Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Javed Ayaz Khan
  4. Mout Ke Muntazir Lamhat

Mout Ke Muntazir Lamhat

موت کے منتظر لمحات

دریاتے سوات میں سیر کو گئے سیاح دیکھتے ہی دیکھتے دریا کی بے رحم موجوں کی نذر ہو گئے۔ سوشل میڈیا پر اس بدقسمت خاندان کی بےبسی اور مدد کے ڈیڑھ گھنٹہ انتظار کی ویڈیو دیکھ کر دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ ان کی تصاویر اور ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مدد کو پکارتے یہ افراد کیسے ایک ایک کرکے دریا کی تند وتیز موجوں کا شکار ہوتے رہے مگر کوئی ان کی مدد کو نہ پہنچا۔

یہ ڈوبنے والے افراد وہ سیاح تھے جو سوات گھومنے آئے تھے اور سوات سے صرف دو گھنٹے کی مسافت پر بائی پاس کے مقام پر دریا میں جہاں شروع میں پانی کی سطح بہت کم تھی وہیں چارپائیوں پر ناشتہ کرتے ہوئے وہ خوشی اور وارفتگی کے عالم میں تصویریں اور سیلفیں بنا رہے تھے قدرت کے حسین نظاروں کو موبائل فون میں محفوظ کر رہے تھے۔ اچانک بتدریج پانی بڑھنے سے شدید طغیانی کی باعث ڈسکہ کے ایک ہی خاندان کے یہ افراد پانی کے درمیان میں پھنس گئے اور پانی کے بہاؤ کے ساتھ ایک دوسرے کو ڈوبتا دیکھتے دیکھتے خود بھی موجوں کی روانی کا مقابلہ نہ کرسکے۔ ان افراد میں سے تین افراد کو ریسکیو کر لیا گیا ہے باقی کی تلاش جاری ہے۔

ہم اور ہمارئے ریسکیو ادارئے آج ان افراد کو بچا سکتے تھے لیکن ان کی گھنٹوں کی چیخ وپکار اور آہ وبکا بھی کچھ رنگ نہ لا سکی اور یہ ایک ہی خاندان اس تند وتیز طوفانی اور سیلابی ریلے کی نذر ہوگیا۔ دور کھڑے لوگ بےبسی سے یہ سب دیکھتے رہے کیونکہ کہتے ہیں کہ انسان نہیں پکارتے ان کا وقت بولتا اور پکارتا ہے جب دن اور وقت صیح نہ ہو تو انسان لاکھ چیخے چلائے یا پکارئے کوئی نہیں سنتا اور اگر سن بھی لے تو مدد نہیں کر سکتا۔ یہی ان بدنصیبوں کے ساتھ ہوا۔ گویا ان کے لیے تو یہ قیامت صغریٰ کی گھڑی تھی۔ ان کی آواز اور مدد کی پکار سیلابی پانی کے شور میں ڈوب کر رہ گئی۔

اس سے تین سال قبل کوہستاں میں بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا جہاں پانچ نوجوان ایسے ہی مدد کے منتظر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ ایسے مصروف سیاحتی مقامات پر ریسکیو جیسی بنیادی سہولت اور تحفظ کا نہ ہونا ایک سوالیہ نشان ہے۔ کچھ لمحوں کے لیے محسوس کریں ڈیڑھ گھنٹے کا یہ طویل سانحہ اور انکی آخری ہم کلامی، خوف، ایک دوسرئے سے جدا ہونا، ایک دوسرے کو ڈوبتے دیکھنا، اپنے پیاروں اور معصوم بچوں کو ڈوبتے دیکھ کر اپنی باری کا منتظر ہونا اور پھر خود بھی اس میں سما جانا کس قدر اذیت ناک ہوگا؟

سوچ کر روح لرز گئی ہے کہ موت کے منتظر لمحات کیسے کرب ناک ہوتے ہیں؟ یہ میدانی علاقوں کی گرمی کا ستایا ہوا خاندان بےفکری اور سکون کے چند لمحے ڈھونڈنے کس جوش وجذبے سے کیسے کیسے ارمان، خوشیاں اور محبتیں لے کر اس ٹرپ یا تفریخی ٹور پر گیا تھا؟ کیسے اپنی زندگی کی جمع پونجی بچوں کی معصوم خواہشات کے لیے قربان کی تھی؟ کسے خبر تھی کہ اپنے ملک میں سیاحت اور ایڈونچر کا شوق ان کی جان ہی لے لے گا؟ ویڈیو دیکھتا ہوں تو شرمندہ ہوتا ہوں کہ ایک ماں اس ٹیلے پر کھڑی ان کمزور لمحوں میں کتنی بار مری ہوگی جسکی پوری نسل اسکے سامنے ختم ہو رہی ہو؟

ہر مرتبہ آسمان کی جانب کتنی امید سے گھنٹوں کسی معجزے کا انتظار کیا ہوگا؟ شاید انہیں یہ یقین تھا کہ انہیں بچا لیا جائے گا ایک حوصلہ تھا کہ کوئی تو ہوگا جو سنبھال لے گا کوئی تو ہوگا جو سہارا دے گا آخر کوئی تو مدد کو آئے گا؟ اس جدید ٹیکنالوجی کے دور میں کوئی تو دیکھ رہا ہوگا؟ کوئی الارم تو بجے گا؟ انہیں سامنے کنارے پر کھڑے لوگ موبائل سے تصویریں بناتے دکھائی دے رہے تھے اور اپنی کوشش کی امید دلا رہے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ نہیں ڈوبے انسانیت پر سے ان کا اعتماد ڈوب گیا ہے۔ کیا انسانی ترقی بےحسی کا دوسرا نام بن چکی ہے۔

ہر چارہ گر کو چارہ گری سےگریز تھا

ورنہ ہمارئے دکھ تو کوئی لا دوا نہ تھے

کیا ہمارے پاس پوری دنیا کی طرح خبردار کرنے کا کوئی ایسا سسٹم نہیں ہے جو پہلے سے اس بارئے میں سیلابی الرٹ جاری کر سکے اور بےپناہ جانی و مالی نقصان سے بچا جاسکے؟ صوبہ خیبر پختون خواہ میں پہ در پہ کئی حادثات کے باوجود تاخیر اور غفلت کی وجہ سے بروقت امداد نہ ملنا صوبائی اور مقامی انتظامیہ اور ریسکیو کے متعلقہ اداروں کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ضرور ہے۔ یہ واقعہ ناصرف ایک افسوسناک قومی سانحہ ہے بلکہ ہمارئے ریسکیو نظام کی کمزوریوں کو بھی بےنقاب کرتا ہے۔ اس طرح کے واقعات سے بچنے کے لیے ہر سطح پر سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے ورنہ ہماری علاقائی سیاحت کو بڑا نقصان پہنچے گا۔ پوری قوم اس دردناک واقعہ پر سوگوار ہے اور ان شہداء کی مغفرت کے لیے دعاگو ہے۔ یہ حادثہ تھا یا غفلت یا محض ایک اتفاقی پانی کا ریلہ یا پھر قدرتی آفت لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہم سب بحیثیت قوم کہیں نہ کہیں اس کے ذمہ دار ضرور ہیں کیونکہ شاید ہم ایسی صورتحال کے لیے تیار ہی نہ تھے۔

یقیناََ پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس سال کے دوران کئی دلخراش سیاحتی حادثات پیش آچکے ہیں۔ جنہوں نے نہ صرف انسانی جانوں کا نقصان کیا بلکہ سیاحت کے شعبے پر بھی گہرئے اثرات چھوڑے ہیں۔ ناران کاغان میں بس حادثہ اور اٹھارہ افراد کی ہلاکت جن میں زیادہ تر نوجوان سیاح شامل تھے۔ شمالی علاقہ جات گلگت بلتستان کے علاقہ ہنزہ میں برفانی تودہ گرنے سے چار غیر ملکی ٹیم کے ٹریننگ کرنے والے کوہ پیما وں کی ہلاکت، بلوچستان کی چمکنے والی جھیل میں پانچ افراد کا کشتی الٹنے سے جان کی بازی ہار جانا۔ سوات میں جیپ ریلی کے دوران جیپ کے بے قابو ہو کر تماشائیوں پر چڑھ جانے دو افراد کا جاں بحق ہونا۔ ان کے علاوہ سیاحوں کو سفر کے دوران روڈ پر پیش آنے والے حادثات بھی شامل ہیں۔

گلگت بلتستان میں گجرات کے چار دوست اپنی گاڑی سمیت لاپتہ ہوے جن کی لاشیں اور گاڑی تقریباََ دس دن کی تلاش کے بعد جگلوٹ سکردو روڈ پر ایک گہری کھائی سے ملی۔ کالام اتروڑ شاہی باغ میں کشتی رانی کرتے ہوئے کشی کا انجن فیل ہونے سے دس افراد ڈوب گئے جن میں سے پانچ کو بچا لیا گیا کسی نے بھی لائف جیکٹ نہیں پہنی ہوئی تھی۔ اگر ہم ان سب پر غور کریں تو ہمیں بنیادی حفاظتی اقدامات کا فقدان دکھائی دیتا ہے۔ حفاظتی بیلٹ، لائف جیکٹ، فرسٹ ایڈ یا ٹریکنگ گائیڈز کی عدم دستیابی دکھائی دیتی ہے۔

ناقص ٹرانسپورٹ اور ڈرائیور وں کی غفلت اور پہاڑی سفر کا تجربہ اور راستوں سے واقفیت نہ ہونا اور اس مرتبہ غیر موسمی اور موسمیاتی خطرات کو نظر انداز کرنا یعنی برفباری، لینڈ سلائیڈنگ یا تودوں کے گرنے کے خطرات سے عدم اگاہی بھی ایک وجہ ہے۔ مقامی انتطامیہ کی ان علاقوں نگرانی میں کمی اور اکثر سیاحتی علاقوں میں فعال حفاظتی نظام کا نہ ہونا بھی ایک وجہ ہے۔ لیکن سیاح حضرات کی غیر ذمہ داری یعنی بغیر تیاری یا رہنمائی کے خطرناک جگہوں پر جانا اور روکنے اور منع کرنے کے باوجود دریا کے پانیوں میں اترنا بھی اس کا باعث بنا ہے۔

ہمیں سیاحت کے فروغ اور انسانی جانوں کے تحفظ کے لیے ممکنہ فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ جس کے لیے حکومتی سطح پر سیاحتی مقامات پر مخصوص حفاظتی معیار کو لازمی قرار دیا جائے۔ لائسنس یافتہ ٹور اوپریٹرز کی حوصلہ افزائی کی جائے اور صرف رجسٹرڈ ٹور کمپنیوں کو گروپ ٹور کی اجازت دیجائے۔ ریسکیو سروسز کا ہر بڑے سیاحتی مرکز پر قیام اور توسیع کرکے متعلقہ اداروں کی مستقل ٹیموں کی تعیناتی ہونی چاہیے۔ سیاحون کی تربیت اور آگاہی کی جائے۔ جدید ٹیکنالوجی کے زریعے ایمرجنسی کال ایپس اور موسم کی فوری معلومات کے لیے موبائل ایپلیکیشنز متعارف کرائی جائیں۔ شمالی علاقہ جات میں ایمرجنسی کی صورت میں ہیلی کاپٹر کی سہولت کا اجرا ٔ کیا جائے۔

ماحولیاتی عوامل کا تجزیہ کرکے ہر سال حساس مقامات پر خطرات کی نشاندہی کی جائے۔ یقیناََ سیاحت ایک خوبصورت تجربہ ہے لیکن غیر منصوبہ بندی اور لاپرواہی اسے خطرناک بنا کر سانحوں اور حادثوں میں بدل دیتی ہے۔ حکومت نجی ادارے اور مقامی افراد اور خود سیاح سب کو اپنی اپنی ذمہ داری نبھانے کی ضرورت ہے تاکہ تفریح کے ان قیمتی لمحات اور سفر کو محفوظ، یادگار اور خوشگوار بنایا جاسکے اور ایسے تلخ ناخوشگوار اور دلخراش واقعات سے بچا جاسکے۔ آئیں دکھ کی اس گھڑی عہد کریں کہ ملک عزیز میں پھر سے ایسا کبھی نہیں ہونے دیں گے۔ ہمیں جاگنا ہے یہ اجتماعی موت کا سانحہ ایک ایسا سبق ہے جو برسوں ذہنوں پر نقش رہے گا۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan