Muharram, Maryam Aur Maa
محرم، مریم اور ماں

ایک چھوٹے سے شہر میں ایک ماں رہتی تھی۔۔ پچاس سال کی، سفید چادر اوڑھے، زبان پر حسینؓ کا ذکر اور دل میں صرف ایک التجا "یا حسینؓ۔۔ میرے شہر میں امن رکھنا"۔
وہ ہر سال محرم آتے ہی محلے کی گلیوں میں نکل جاتی، مجالس کے لیے پانی رکھتی، نیاز پکاتی اور چھوٹے بچوں کو سمجھاتی کہ "یہ مہینہ لڑنے کا نہیں، شہید ہونے والوں کو یاد کرنے کا ہے"۔
پھر ایک دن میں نے اس ماں سے پوچھا "آپ ہر سال یہ سب کچھ خود کیوں کرتی ہیں؟ یہ کام تو حکومت کا ہے۔ وہ مسکرائی، ماتھے پر ہاتھ رکھا اور بولی: "بیٹا، حکومتیں صرف حکم دیتی ہیں۔۔ ماں جیسے لوگ عمل کرتے ہیں"۔
لیکن اس بار کچھ مختلف ہوا۔ اس بار محرم میں پنجاب کی حکومت کسی ماں کی طرح جاگتی رہی۔
جی ہاں، وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف محرم میں صرف دفتر میں بیٹھ کر احکامات نہیں دیتی رہیں بلکہ خود میدان میں نظر آئیں اور میں یہ بات ذمہ داری سے کہتا ہوں، مریم نے انتظامیہ کو صرف احکامات نہیں دیئے بلکہ ان کی طرح جاگنے پر مجبور بھی کیا۔
مریم نواز اس بار صرف ایک حکمران نہیں تھیں، وہ ایک ماں کی طرح فکر مند بھی تھیں اور ایک منتظم کی طرح متحرک بھی۔ محرم شروع ہونے سے کئی دن پہلے انہوں نے اپنے دفتر کے دروازے بند کیے اور فیلڈ کے دروازے کھول دیئے۔ لاہور، ملتان، گوجرانوالہ، راولپنڈی یا ڈی جی خان غرض کہ صوبے کے ہر شہر کے ڈی سی، ڈی آئی جی، سی سی پی او، واسا، ریسکیو اور امن کمیٹیاں مسلسل ان کے رابطے میں تھیں۔
میں نے پہلی بار دیکھا کہ محرم کا جلوس نکلنے سے پہلے سیوریج کے ڈھکن بند کیے جا رہے تھے، پانی کی نکاسی ہو رہی تھی اور پولیس والے صرف بندوقیں نہیں تھامے کھڑے تھے بلکہ وہ عزاداروں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر جلوس کے ساتھ تھے۔
یہ سب کیسے ممکن ہوا؟ کیونکہ پنجاب میں ایک خاتون وزیراعلیٰ آئی ہیں اور وہ محض تخت پر بیٹھنے نہیں، میدان میں اترنے آئی ہیں۔
ایک دن میں نے لاہور کے ایک اعلیٰ افسر سے پوچھا: "اس بار محرم میں انتظامات بہتر کیوں ہیں؟"
وہ ہنسا اور بولا: "سر۔۔ کیونکہ اس بار وزیراعلیٰ خود روزانہ رات 12 بجے تک تمام رپورٹس چیک کرتی ہیں، فون کرتی ہیں، سوال پوچھتی ہیں اور اگلے دن کی ہدایات دیتی ہیں"۔
مجھے اس افسر کی بات سن کر وہ ماں یاد آ گئی، جو اپنے بچوں کے سکول بیگ خود چیک کرتی ہے اور ناشتہ خود بنا کر دیتی ہے۔
مریم نواز نے امن کمیٹیوں کو فعال کیا، مختلف مکاتب فکر کو ایک ہی سوچ کے ساتھ بٹھایا، سوشل میڈیا پر کڑی نظر رکھی، نفرت انگیز تقریر کرنے والوں پر سختی کی اور سب سے بڑھ کر عوام کو یہ احساس دیا کہ حکومت ان کے ساتھ کھڑی ہے۔
مجالس، جلوس، سبیلیں، ہر مقام پر پولیس کے ساتھ خواتین اہلکار بھی تعینات تھیں۔ ایمرجنسی میں ڈاکٹر الرٹ، اسپتالوں میں بیڈز مختص اور ریسکیو 1122 کو خاص ہدایت ملی کہ کسی کال کو نظر انداز نہ کیا جائے۔
پنجاب میں اس بار محرم کا پہلا عشرہ مثالی رہا۔ نہ کوئی بڑا سانحہ، نہ بدانتظامی، نہ احتجاج۔۔ یہ معجزہ نہیں تھا، یہ انتظامیہ کی محنت اور قیادت کے وژن کا نتیجہ تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کافی ہے؟
نہیں۔۔ اب اصل امتحان یہ ہے کہ یہ سلسلہ مستقل ہو۔ ہر سال، ہر ماہ، ہر دن حکومت ایسے ہی لوگوں کی طرح کام کرے جو صرف حکمرانی کے لیے نہیں، خدمت کے لیے آئے ہوں اور ہاں۔۔ مریم نواز نے یہ امتحان بھی پاس کر لیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ آگے کہاں تک جاتی ہیں۔
لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ پنجاب کی سڑکوں پر جب عشرہ محرم کی شام پنجاب کی سڑکوں پر ڈھل رہی تھی تو ایک سفید لباس میں ملبوس ماں نے آسمان کی طرف بلند کرکے ضرور کہاہوگا: "یا حسینؓ۔۔ اس بار ہمیں کوئی شکایت نہیں۔۔ لگتا ہے اس بار پنجاب کی حکومت نے بھی کچھ سیکھ لیا ہے۔۔ "

