Bebasi Ka Qehqaha
بےبسی کا قہقہہ
ہم اکثر اپنے استاد لفٹیننٹ (ر) شاہ محمد مرحوم سے مختلف سوال کرتے رہتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ سوال کیا کرو کیونکہ سوال کرنے سے انسان کو علم ملتا بھی ہے اور بڑھتا بھی ہے۔ سوال کرنے سے ذہن کے بند دروازے کھلتے ہیں۔ وہ ہمیں زور سے قہقہہ لگانے سے منع کیا کرتے تھے اور بے ہنگم قہقہے کو تو وہ آداب کے خلاف سمجھتے تھے۔ کہتے تھے حدیث مبارک ہے کہ زیادہ ہنسنے اور قہقہہ لگانے سے دل مردہ ہو جاتا ہے۔
ایک روز ہم نے پوچھا کہ آپ ہمیں قہقہہ لگانے سے کیوں منع کرتے ہیں؟ جبکہ یہ تو بظاہر خوشی کا اظہار سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے فرمایا! کیا تمہیں پتہ ہے کہ قہقہہ کیا ہوتا ہے؟ ہم نے جواب دیا کہ سر! شاید زیادہ اونچی آواز میں خوشی سے ہنسنے کو قہقہہ کہتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا بظاہر تو آپ کی بات درست ہے اور ایسا ہی کہا اور سمجھا جاتا ہے لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔ گو قہقہہ کے لفظی معنیٰ کھلکھلا کر ہنسنا، ٹھٹا مارنا کے ہی ہوتے ہیں لیکن مضحکہ اڑنا، تمسخر کرنا یا احمق بنانا بھی تو قہقہہ ہی کہلاتا ہے۔ قہقہہ لگانے اور قہقہہ اڑانے میں بھی فرق ہوتا ہے۔
قہقہہ لگانا تو بےمقصد فعل ہے لیکن قہقہہ اڑنا دراصل افسوس ناک عمل ہوتا ہے کیونکہ یہ کسی کا مذاق بنانے کے لیے لگایا جاتا ہے۔ پھر کہنے لگے قہقہہ تو دراصل اپنے اندر کے دکھ کو کم کرنے یا بھولنے کی کوشش کا نام ہوتا ہے کبھی کبھی شرمندگی اور ندامت چھپانے کے لیے قہقہہ لگانا پڑتا ہے۔ جیت اور فتح پر قہقہہ ہو یا پھر شکست یا ہار پر قہقہہ آخر میں آنکھیں ضرور بھیگ جاتی ہیں۔ جسے کبھی خوشی کے آنسو تو کبھی دکھ کا بہتا پانی یا نمی کہا جاتا ہے۔
قہقہہ لگا کر ہم شاید دوسروں کو یہ پیغام دئے رہے ہوتے ہیں کہ ہم بہت خوش ہیں۔ جبکہ قہقہہ دراصل آپکے اس دکھ کی ترجمانی کر رہا ہوتا ہے جسے کم کرنے کی آپ کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ آپکی خوشی تو آپ کی مسکراہٹ سے ہی جھلکنے لگتی ہے۔ چہرے کےتاثرات ہی آپکی اندرونی خوشی کا اظہار کر دینے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ اس کے لیے قہقہہ لگانے کی نوبت نہیں آتی۔
آنکھ بھیگی اور اچھالا قہقہہ
ہوگیا غم کا اجالا قہقہہ
ہمیں پہلی دفعہ قہقہہ کی ان بےشمار اقسام کا پتہ چلا جب انہوں نے بتایا کہ قہقہہ لگانے کے بعد آنکھیں کیوں بھیگ جاتی ہیں؟ قہقہہ لگانے سے دل مردہ کیوں ہو جاتا ہے۔ ہم نے پوچھا سر! سب سے زیادہ خوشی والا اور سب سے زیادہ دکھ بھرا قہقہہ کون سا ہوتا ہے؟ تو کہنے لگے خوشی سے لگنے والا قہقہہ اور خوشی بہت عارضی ہوتی ہے یہ ہر روز لگتے رہتے ہیں اور بات بات پر لگتے ہیں۔ لیکن ایک قہقہہ ایسا بھی ہوتا ہے جو شاید زندگی میں ایک دفعہ ہی لگتا ہے۔ لیکن جس کا دکھ قہقہہ لگانے والے کے ساتھ ساتھ سننے والے کو بھی پوری زندگی محسوس ہوتا رہتا ہے۔ اس قہقہے کا اثر صرف ہمارے جسم پر ہی نہیں ہماری روح پر بھی ہوتا ہے۔
ہم نے پوچھا سر! وہ کون سا قہقہہ ہے؟ فرمایا وہ قہقہہ بے بسی کا قہقہہ ہوتا ہے۔ تب بےبسی کا قہقہہ ہماری سمجھ میں نہیں آیا تو پوچھا سر! یہ بےبسی کا دکھ تو سنتے ہیں مگر قہقہہ پہلی دفعہ سنا ہے۔ کہنے لگے پہلے بےبسی کو سمجھ لو پھر اس کے قہقہہ کو سمجھنا۔ بےبسی انسانی زندگی کا سب سے دردناک پہلو ہوتا ہے بعض اوقات تو بےبسی نصف موت ہوتی ہے۔ جس کا سامنا زندگی میں کرنا پڑے تو انسان خود کو ایک زندہ لاش کی طرح بہت کمزور محسوس کرتا ہے۔ بسا اوقات یہ بےبسی انسان کو بےحس اور بےغیرت تک بنا دیتی ہے۔
انسانی غیرت کے تقاضے، کسی کا لحاظ، کوئی مجبوری، کسی کا جبر انسان کو خاموش کر دے اور برداشت کرنے پر مجبور کر دے تو انسان کے اندر کی گھٹن ہی اسے اتنا کمزور کر دیتی ہے کہ پھر وہ اپنے لیے لڑنا اپنے حق کو حاصل کرنا اور اپنی ہر خوشی کو حاصل کرنے کی چاہ اور خواہش بھی کھو دیتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں وقت بڑا مرہم ہوتا ہے لیکن مجھے لگتا ہے ایسے زخموں کو کبھی کبھی وقت بھی مرہم نہیں لگاپاتا۔ یہ زخم کوئی دروازہ تو نہیں ہے کہ اسے مقفل کر لیا جائے یہ تو ہمیشہ آغوش کشا رہتا ہے۔
اس کا احساس تو زخم مزید کریدتا ہے، تکلیف بڑھاتا ہے، بے بسی کی سولی پر ٹانگتا ہے اور اف تک نہیں کہنے دیتا۔ یہاں تک کہ انسان اس کا عادی ہو جاتا ہے اور اس عادی ہونے کو صبر کے مرہم کا نام دے دیا جاتا ہے۔ جبکہ یہ بےبسی اور محرومی کی بلند ترین سطح ہوتی ہے۔ بے اختیاری، ناچاری، ناتوانگی، بےچارگی، بے دست و پائی، لاچاری، عاجزی، مجبوری، ضعف اور ناتوانی کی حالت میں خود پر بس نہ چلنا اور چاہ کر بھی کچھ نہ کر سکنا بےبسی ہوتی ہے۔
نہ چاہتے ہوئے بھی کسی ایسی بات یا چیز کو برداشت کرنا جو ناقابل برداشت ہو۔ اپنی اس بےبسی، مایوسی اور بے چارگی کو چھپانے کے لیے جو قہقہہ نکلتا ہے وہ سب سے درد ناک ہوتا ہے۔ جب آپ ہنستے ہوئے رو رہے ہوتے ہیں۔ آپکی بظاہر خوشی کے پیچھے فکر اور پریشانی جھلکتی ہے۔ آپکی ذات اور سوچ دھندلا جاتی ہے اور آپکی زندگی مشکل ہوتی جارہی ہے اور چہرے کی چمک ماندپڑنے لگتی ہے۔
قہقہہ کس نے لگایا میرے حال زار پر
کس کو زیر دام میری بےبسی اچھی لگی
درد بخشا، غم دیا، آنسو عنایت کر دیے
میرے محسن یہ تری دریا دلی اچھی لگی
شرمندگی اور ندامت کے قہقہے تو ٹی وی ٹاک شوز پر سیاستدانوں کی جانب سے اکثر دیکھنے اور سننے کو ملتے رہتے ہیں۔ لیکن بےبسی کا قہقہہ کبھی نظر نہ آیا تھا۔ میرے ایک دوست جو بچپن سے ہمیشہ ساتھ رہے نہایت غربت اور تنگدستی میں زندگی کا آغاز کیا اور پوری زندگی کی طویل جدوجہد اور محنت سے وہ عزت اور مقام حاصل کیا جس کی تمنا اور خواہش وہ کرتے تھے۔ عزت، دولت، عہدہ، اختیار، بیوی، بچے، دوست احباب اور انکی محبتیں سب کچھ ہی پا لیا۔ جب عروج کی بےانتہا منزلوں تک پہنچے اور ان کی ہر حسرت اور خواہش پوری ہو چکی تو اچانک یہ انکشاف ہوا کہ انہیں تو جگر کا کینسر ہے اور وہ بھی آخری اسٹیج پر ہے۔
کوئی علاج، کوئی تدبیر، کوئی تعویز، کوئی جادو ٹونا اور دعائیں کام نہ آئیں اور دن بدن حالت بگڑتی چلی گئی۔ پھر آخری دفعہ مجھ سے ملنے آئے تو وہ جانتے تھے کہ اب چند دن کے مہمان ہیں۔ تنہائی میں مجھ سے لپٹ کر بہت افسردگی سے رونے لگے کہ یار کاش میرے ساتھ تو ایسا نہ ہوتا ابھی تو زندگی کا مزا آنے لگا تھا۔ ابھی تو زندگی بھر کی محنت کا ثمر ملنے وقت آیا تھا۔
میں نے انہیں ٹھیک ہو جانے کی جھوٹی تسلی دینے کی کوشش کی تو کہنے لگے کہ چھوڑو یار! اب تو ایسا جھوٹ نہ بولو آو! زندگی کے بخشے ان قیمتی باقی لمحات میں مرنے سے قبل کچھ دل کی باتیں کریں پھر ہم بچپن، لڑکپن، جوانی کے خوبصورت، دلچسپ اور تلخ واقعات دہراتے رہے اور وہ اپنی ماضی کی بےوقوفیوں، حماقتوں اور شرارتوں پر خوب زور زور سے ہنستا رہا یہاں تک کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جھلکنے لگے میں ان کی اس کیفیت کو سمجھ رہا تھا۔ انہوں نے روتے روتے اپنا مخصوص قہقہہ لگایا اور کہنے لگے یار! کبھی یاد آوں تو میرے لیے دعا ضرور کر دینا۔ انشاء اللہ قیامت کے بعد ضرور ملیں گے۔
پھر خوب زور سے ہنستے ہوئے کہنے لگے کہ میں تمہارا ایک سو روپے کا مقروض ہوں اور یہ قرض اس لیے واپس نہیں کیا کہ اس کے بہانے حشر میں تم سے ملاقات ضرور ہوگی میں نے کہا یار! میں نے سب کچھ معاف کر دیا ہے تو کہنے لگا نہیں یہ رقم وہاں جاکر ہی معاف کرنا۔ اس دن مجھے سمجھ آیا کہ بےبسی، بےچارگی اور مایوسی کا قہقہہ کیوں اور کیسے لگایا جاتا ہے؟ وقت رخصت مجھے اور انہیں یہ پتہ تھا کہ ہماری یہ آخری ملاقات ہے۔ لیکن ہنستے اور قہقہہ لگاتے ہوئے اور ایک دوسرئے کو تسلیاں دیتے ہوئے جب رخصت ہوئے تو پیچھے مڑ کر دیکھنے کی نہ تو مجھ میں ہمت تھی اور نہ ہی وہ حوصلہ رکھتے تھے۔
مجھے اندازہ ہے کہ واپس جاکر وہ خوب روئے ہونگے کیونکہ گاڑی میں بیٹھ کر میرے آنسو بڑی دیر تک بہتے رہے تھے اور میں گاڑی کے بیک شیشے سے انہیں سر پکڑے گھر جاتا دیکھ رہا تھا لیکن وہ پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنے کی ہمت نہ کر سکا تھا۔ گو وہ اس دنیا میں نہ رہے مگر اب بھی مجھے ان کا آخری قہقہہ یاد آتا ہے تو آنکھیں بھر آتی ہیں اور سوچتا ہوں کہ واقعی بےبسی اور مایوسی کا قہقہہ سب سے زیادہ دردناک ہوتا ہے۔ جو انسان کے اندر ایسا نقش چھوڑ جاتا ہے جو کبھی نہیں مٹتا اور نہ ہی کبھی یہ فراموش کیا جا سکتا ہے۔