Naat Sara
نعت سرا
ہم میں ہی کچھ کمی تھی کہ بار بار روئے
ورنہ تو وہ بلا لیں جو ایک بار روئے
یہ نعتیہ شعر کئی دفعہ پڑھنے اور سننے کو ملا تو احساس ہوا کہ بعض اوقات کئی شعرشہرت میں اپنے خالق سے بھی آگے نکل جاتے ہیں۔ اس شعر کی مقبولیت کے باوجود شاید کوئی بھی نہ جانتا ہو کہ یہ نعتیہ شعرکس شاعر کی تخلیق ہے؟ شاید یہ المیہ ان تمام شاعروں اور ادیبوں کا ہوتا ہے جو گمنامی کی دنیا میں موجود اپنی محبتوں، عقیدتوں اور فن کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن ان کا تعلق دور افتادہ قصبوں اور گاوں سے ہوتا ہے اس لیے انکی ادبی خدمات دوسرے شعراء کی طرح نمائیاں نہیں ہو پاتیں۔
جی ہاں یہ شعر ایک نوجوان شاعر طاہر چشتی کا ہے جو ایک پسماندہ علاقے ڈیرہ نواب صاحب سے تعلق رکھتے ہیں اورعشق رسول اور فن نعت گوئی جن کے خون میں وارثتی طور پر موجود ہے۔ ان کا پورا نام ڈاکٹر ممتاز حسین طاہر ؔ ہے اور طاہر چشتی کے نام سے شاعری کرتے ہیں۔ ان کے والد گرامی ایک روحانی شخصیت حضرت ت خواجہ حکیم محمد حسین بدر چشتی (علیگ) تھے جن کی بے شمار انسانی، مذہبی اور روحانی خدمات آج بھی تاریخ کا حصہ ہیں وہ بےشمارموضوعات پر تقریبا" ستائیس کتب کے مصنف تھے۔
ڈیرہ نواب صاحب میں خانقاہ چشتیہ کا قیام اور اپنی نادر روزگار لائبریری کو اس کی نذر کرنا ان کا بڑا کارنامہ تھا۔ ان کے بڑے بھائی حضرت خواجہ حکیم افتخار حسین اظہر چشتی جو میرے کلاس فیلو بھی تھے وہ روحانیت، طب، تدریس کے ساتھ ساتھ اردو شاعری اور خصوصی نعتیہ شاعری میں بڑا مقام رکھتے ہیں۔ سلسلہ چشتیہ سے اس خاندان کی دیرینہ وابستگی ان کا طرہ امتیاز رہا ہے۔ طاہر چشتی کا حمد ونعت کا پہلا مجموعہ "نعت سرا " دیکھ بڑی خوشی ہوئی۔
ڈیرہ نواب صاحب جیسے پسماندہ علاقہ سے اس کا شائع ہونا ادبی دنیا کے لیے ایک خوشگوار خبر ہے۔ بقول الحاج بشیر حسین ناظم (تمغہ حسن کارکردگی)"میں سوچ رہا تھا کہ چولستان کی ککر کنڈیالی فضا میں یہ گلکاریاں کرنے والا بندہ کوئی معمولی شخص نہیں۔ جوں جوں کتاب نعت و منقبت"نعت سرا " کی ورق گردانی کی پتہ چلا کہ نسبت چشتیائی اور مودت مولائی سے اس کے دل پر خطیرۃ القدس سے ہمعات نور اور قطرات کوثر و تسنیم کا نزول ہو رہا ہے۔ طاہر چشتی کے یہ حمدیہ اشعار ان پر اس اثر کی ترجمانی کرتے ہیں۔
ثنا کی پہلی زباں لاالہ الاااللہ
محیط۔ کون۔ ومکاں لا الہ اللہ
قیام ہو کہ رکوع و سجود وقرآںہو
نماز ہو کہ۔ آذاں لاالہ اللہ
ہمارے چچا بیاض سونی پتی مرحوم کا شمار ملک کے مایہ نازشعرأ میں شمار ہوتا ہے وہ فرماتے تھے کہ حمد و نعت کہنا صرف فن شاعری نہیں ہوتا بلکہ یہ تو عطا ہوتی ہے جس کی توفیق اور اجازت بھی قسمت والوں کو ہی ملتی ہے۔ اردو ادب میں ہم حمد اس نظم کو کہتے ہیں جس میں رب کائنات کی تعریف بیان کی جاتی ہے اسی طرح نعت رسول پاک ﷺ کی ثنا و توصیف کی ایک ایسی پاکیزہ، نازک اور ارفع شعری شکل ہے۔ جس میں ہر لفظ کو لکھتے ہوے ٔ ادب کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے قلم کو احتیاط کا دامن تھامنا ازحد ضروری ہوتا ہے۔
حمد و مناجات، دعا، التجا، گزارش، دہائی، فریاد معاونت یا استعانت مترادف ہیں جب ان الفاظ کا رشتہ براہ راست خالق کائنات جڑتا ہے تو صرف ان کا احاطہ فکر وسیع و آفاقی ہو جاتا ہے بلکہ عقیدتوں کی پاکیزگی، ادب واحرام کی نازکی اور روحانی لطافت بھی پیدا ہو جاتی ہے۔
روحانی اثرات پر مکمل یقین رکھنے والا جھونپڑی کا مکین ہو یا محل میں رہتا ہو، امیر ہو یا غریب ہو، آقا ہو یا غلام ہو، قلند رہو سکندر ہو، ڈکٹر، عالم، انجینیر یا سائنسدان ہو، ناخواندہ ہو یا بہت پڑھا لکھا ہو، دیہاتی ہو یا شہری ہو جس نے اللہ کو "علی کل شیئی قدیر " تسلیم کرکے اپنی عاجزی انکساری، بےکسی اور مجبوریوں کا اظہار کیا تعریف و ثنا کی اس کی عظمت کا عتراف کیا وہ مناجات اور حمد کی منزل کو پا گیا۔ تعریف خداوندی، اپنی عاجزی اور بےکسی، نجات طلبی، حمدیہ استدلال اور دعائیہ فنی اعتبار سے حمد کے اجزاء ترکیبی سمجھے جاتے ہیں۔ طاہر چشتی کے کلام میں یہ اجزا ترکیبی نمائیاں ہیں۔
اسی کے جلوں کی تابانیاں ہیں چہروں میں
نفس نفس میں عیاں لاالہ اللہ
بن مانگے دیا تو نے مجھے کیا نہیں مولا
اب تجھ سے تجھے میرے خدا مانگ رہا ہوں
جو تیری فاقت میں ملے ایسی بقا دے
جو تیرے لیے ہو وہ فنا مانگ رہا ہوں
مشہور مفکر اور سکالر پروفیسر ڈاکٹر محمد قاسم جلال کہتے ہیں نعتیہ شعری مجموعہ "نعت سرا "میں طاہر چشتی کے آقا نامدار سرور کائنات بنی اکرم محمد مصطفی ﷺ سے محبت وعقیدت کے گہر ئےآبدار جلوہ فشاں نَظر آتے ہیں "جبکہ مشہور سرائیکی شاعر اور نعت گو سفیر لشاری مرحوم فرماتے ہیں کہ " طاہر چشتی کیفیتوں کی شاعری کرتا ہے اسکی اسی کیفیت نے اسے ممتاز بنا دیا ہے "مشہور شاعر تنویر سحر کے مطابق " طاہر چشتی کے نعتیہ اشعار پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے نے دربار رسالت ﷺ کے لیے لفظوں کے گلاب قلم سے نہیں پلکوں سے چنے ہیں کیونکہ انہیں اس بات کا اچھی طرح ادراک ہے کہ یہی تو وہ بارگاہ ہے جہاں جنیدو بایزیدؒ بھی نفس گم کردہ نظر آتے ہیں۔
سرائیکی کے مشہور دانشور اور پہلے ناول نگار ظفر لشاری نے فرمایا کہ " طاہر چشتی نے اپنی نعتوں میں روائتی انداز کو برقرار رکھااور جدید رنگ بھی شامل کئے ہیں۔ جدید وقدیم رنگوں میں خیال آرائی کی مرصع کاری پڑھنے والوں کو یقینا" پسند آے گی " پاکستان کے نامور نعت خوان ملک غلام محمد واصف مرحوم فرماتے ہیں" طاہر چشتی الفاظ کی بندش علم وعرض، قافیہ ردیف کے خسن استعمال اور دیگر اصناف شاعری سے آشنا ہیں اورمہارت کے ساتھ شعر کہتے ہیں۔ ادبی نکتہ نظر کے علاوہ آپ شرعی پاسداری عقیدہ کی پختگی کے ساتھ مخبت رسول ﷺ سے ہر مقام پر سرشار نظر آتے ہیں "
اک عزفۂ توحید میں اک نعت سرامیں
جل جل کے بھڑکنے کی ادا مانگ رہا ہوں
دل میں ہے مدینے کی تڑپ پاوں میں چھالے
آنکھوں میں جھڑی رہتی ہے برسات سے زیادہ
حضرت اقدس محمد مصطفےٰ ﷺ کی مدحت، تعریف و توصیف، شمائل و خصائص کے نظمی اندازِ بیاں کو نعت یا نعت خوانی یا نعت گوئی کہا جاتا ہے۔ عربی زبان میں نعت کے لیے لفظ "مدحِ رسول" استعمال ہوتا ہے۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ میں بہت سے صحابہ کرام نے نعتیں لکھیں اور یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔ نعت لکھنے والے کو نعت گو شاعر جبکہ نعت پڑھنے والے کو نعت خواں یا ثنا خواں کہا جاتا ہے۔ گوکہ یہ کہنا مشکل ہے کہ نعت خوانی کا آغاز کب ہوا تھا لیکن روایات سے پتا چلتا ہے حضرت محمد ﷺ کے چچا حضرت ابوطالب نے پہلے پہل نعت کہی۔
رسول کریم ﷺ کی پیدائش سے پہلے تبان اسعد ابو کلیکرب اور بعد ازاں ورقہ بن نوفل بھی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی شان میں نعت کہی۔ اردو کے مشہور نعت گو شاعر فصیح الدین سہروردی کے مطابق حضرت محمد ﷺ کے چچا حضرت ابوطالب اور اصحاب میں حضرت حسان بن ثابتؓ پہلے نعت گو شاعر اور نعت خواں تھے۔ اسی بنا پر اُنہیں شاعرِ دربارِ رسالت ﷺ بھی کہا جاتا ہے۔
حضور پاک ﷺ کی ثناء خوانی کرنے والے ہر دور میں پیدا ہوئے اور آج بھی ہر شاعر نعت لکھنا اپنے لئے اعزاز خیال کرتا ہے اور یہ بھی سمجھتا ہے کہ حمد و نعت لکھنے کی توفیق ہر ایک کو نہیں ملتی بلکہ یہ رضائے باری تعالیٰ کی ایک نشانی ہے کہ حمد ومناجات اور نعت لکھنے کی توفیق عطاہو۔ بعض شعرا نے اپنے اس فن اور ہنر کے طفیل ابدی شہرت پائی اور نعت کی تاریخ کا حصہ بن گئے۔ طاہر چشتی انہی کی تقلید میں ثنا رسول کی سعادت حاصل کرنے کی سعی کرتے نظر آتے ہیں۔
رسول اکرم سے دل معطر کلی کلی روح کی کھلی ہے
ہوائے کوئے سرور امکاں سے ڈالی ڈالی ہر ی ہری ہے
میں سب سے برا ہوں وہ سبھی ااچھوں سے اچھے
میں بار ندامت وہ کرامات سے زیادہ
میں ذرہ فانی وہ بقاوں کی حقیقت
میں گردتخیل و ہ خیالاست سے زیادہ
کونین کے کشکول میں ہے آپکا صدقہ
کچھ بھی نہیں جزآپکی خیرات سے زیادہ
طاہر چشتی کا یہ نعتیہ مجموعہ کلام "نعت سرا "ان کی ایک بہترین ادبی کاوش ہے۔ یقینا" یہ شعری مجموعہ علمی وادبی حلقے میں عمدہ اور گرانقدر اضافہ ثابت ہوگا۔ مجھے اس نوجوان شاعرسے بڑی امیدیں وابستہ ہیں کہ مستقبل میں اپنے قلم کے جوہر ضرور دکھائے گا۔
آرائش لولاکی۔۔ اذکار نبی طاہر ؔ
سرکار کی نعتوں سے ہر نعت سرا چمکے