Hamare Manfi Rawaiye
ہمارے منفی رویے
یہ اسی عید الضحی ٰکے دوران کا واقعہ ہے جو علاقہ "چھوٹا مانا والا " پر پیش آیا جہاں پر ایک غیر ملکی مشروب ساز فیکڑی کی بوتلوں سےلدے ہوے ٹرک کا ایکسیڈنٹ ہوا اور ڈرائیور گاڑی چھوڑ کر بھاگ گیا۔ جونہی ہماری عوام کی نظر ان بوتلوں پر پڑی تو ساری عوام سڑک پر پڑی ان بوتلوں پر ٹوٹ پڑی اور صرف پانچ منٹ میں اٹھا کر اپنے گھروں کو لیکر فرار ہوگئی۔
کہتے ہیں کہ گاڑی کا ڈرائیور گرفتاری کے خوف سے بھاگ گیا تو مرد خواتین بچوں اور بڑوں نے بلا تفریق لوٹ مار شروع کردی اور مال غنیمت سمجھ کر ٹوٹ پڑے اس لوٹ مار کی وڈیو سوشل میڈیا پر سامنے آئی تو لوٹ مار کا یہ منظر دیکھ کر حیرانی یہ نہیں ہوئی کہ ایسا کیوں ہوا؟ بلکہ حیرانی یہ ہوئی کہ لوگ کس قدر بے حس ہو چکے ہیں؟
میں سوچ رہا تھا کہ یہ چند بوتلیں مفت کا مال سمجھ کر گھروں کو لے جانے والے بھی ہمارے مسلمان بھائی ہی تھے۔ جو اس لوٹ مار میں بھی سبقت لے جانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ دکھ اس بات کا بھی ہےکہ یہ اس دوران ہوا جب پوری دنیا اور پاکستان کے مسلمان سنت ابراہیمی کی پیروی کرتے ہوۓ قربانی و ایثار کے عظیم مشن کو پورا کرنے میں مصروف تھے۔ یہ سب کچھ اتنی تیزی سے ہوا کہ قانون بےبس ہوکر رہ گیا۔ اس دوران انہیں یہ بھی احساس نہیں تھا کہ موبائل میں موجود کیمرے کی بےشما ر آنکھیں یہ سب دیکھ رہی ہے اور محفوظ بھی کر رہی ہیں۔ ان وڈیوز کے ذریعے شناخت ممکن بھی ہو سکتی ہے۔ سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ تو دیکھ رہا ہے جو ہماری نیتوں کے حال بھی سب سے بہتر جانتا ہے۔
یہ مسلمان جن کا دین اسلام عام حالات میں بھی سڑک پر پڑی ہوئی کسی کی چیز کو ہاتھ لگانے سے بھی منع کرتا ہے اور ایک جانب ہم نے فلسطین کی ہمدردی اور اسرائیل کے خلاف ان مشروبات کے بائیکاٹ کا نعرہ بھی لگایا ہوا ہے۔ جبکہ ہمارا سوشل میڈیا، چیخ چیخ کر ان کے بائیکاٹ کی اپیلیں بھی کررہا ہے۔ اس کے باوجود اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ آج بحیثیت قوم ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہماری سوچ کیا ہے۔
بحیثیت قوم ایسا ہر عمل نہایت ہی افسوسناک اور قابل مذمت ہوتا ہے۔ ایک تو ایکسیڈنٹ ہوا تو اس کے بعد اس ٹرک کے مالک کی مدد اور ہمدردی کرنے کی بجاے لوگوں کی لوٹ مار میرے لیے بطور مسلمان حیرن کن بات ضرور ہے۔ سمجھ نہیں آتا ہم یہ کس جانب بڑھ رہے ہیں؟ کیا ہم ایک قوم کی بجاے ایک بےہنگم ہجوم بنتے جارہے ہیں؟
مجھے ایک قول یاد آگیا کہ کسی نے ایک مفلوک الحال بھکاری سے پوچھا۔ بھائی ہندو ہو عیسائی ہو یا مسلمان؟ تو وہ بولا جناب میں تو صرف بھوکا ہوں۔ غربت اور بےروزگاری کا عفریت اپنی جگہ ایک حقیقت ضرور ہے۔ لیکن یہ دراصل غربت یا بھوک نہیں ایک عادت بنتی جا رہی ہے۔ یہاں تک کہ ہم پھل یا ڈرائی فروٹ خریدنے جاتے ہیں تو چکھنے کے بہانے ریڑی سے چند چیزین اٹھا کر کھانا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ہماری بے حسی تو یہاں تک بڑھ چکی ہے کہ بڑ ے بڑے ایکسیڈنٹ میں بھی مرنے والوں اور زخمیوں تک کو لوٹ لیا جاتاہے۔ کیا ہم میں سے خدا خوفی کے ساتھ ساتھ قانونی سزا کا ڈر بھی نکل چکا ہے؟
اکثر اوقات تو ایکسیڈنٹ سے متاثرہ خواتین کے زیور تک اتار لیے جاتے ہیں۔ مجھے سعودی عرب میں حج کے دوران کے کئی واقعات یاد ہیں کہ وہاں سڑک پر یا فرش پر ریال اور قیمتی اشیاء پڑے ہوتے تھے مگر کوئی انہیں ہاتھ لگانے کی جرات ہی نہ کرتا تھا۔ فرش پر پڑی تسبیح اور کھانے پینے کی اشیاء تک تک اٹھانے سے گریز کیا جاتا ہے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ قانون کا احترام کہیں دیکھنے کو نہیں ملتا بلکہ ایسی لوٹ مار کو بہادری اور فنکاری سمجھا جاتا ہے۔ امید ہے کہ ایسے واقعات کی حوصلہ شکنی کے لیے ان لوگوں کو شناخت کے بعد قانونی کاروائی ضرور ہوگی۔
سڑک پر پڑی ہوئی چیز اٹھانا ہمارا قومی المیہ بنتا چلا جارہا ہے۔ پیڑول ٹینکرز کے الٹنے اور پٹرولیم مصنوعات کے بکھرنے کے بھی کئی واقعات ہوچکے ہیں۔ چند سال قبل ایسے ہی ایک واقعہ "سانحہ احمدپور شرقیہ"میں ہوا جس سے سینکڑوں انسانی جانیں جھلس کر ضائع ہو چکی ہیں۔ وہاں بھی پیڑول کا ایک بدنصیب ٹینکر ایکسیڈینٹ کے بعد الٹ گیا تھا اور پیڑول بہنے لگا تھا۔ بہتا ہوا پیڑول دیکھ کر لوگ ٹوٹ پڑے اور ڈرائیور کے روکنے کے باوجود لوگوں نے اپنے برتنوں میں تیل بھرنا شروع کردیا ان کی دیکھا دیکھی موٹر سایکل سواروں یہاں تک کہ کارسواروں نے بھی اس لوٹ کے مال سے ہاتھ رنگنا شروع کردئے اور پھر وہ تاریخی دھماکہ ہو ا جو شاید ہماری قومی تاریخ کا تباہ کن سانحہ بن چکا ہے۔ جس میں سیکڑوں لوگ جھلس کر مر گئے۔
آج بھی جاۓ وقوعہ کے نزدیک ہی ان کا ایک بڑا علیحدہ قبرستان ان شہداء کی یاد دلاتا رہتا ہے۔ جس کی باعث بےشمار لوگ معذور ہو کر اپنی زندگی کی خوشیوں سے محروم ہو گئے ہیں۔ وہ دھماکے سے پھٹا آئل ٹینکرایک ڈھانچے کی صورت آج بھی نشان عبرت بن کر وہیں پڑا ہے۔ لیکن ہمارا ایک المیہ بہ بھی ہے کہ ہم ایسے واقعات بہت جلد ہی بھول جاتے ہیں۔ اور اپنی سابقہ سنگین غلطیوں سے بھی سبق حاصل نہیں کرتے۔
یہ معمول کی بات بن چکی ہے کہ اگر کسی ایکسیڈنٹ کی باعث کوئی ٹرک یا ٹرالہ الٹ جاے ٔ اور اس میں سے کچھ سڑک پر بکھر جاۓ تو لوگ ٹوٹ پڑتے ہیں۔ بات اب یہاں تک آپہنچی ہے کہ گنے کی ٹرالی بھی الٹ جاے تو گنے اٹھا لیے جاتے ہیں یہی نہیں گنے کی گزرتی ٹرالیوں کے پیچھے گنے کھنچنے کے لیے بچے ہی نہیں بڑے بھی دوڑتے دکھائی دیتے ہیں اور بعض اوقات زخمی ہو جاتے ہیں بلکہ کئی جانیں بھی ضائع ہو چکی ہیں۔ کیا یہ صرف ایک معمولی گنے کے حصول کی جدوجہد ہے؟ یا پھریہ ہماری عادت بن گئی ہے؟
مجھے اکثر بہاولپور سے رحیم یارخان سفر کرنا پڑتا تھا۔ راستے میں کئی مرتبہ کیلے، کینو، تربوز، ٹماٹر، خربوزے اور آم کے ٹرک الٹ جاتے ہیں یقین کریں میں نے بڑی بڑی گاڑیوں سے اتر کر بہت سے لوگوں کو وہ اٹھا کر لے جاتے دیکھا ہے۔ سڑک پر یا کسی بھی جگہ پڑی لاوارث چیز اٹھانا چوری کے زمرے میں آتا ہے۔ کسی کی بلااجازت کوئی چیز صرف اس لیے اٹھا لینا کہ وہ ایکسیڈنٹ کی وجہ سے سڑک پر لاوارث بکھری ہوئی ہے۔ یہ مذہبی اخلاقی اور معاشرتی بددیانتی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
ہمیں اس سلسلے میں قومی تربیت کی اشد ضرورت ہے۔ جس کے لیے صرف حکومت ہی نہیں بلکہ ہمیں خود انفرادی اور اجتماعی طور پر مثبت کردار ادا کرنا ہوگا ساتھ ساتھ ہمارے مذہبی، سماجی۔ صحافی، حضرات کو اس بارے میں شعور اجاگر کرنے کی ایک مہم چلانا ہوگی۔ ہمارا پرنٹ، الیکٹرک، اور سوشل میڈیا بھی اس بارے میں رہنمائی اور معاونت کر سکتا ہے۔ لوگوں کویہ احسا س دلانا ہے کہ سڑک پر پڑی شے کسی نہ کسی کی امانت ہوتی ہے اور امانت میں خیانت گناہ عظیم ہوتا ہے۔ آپ کے بھائی کا جان ومال آپ پر حرام ہے۔ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ہم اپنے تھوڑے سے دنیاوی فائدے کے لیے اپنی آخرت کیوں خراب کریں؟ ذرا سوچیں کیونکہ یہ سوچ کاہی وقت ہے۔