Main Pesha e Sahafat Mein Kyun Rahoon?
میں پیشہ صحافت میں کیوں رہوں؟

آج یوم آزادی کے موقع پر صبح صبح فیس بک پر میرے بہت ہی بزرگ اور نہایت قابل احترام صحافی و کالم نگار روزنامہ پاکستان لاہور چوہدری خادم حسین کی جانب سے پوری پاکستانی قوم کے لیے ایک درد بھر ا پیغام پڑھا اور ان کا سوال تھا کہ "میں پیشہ ور صحافت میں کیوں رہوں؟ چوہدری خادم حسین ہمارے ملک کے چند بزرگ صحافیوں میں سے ایک ایسے صحافی جو پچھلی کئی دھائیوں سے صحافت اور کالم نگاری کے میدان میں اپنی مخصوص طرز تحریر اور سوچ کی وجہ سے پسند کئے جاتے ہیں۔ میں روزانہ ان کا کالم پڑھتا ہوں اور ان کی سیاسی اور صحافتی بصیرت کا معترف ہوں۔
آج صبح کا پیغام پڑھ کر دل بہت دکھا اور میں سوچ رہا تھا کہ جب ایک سفید بالوں والے بزرگ صحافی کے ساتھ یہ سب کچھ ہو سکتا ہے تو پھر ہمارے جیسی عام عوام کا کیا بنے گا؟ معاشرے میں تشدد اور عدم برداشت کی یہ غیر معمولی صورتحال دن بدن بڑھتی کیوں جارہی ہے؟ یاد رہے کہ وہ صرف بہت بڑے صحافی ہی نہیں بلکہ ایک بزرگ پاکستانی شہری بھی ہیں اور ایک درد دل رکھنے والے ایسے انسان بھی ہیں جو دوسروں کا درد اپنی تحریروں میں ہر روز سمیٹتے ہیں۔
چوہدری خادم حسین کو میں روزنامہ "مساوات " کے زمانے سے جانتا ہوں اور ان کی طویل صحافتی خدمات کو ہمیشہ سراہا ہے۔ ان کا آج بھی ہر روز نیا کالم ملک کی سیاسی، سماجی اور معاشرتی مسائل کی نشاندہی کر رہا ہے۔ پہلے ایک نظر ان کے پیغام پر ڈالتے ہیں اور ان کے درد اور تکلیف کو محسوس کرتے ہیں۔
"تیرہ اگست کو شام سات بجے کے قریب کریم بلاک چوک میں ایک صاحب کو غلط پارکنگ کے باعث راستہ مانگنے کے لئے میرے بیٹے نے دو تین بار ہارن بجایا اس پر موصوف اپنی گاڑی سے انتہائی طیش سے اترے اور میرے بیٹے کو مارنا شروع کر دیا میں نے بچانے کی کوشش کی تو مجھے بھی سبق دیا بیٹے کو لہولہان کرکے بھاگ گیا اس کے بعد 15 اور پولیس نے جو رویہ اپنایا وہ میری ساری ساٹھ سال کی صحافت پر پانی پھیر گیا میں ان احباب کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے بےلوث تعاون اور کوشش کی اور ان کا بھی مشکور ہوں جن دوستوں مہربانوں نے فون تک نہ سنا میرا سوال ہے کہ اب میرے لئے صحافت کے پیشے سے وابستہ رہنا کیوں ممکن ہے؟ آج کالم نہ لکھ سکوں گا کہ ممکن نہیں سارا بدن دکھ رہا اور روح مجروح ہے۔ والسلام "۔
چوہدری صاحب نے آج واقعی کالم نہیں لکھا اور اس بلاوجہ تازہ واقعے کے بعد شاید وہ لکھ بھی نہیں سکتےتھے۔ میں چوہدری صاحب کے ان تکلیف کے لمحات میں ان سےدلی ہمدردی اور یکجہاتی کا اظہار کرتےہوےملک کے ارباب اختیار سے ملزمان کی فوری گرفتاری کی درخواست کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان کو صحت و سلامتی عطا فرمائے اور انہیں ہر قسم کے دکھ اور آزمائش سے نجات دے۔ روزمرہ زندگی میں عدم برداشت کی اس لہر کا سامنا آج پوری قوم سڑکوں اور گلی محلوں میں کر رہی ہے اور یہی وہ لمحہ فکریہ ہے جسے مزید اجاگر کرنے کے لیے آپ جیسے بزرگ اور حساس لوگوں کو مزید لکھنا ہے۔
چوہدری صاحب آپ رکیں نہیں ضرور لکھتے رہیں اور اس وقت تک لکھیں جب تک عدم برداشت کے کلچر کا خاتمہ جڑ سے نہیں ہو جاتا۔ آپ ہماری لیے حوصلے اور امید کا چراغ ہیں اور یہ چراغ جلتے رہنا چاہیے کیونکہ اسی چراغ کی روشنی سے ہی اس طرح کے سیاہ اندھیرے دور ہو سکتے ہیں۔ آپ اکیلے نہیں ہیں پوری قوم آپ سے محبت کرتی ہے اور آپ کی سوچ سے والہانہ عقیدت رکھتی ہے۔ عدم بردا شت کے اس کلچر کے خاتمے تک آپ کی جد وجہد جاری رہنی چاہیے۔
گذشتہ رات لاہور کریم بلاک قریب نامور صحافی اور سینئر کالم نگار چوہدری خادم حسین کے ساتھ پیش آنے والے اس افسوس ناک واقعہ کی باعث صحافت کے شعبے اور اہل قلم کے لیے گہری تشویش اور دکھ پایا جاتا ہے۔ بطور صحافی دوست اور بزرگ میں اس واقعے پر دلی رنج اور ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں۔ چوہدرہ خادم حسین نصف صدی سے زائد عرسے سے شعبہ صحافت اور پرنٹ میڈیا سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے خبر سے کالم تک اور ادریے سے تجزیے تک ہمیشہ سچائی اصول پسندی اور عوامی مفاد کو ترجیح دی۔ ان کے کالم ملکی سیاست، عوامی مسائل اور قومی یکجہاتی کے پیغام سے بھرپور ہوتے ہیں۔ وہ ایک کہنہ مشق دانشور اور استاد کی حیثیت سے کئی نئے صحافیوں کے لیے مشعل راہ بنے اور اپنے قلم کے ذریعے شرافت، اخلاق اور جرات اظہار کی روشن مثال قائم کی۔ ان کی یہ خدمات اور کردار ہمیشہ صحافتی اثاثہ اور سرمایہ ہے اور صحافتی برادری کے لیے ایک مشعل راہ بھی ہے۔
قلم نگاری اور تجزیہ نگاری کی دنیا میں انہیں بےشک منفرد مقام حاصل ہے۔ میں اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہوں کہ وہ چوہدری خادم حسین کو مضبوط سھت، قوت اور تحفظ عطا فرمائے اور ان سے درخواست کروں گا کہ وہ ہمیشہ پیشہ صحافت سے جڑے رہیں کیونکہ صحافی اور کالم نگار معاشرے کی وہ آنکھ ہوتے ہیں اور جو کچھ بھی وہ دیکھتے ہیں جو اور کسی کو نظر نہیں آتا۔ اللہ تعالیٰ ہماری یہ سچ کی آنکھیں سلامت رکھے کیونکہ ان کے بغیر سچ دکھائی نہیں دے سکتا۔ چوہدری صاحب! آپ پیشہ صحافت میں ضرور رہیں گے کیونکہ آپ کے بغیر یہ سب ادھورا ہے۔
ہم سب آپکی تحریروں اور تجزیوں کے ہمیشہ منتظر ہیں۔ گو آخری اطلاعات تک ملزم گرفت میں آچکے ہیں اور جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں لیکن ہمیں پھر بھی اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ آئندہ ایسی کوئی حرکت کسی بھی فرد کے خلاف نہ ہو سکے اور خاص طور ایسے بزرگ صحافی کو بےحد قابل احترام ہوتے ہیں۔ میری پوری قوم سے درخواست ہے سفید بالوں کا حترام کریں یہ بال دھوپ سے نہیں بلکہ ساٹھ سال کی طویل صحافت اور سوچوں سے سفید ہوئے ہیں۔ بزرگ سب کے سانجھے ہوتے ہیں ان کی عزت واحترام بھی سانجھا ہونا چاہیے۔

