Muflisi Sab Bahar Khoti Hai
مفلسی سب بہار کھوتی ہے

اک تونگر نے قناعت پہ کہیں درس دیا
مفلسی چیخ اٹھی جا تیری ادراک پہ خاک
عید قربان سےایک دن قبل ایک باپ نے عید کے لیے نئے کپڑے مانگنے پر اپنے تین بچوں سمیت خودکشی کر لی خبر کے مطابق غربت، افلاس اور بھوک نے اولاد کو باپ کے لیے بوجھ بنادیا۔ خان پور کے علاقے سردار گڑھ میں باپ نے تین بچوں کو زہریلی گولیاں کھلا کر خود کشی کر لی۔ جاں بحق ہونے والے دونوں بیٹے گونگے اور بہرے تھے۔ والد عرصہ سے بےروزگار تھا اور ان گونگے بہرے معصوموں نے عید پر نئے کپڑوں کی فرمائش کی تھی۔ مفلس باپ کی غیرت اور مردانگی شاید یہ فرمائش برداشت نہ کرسکی اور وہ ایسا ہولناک قدم اٹھانے پر مجبور ہوگیا۔ ایک باپ کے لیے اس سے زیادہ اذیت کا لمحہ اور کیا ہو سکتا ہے؟
دوسری خبر بھی انہیں دنوں میں شائع ہوئی تو دل لرز کر رہ گیا کہ بہاولپور محلہ نواباں میں بھوک کی وجہ سےایک بزرگ خاتون دم توڑ گئی جبکہ اس کی دوسری بہن کو بچا لیا گیا۔ یہ دونوں خبریں ماضی کا حصہ بن چکی مگر آج بھی غربت اور مفلسی سے دم توڑتی انسانیت ہماری توجہ چاہتی ہے۔ سوال صرف اتنا ہے کہ کیا عبادات کے ساتھ ساتھ ہمارے دنیاوی معاملات ٹھیک ہیں؟ کیا ہم اپنا اخلاقی اور مذہبی فریضہ ادا کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں؟ مفلسی کا یہ عفریت زندگیاں کیوں نگل رہا ہے؟ کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں؟ محبت کرنے والا باپ عید کے لمحات میں بچوں کا سامنا کرنے سے کیوں ڈرتا ہے؟
یہی وہ مفلسی اور بے بسی ہے جو اولاد سے محبت چھین لیتی ہے اور چہروں کو کرخت بنا دیتی ہے۔ مرد کی انا مجروح کر دیتی ہے۔ کیا ساری قربتیں، محبتیں، شفقتیں اور رونقیں پیسے کے بغیر ممکن ہو سکتیں ہیں؟ کیا دنیا کی رونقیں اور عید کی خوشیاں صرف پیسے کے بل بوتے پر حاصل ہو تی ہیں؟ کیا یہ مفلسی ہماری خوشیوں کے ساتھ ساتھ ہماری مردانگی، حوصلے اور حسن کو بھی کھا جاتی ہے؟ کیا یہ مفلسی ہمارےباہمی رشتوں اور احساسات پر پردہ ڈال دیتی ہے؟
ذرا سوچیں کہ ہم سے اس طرح کے غریب لوگ ایسے موقعوں پر بھی نظر انداز کیسے ہو جاتے ہیں؟ دولت اور پیسے کی ہوس اور بےخبری کا یہ تماشا کب تک لگا رہے گا؟ کب تک لو گ بھوک سے مرتے رہیں گے؟ کب تک باپ اپنے بچوں سمیت خودکشی کرتے رہیں گے؟ کب تک لاکھوں ٹن کھانا ہوٹلوں اور شادی گھروں میں بچ کر ضائع ہوتا رہے گا؟ تلخ حقیقت یہی ہے کہ زندگی میں ہر دکھ اور تکلیف قابل برداشت ہے مگر غربت اور بھوک ایسا بوجھ ہے جو انسان کی خوداری، عزت نفس اور خوابوں کو بے دردی سے روند دیتا ہے۔
مفلسی سب بہار کھوتی ہے
مرد کا اعتبار کھوتی ہے
ہمارے اباجی اکثر یہ شعر پڑھا کرتےتھے اور بتاتے تھے کہ مرد کا وقار ہمیشہ بھری ہوئی جیب سے قائم رہتا ہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ "مفلسی حسن کو کھا جاتی ہے" میں نے ایک دن پوچھا کہ دولت اور پیسے کا انسانی شکل وصورت سے بھلا کیا واسطہ ہے؟ وہ کہتے تھے پیسہ جسم پر ہی نہیں زندگی پر بھی اثر ڈالتا ہے۔ دولت خود اعتمادی بڑھاتی ہے مگر خالی جیب بےاعتمادی کا باعث بنتی ہے۔ لباس خوشبو اسٹائل ظاہری طور پر خوبصورتی کی وجہ بنتے ہیں اور ہمارا معاشرہ اس شخص کو زیادہ پرکشش سمجھتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کی معمولی بات، عام چہرہ اور اوسط درجہ کی شخصیت بھی دلربا نظر آتی ہے۔ ہم دولت کو وقار اور وجاہت سمجھ کر اس کے چہرئے پر بھی خوبصورتی فرض کر لیتے ہیں۔
دراصل یہ حسن کا نہیں ہمارئے گمان کا دھوکہ ہوتا ہے۔ رشتوں کا احترام پیسوں سے بڑھتا اور گھٹتا جاتا ہے۔ زیادہ پیسے والا ہی زیادہ طاقتور ہوتا ہے اور اس کی بات میں ہی زیادہ وزن بھی ہوتا ہے۔ مالدار شخص ہی پورے خاندان کا بڑا سمجھا جاتا ہے۔ غربت کا اثر جیب پر ہی نہیں چہرئے اور رشتوں پر بھی پڑتا ہے۔ غربت اور بےروزگاری سے جنم لینے والی گھریلوں پریشانیاں بڑی خاموشی سے انسان کو اندر سے توڑ دیتی ہیں اور وقت سے پہلے بوڑھا کرکے چہرے پر اثرات مرتب کرتی ہیں۔ دولت خود تو حسن نہیں مگر حسن کے اثرات کو بڑھا دیتی ہے۔
یہ ماننا پڑے گا کہ دنیا وہی دیکھتی ہے جو اسے دکھایا جاتا ہے۔ جبکہ اصل خوبصورتی دل کی آنکھ سے دکھائی دیتی ہے۔ ایک ماں کے لیے اس کا بچہ دنیا کا سب سے خوبصورت بچہ ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کی نظر میں ہی نہیں اس کے رشتے اور تعلق میں بھی وہ بہت حسین ہوتا ہے۔ یہ تب تک ہی ہوتا ہے جب تک کہ بچے بڑے نہیں ہو جاتے پھر ماں باپ کو بھی اکثر وہی بچہ زیادہ اچھا لگتا ہے جو زیادہ کماتا ہےاور فرنبرادار ہوتا ہے۔ نکھٹو کی نسبت کماو پوت زیادہ پیارا ہوتا ہے۔ گو میری بات سے اختلاف تو ہو سکتا ہے لیکن دنیا کی حقیقت واقعی بڑی تلخ ہوتی ہے۔ مالی خوشحالی انسانی خوبصورتی پر اثر انداز ہوتی ہے۔ مالی اطمینان اکثر لوگون کو ذہنی سکون، بہتر خود اعتمادی اور ایک اچھی زندگی کے معیار فراہم کرتا ہے۔ جوان کی ظاہری شکل وصورت کی بھی عکاسی کرتا ہے۔
بہتر نگہداشت کی باعث مالی وسائل سے لوگ اپنی جلد، بالوں اور جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ لباس فیشن کا بھی خیال رکھ سکتے ہیں۔ جبکہ مالی پریشانیاں اکثر چہروں پر تھکاوٹ اور بےچینی کا سبب بنتی ہیں۔ مفلسی کے انسانی صحت، وقار اور رشتوں پر تباہ کن اثرات سامنے آتے ہیں۔ جب وسائل نہ ہوں تو دنیا کا رویہ بدل جاتا ہے۔ آپ کی بات کا وزن کم ہو جاتا ہے۔ بےروزگاری جوانی میں ذلت ورسوائی کا دوسرا نام بن جاتی ہے اور ایک ایسا عیب بن جاتی ہے جو انسان کی تمام خو بیاں چھپا دیتی ہے۔
باپ بڑا نہ بھیا ہے
سب سے برا روپیہ ہے
کہتے ہیں کہ پیسہ جسم پر ہی نہیں ہماری زندگی پر اثر ڈالتا ہے۔ ہمارے ایک دوست کہتے تھے کہ دولت سے حسن خریدا تو نہیں جا سکتا مگر حسن کی حفاظت ضرور کی جاسکتی ہے۔ اس میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ پیسہ اور دولت لوگوں کے انداز میں اعتماد پیدا کرتا ہے اور یہ خود اعتمادی انسان کے چہرے پر "کشش" پیدا کر دیتی ہے۔ کیونکہ خوبصورتی نظر سے پہلے لہجے، حرکات اور انداز میں نظر آتی ہے جس میں پیسے اور دولت کو کمال حاصل ہوتا ہے۔ ہماری امی جان کہتی تھیں کہ پیسہ انسان کے سو عیب چھپا لیتا ہے اور سو رنگ لگا دیتا ہے۔
یہ دنیا ہے یہاں دولت کے بغیر کوئی حال نہیں پوچھتا اور جو مفلس ہو تے ہیں وہ زندہ ہوتے ہوئے بھی گم نام ہو جاتا ہے۔ اس لیے کہتے ہیں کہ مفلسی کا زہر وہ ہے جو سانسوں میں اتر جاتا ہے۔ زندہ رہنے کے لیے کھانا ہو یا دوائی پیسے سے ہی ملتی ہے ورنہ مرض یا بھوک کے ہاتھوں لوگ مر جاتے ہیں۔ یہاں اخلاق، محبت، رشتے سب کی قیمت ہے مگر جس کے پاس قیمت چکانے کو کچھ نہ ہو وہ بے قیمت ہے۔ انسانیت کادرس تو سنائی دیتا ہے لیکن جس کی جیب خالی ہو اس کی کوئی سنتا ہی نہیں۔ یہ دنیا بےرحم ضرور ہے لیکن الفاظ کے ذریعے ہم اس کی بےحسی کو بےنقاب تو کر سکتے ہیں لیکن ظلم یہ ہے کہ الفاظ بھی آج کے دور میں پیسے سے ہی باہر نکلتے ہیں۔
غربت نے میرے بچوں کو تہذیب سکھا دی
سہمے ہوئے رہتے ہیں شرارت نہیں کرتے
میرے ایک قریبی عزیز نے بڑی غربت اور مفلسی کے باوجود ایک دس مرلے کی بمشکل چند کمروں کی چھت ڈال لی اور اس مکان کی تعمیر میں ان کے پورے خاندان نے حصہ لیا۔ دن رات محنت اور مشقت کی مزدوری کے ساتھ ساتھ جسمانی طور پر بھی تعمیر میں اپنا اپنا فرض ادا کیا۔ جب مکان تعمیر ہو چکا تو انہوں نے اس کا ایک حصہ اپنے منجھلے بیٹے کے نام چپکے سے کردیا۔ یہ بات کھلی تو بچوں میں شور مچ گیا لیکن وہ بیان دے چکے تھے۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ آپ نے یہ خصوصی شفقت صرف اس ایک بیٹے کے ساتھ کیوں کی ہے؟ تو ان کا موقف تھا کہ میرئے اس بیٹے نے ساری زندگی کما کر لا کر دیا مجھے اس پر کبھی کچھ خرچ نہیں کرنا پڑا اس لیے میں یہ سمجھتا ہوں کہ مکان کی تعمیر میں اس کی آمدنی زیادہ لگی ہے۔
میں نے ان سے کہا کہ چلو یہ تو بیٹا تھا لیکن آپ کی جن بچیوں نے کبھی کچھ نہیں کمایا اور ہمیشہ آپ سے کسی نہ کسی شکل میں کچھ نہ کچھ لیا ہی ہےلیکن مکان کی تعمیر میں مزدوروں کی طرح کام کیا ہے تو ان کے بارئے میں کیا خیال ہے؟ جس بڑے بیٹے نے دوڑ دھوپ کرکے یہ پلاٹ حاصل کیا تھا اس کی کوشش اور جدوجہد کہاں گئیں؟ تو ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ حقیقت یہ ہی تھی کہ وہ بچہ کماؤ زیادہ تھا۔ اس لیے باپ کو زیادہ پیارا لگتاتھا۔ وہ مکان آج تک متنازعہ ہے والدین دنیا میں نہیں رہے لیکن مکان کی مقدمہ بازی جاری ہے۔
ہمیں محبتوں کا معیار بدلنا ہوگا۔ غریب، مفلس اور کمزور ہماری زیادہ محبت اور ہمدردی کے حق دار اور مستحق ہوتے ہیں۔ ہماری محبت کا معیار ہماری مالی حیثیت سے منسوب کیو ں ہونے لگا ہے؟ لوگ وسائل کے بغیر آپ کی محبت، محنت اور خلوص کو دیکھنا گوارا کیوں نہیں کرتے؟ یہ وہ سوال ہیں جن کے جواب نہیں ملتے۔

