجاتا ہے۔ آج سوال یہ ہے کہ کیا یہ تشدد ان معصوم پھولوں اور کلیوں کا ہمیشہ مقدر رہے گا؟ کاش کوئی ایک عبرت ناک سزا اس ظلم کو ہمیشہ کے لیے ختم کر پاے گی؟ کیا ہمارے حکومتی ادارے ایسے واقعات کی روک تھام کر پائیں گے؟
کیا ہمارے ملک میں انسانی حقوق کا راگ الاپنے والے فلاحی ادارے اور این جی او ان واقعات کے مکمل خاتمے کا کوئی حل نکال پائیں گے؟ کیا ہمارا میڈیا ان واقعات کی روک تھام کے لیے کوئی کردار ادا کر سکے گا؟ کیا اس بارے میں مذہبی شعور کی بیداری کے لیے ہماری مسجد اور منبر سےصدا بلند ہو پاے گی؟
وقت کا تقاضا یہ ہے کہ آئیں ہم سب ملکر انفرادی اور اجتماعی طور اس بارے کچھ ایسا کرنے کے بارے میں سوچیں کہ یہ ناسور ہمیشہ کے لیے ہمارے معاشرے سے ختم ہو سکے اور اس طرح کی بچیاں ملازمت اور جبری مشقت کی بجاے تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو سکیں۔