Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Javed Ayaz Khan
  4. Be Zuban Ki Dharen Aur Ansoo

Be Zuban Ki Dharen Aur Ansoo

بے زبان کی دھاڑیں اور آنسو

گذشتہ روز سے پرنٹ اور سوشل میڈیا پر ایک طوفان سا برپا ہے۔ بےزبان اونٹنی کے آنسو اور اسکی دھاڑیں کسی بھی آدمی کے لیے قابل برادشت نہیں ہیں۔ دکھ اور تکلیف کی ایک لہر ہر جانب پھیل چکی ہے۔ واقعہ کے مطابق سانگھڑ میں ایک سنگ دل وڈیرے نے اپنے کھیت یا باغ میں بلا اجازت داخل ہونے پر معصوم اور بےزبان زندہ اونٹی کی ٹانگ کلہاڑی یا تیز دھار آلہ سے کاٹ دی تھی۔ یہ دردناک اور وحشت ناک منظر سوشل میڈیا پر دیکھ کر گھروں کی خواتین اور بچے بھی رو پڑے۔

وزیر اطللاعات سندھ کے مطابق ملزمان اور اونٹ مالک میں معاملات طے ہوچکے تھے لیکن انسانی طور پر یہ ناقابل قبول ہے اس لیے ریاست نے اپنی مدعیت میں مقدمہ درج کر لیا ہے۔ جبکہ گورنر سندھ نے اونٹ کے متاثرہ مالک کو ایک کی بجاے دو اونٹ دینے کا اعلان فرمایا ہےکیونکہ اونٹ اسکی روزی کا ذریعہ تھا۔ سوشل میڈیا پر اس واقعہ سے پھیلنے والی بےچینی اپنی جگہ موجود ہے۔ میں نے خود کسی بےزبان کو پہلی مرتبہ یوں دھاڑیں مار کر روتے اور بےتحاشا آنسو بہاتے ہوے دیکھا ہے۔

اس واقعہ پر لوگوں کا احتجاج اور مذمت بڑھتی جارہی ہے۔ گو ملزمان اپنی صفائیاں پیش کر رہے ہیں لیکن واقعہ کچھ بھی ہو یہ فعل کسی بھی حالت میں جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ نہ تو اس اونٹ کی کٹی ٹانگ ہی واپس آسکتی ہے اور نہ ہی اس ظلم سے بہنے والے اونٹ کے آنسوں اور آہوں بھری آسمان کو چھوتی دھاڑیں فراموش کی جاسکتی ہیں۔ پاکستان میں بےزبان جانوروں پر ظلم اور تشدد کی یہ داستانیں کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے پالتو جانور ہی اکثر ایسے تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔ یہ واقعات ہماری بےرحمی اور بےحسی کی بھی نشاندہی کرتے ہیں۔ بحیثیت ایک انسان اور خصوصی طور مسلمان ہونے کے ناتے اس سلسلے میں ہماری ذمہ داریاں اور بھی بڑھ جاتی ہیں۔

بھلا سوچیے! کہ اس طرح کے واقعات سے پوری دنیا میں ہمارے اور ہماری قوم کے بارے میں کیا تاثر جاتا ہے۔ امید ہےکہ اس دھاڑتے بلبلاتے اور آنسوں سے روتے ہوئے بے زبان جانور سے ضرور انصاف ہوگا۔ کاش کوئی ایسا ادارہ فعال ہوتا جو ان بےزبان جانوروں کی نمائندگی اور مدد کر سکتا؟ حیرت ہے کہ ایک جانب تو ایک ہندو ہے امبانی جس نے جانوروں کے تحفظ کے لیے دنیا کا سب سے بڑا مصنوعی جنگل آباد کردیا ہے اور ان کے علاج کے لیے دنیا کا سب سے بڑا ہسپتال قائم کردیا ہے۔ ان کو اچھا کھانا دینے کے لیے دنیا کا بڑا کچن بنا دیا ہے اور دوسری جانب ملک عزیز کے یہ مسلمان اور جنت کے حقدار کہلانے والے لوگ صرف اس لیے اونٹ کی ٹانگ کاٹ دیتے ہیں کہ وہ بےزبان ان کے کھیت یا باغ میں گھس گیا ہے۔ جبکہ اللہ اور اسکے رسول ﷺ پوری انسانیت کو رحم اور محبت کا سبق دیتے ہیں۔ ہمارے نبی پاک تو "رحمت الالعالمین" یعنی سب جہانوں کے لیے رحمت کا سایہ ہیں۔ امید ہے کہ اس واقعہ کے مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جائے گی تاکہ آئندہ ایسے ظالمانہ واقعات پھر جنم نہ لے سکیں۔

آج صحرا اداس ہے یارو
ریت پر ایک نقش پا کم ہے

مجھے ساٹھ کی دہائی کا ایک واقعہ یاد آگیا ہے یقیناََ آج میرے علاوہ بھی اس کے عینی شاہد موجود ہونگے۔ ریاست بہاولپورکے جنرل جےایچ مارڈن اور انکی اہلیہ مسز مارڈن اپنی گاڑی پر کہیں جارہے تھے میرے والد لفٹیننٹ (ر) محمد ایازخان جو ان کے پرسنل سیکریٹری ہوا کرتے تھے ہمراہ تھے۔ اس زمانے میں سواری کے لیے تانگہ گھوڑا استعمال ہوتا تھا جبکہ باربرداری کے لیے اونٹ، بیل اور گدھا گاڑی کا رواج تھا۔

چوک عباسیہ کے قریب ایک تانگے کے پاس سے گزرتے ہوئے۔ ان کی نظر ایک گھوڑے تانگے پر پڑی جو بہت سی سواریوں سے بھرا ہوا تھا اور اس میں جتا ہوا گھوڑا لنگڑا تا ہوا بامشکل چل رہا تھا اور کوچوان چابک مار مار کر اسے چلنے پر مجبور کر رہا تھا۔ وہ بہت جذباتی ہوگیئں کیونکہ مسز مارڈن جو انسانوں اور جانوروں سے بے پناہ محبت کرنے والی مشہور خاتون تھیں فوراََ رک گیں اور اس گھوڑے تانگے کو روک لیا۔ دیکھا تو وہ گھوڑا زخمی تھا اور اس کے زخموں سے خون بہہ رہا تھا۔ اسے فوری طور پر تانگے سے کھول کر طبی امداد کے لیے مویشی ہسپتال بھجوا دیا گیا۔

جنرل مارڈن نے والد صاحب کی زیر نگرانی "انسداد بے رحمی حیوانات "کو فعال کرنے کا فیصلہ کیا۔ اباجی نے سردار اللہ دتہ خان کہرانی مرحوم کو اس کام کا انچارج مقرر کیا اور واحد بخش غوری مرحوم اور کئی اور دوسرے نوجوان ان کے ساتھ معاونت کے لیے کرتے تھے۔ یہ باوردی لوگ "انسداد بے رحمی حیوانات " کے تحت جانوروں کو تشدد اور ان پر ضرورت سے زیادہ وزن ڈالنے کی نگرانی کرتے تھے۔ اس ادارے کا باقاعدہ قوانین مرتب تھے بلکہ اصول وضوابط بھی طے تھے۔

مجھے یاد ہے کہ یہ ادارہ تانگے پر چار سے زیادہ سواریاں بیٹھانے کی اجازت نہیں دیتا تھا اور باربرداری کے لیے بھی مخصوص وزن مقرر تھا۔ چابک یا چھڑی کا استعمال منع ہوتا تھا۔ جانوروں کو طبی طور فٹ ہونے کے بعد ہی تانگے یا باربرداری کے لیے استعمال کیا جاسکتا تھا، زخمی، لاغر، کمزور اور بوڑھے جانوروں کو سڑک پر آنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ خلاف ورزی پر چالان اور جرمانے کئے جاتے تھے۔ جانوروں کی فلاح ابہبود کے لیے شہر میں چار پانچ سایہ دار اسٹینڈ بناے گئے تھے جہاں چارے، خوراک کی سہولت کے ساتھ ساتھ پینے کا تازہ اور ٹھنڈا پانی دستیاب ہوتا تھا۔

مجھے یاد ہے کہ ایک تانگہ اڈا ریلوے اسٹیشن پر، دوسرا تحصیل بازار کے باہر، تیسرا محمود پارک کے پاس، چوتھا ڈیرہ نواب صاحب میں ہوا کرتا تھا۔ ایک غالباََ کچہری روڈ پر بس اڈے پر بنایا گیا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ جب تک جنرل مارڈن زندہ رہے یہ کام جاری رہا۔ بعض پالتو جانور تو انسانوں سے محبت کرنے کی وجہ سے بہت مشہور ہیں۔ پالتو جانور کو تکلیف دینا اسکے ساتھ ساتھ اسکے مالک کو بھی تکلیف دینے کے مترادف ہے۔

پالتوجانور ہوں یا پھر جنگلی حیات یہ زمیں کا لازمی حصہ ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے ساتھ جانوروں، پرندوں، آبی مخلوق اور حشرات الارض کو بھی بنایا ہے تکہ دنیا میں تنوع قائم رہے۔ جنگلی حیات جنگلات اور دنیا کا بڑا حسن ہوتے ہیں انکی بقا افزائش نسل کے ساتھ ساتھ ان کی معدوم ہوتی نسلوں کو بچانا ہم سب کا فرض ہے۔ پاکستان میں جنگلی حیات کے ساتھ بھی شکار کے نام پر بڑا ظلم روا رکھا گیا ہے۔ یہاں تک کہ اب انکی نسلیں تک نایاب ہو چکی ہیں۔ ہم اپنے ہاتھوں سے اپنی دنیا کو ویرانی کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ ان کی بقا سے ہی انسانی زندگی کی بقا وابستہ ہے۔ جنگلی حیات کی کم ہوتی تعدا د ایک لمحہ فکریہ ہے۔ ان کی حفاظت اور بقا قومی مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ ماحولیات کی بہتری کے لیے صرف درخت ہی نہیں یہ جنگلی حیات بھی بہت ضروری ہے۔

اہل تشیع کے سب سے بڑے مجتہد قبلہ آغائے سید علی سیستانی نے فتویٰ جاری کیا ہے کہ موجودہ دور میں شکار کرنا جائز نہیں ہے، جواز یہ دیا ہے کہ چونکہ اب انسانوں کو خوراک کی قلت کا مسئلہ درپیش نہیں ہے اور خوراک وافر مقدار میں موجود ہے، اور شکار یا پروٹین کے متبادل ذرائع موجود ہے اس لئے اب شکار جائز نہیں ہے، ساتھ بعض پرند اور چرند کی دنیا سے ناپید ہونے کا جواز بھی پیش کیا ہے، انھوں نے شکار کے جدید اور ظالمانہ طریقوں پہ بھی اعتراض کیاہے۔ جو قابل غور ہے۔

بلاوجہ اور بلاضرورت جنگلی حیات کے شکار کو روکنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ جس کے لیے حکومتی اقدامات کے ساتھ ساتھ لوگوں میں ان کے تھفظ کا احساس اور اس کی اہمیت کو ہر سطح پر اجاگر کرنا بھی ہماری ذمہداری ہے۔ جنگلی حیات ہو یا پھر پالتو جانور یہ ہمارے پاس اللہ کی نعمت اور امانت ہوتے ہیں۔ ان پر ظلم بھی دراصل پوری انسانیت پر ظلم شمار ہوتا ہے۔

Check Also

Adab

By Idrees Azad