Tum Ne Sitam Dhaya Jise Tanha Samajh Kar
تم نے ستم ڈھایا جسے تنہا سمجھ کر
حال ہی میں اسلام آباد کے سول جج کے گھر میں کمسن بچی رضوانہ پر بہیمانہ تشدد کا معاملہ سامنے آیا ہے، اس نے قوم کو اضطراب میں مبتلا کردیا ہے۔ ایسا سلوک تو کوئی کافر اپنے پالتو جانور کے ساتھ نہیں کرتا جو اس تیرہ سالہ بچی رضوانہ کے ساتھ کیا گیا اور اس پر مستزاد، جج عاصم حفیظ کی بیوی ملزمہ صومیا کو ضمانت پر رہا کردیا گیا ہے۔
بچی کے جسم پر جا بجا زخموں کے نشان ہیں۔ دونوں بازو فریکچر ہیں۔ انفیکشن سارے جسم میں پھیل گیا ہے اور پھیپھڑے متاثر ہونے کی وجہ سے سانس لینا دشوار ہوگیا ہے۔ بار بار اسے آکسیجن لگائی جاتی ہے اور آئی سی یو میں رکھا جارہا ہے۔ بچی کو زہر دئیے جانے کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ صرف چھ ماہ میں اس بچی کو موت کے منہ تک پہنچا دیا گیا، اس کے پیچھے کیا عوامل ہیں؟
یہ صرف ایک مار تو نہیں بلکہ کئی ماہ کے تشدد کی دردناک کہانی ہے۔ بچی کی والدہ کے بیانات کے مطابق وہ سرگودھا میں جس زمیندار کے گھر کام کاج کرتی تھی، اسی نے بچی کو جج کے گھر ملازمت پر رکھوایا تھا۔ غربت اور تنگ دستی کے مارے غریب لوگ اپنے بچوں کو امیر گھرانوں میں ملازمت دلواتے ہیں، اس امید پر کہ شاید یہاں ہمارے بچے کو پیٹ بھر کھانا ملے گا، شاید بچہ کچھ پڑھ لکھ جاۓ گا، اچھے طور طریقے سیکھے گا لیکن سب سے بڑی غلطی کرتے ہیں کسی غیر پر بھروسہ کرکے۔
رضوانہ کے والدین کے مطابق کبھی کبھار بچی سے فون پر بات کروائی جاتی تھی، بہت مختصر کہ مالکن کو لمبی بات پسند نہیں۔ ایک روز والدین کو اتنا بتایا گیا کہ بچی صحیح طرح کام نہیں کر رہی لہذا وہ اسے آکر لے جائیں اور بس سٹاپ پر چار گھنٹے انتظار کرنے کے بعد جج کی بیوی صومیا نے بچی کو اس حالت میں گاڑی سے اتارا کہ اس کے سر، منہ اور گردن کو کپڑے سے چھپایا گیا تھا اور صرف ایک جملہ کہا "لو سنبھالو اپنا گند" اور پھر گاڑی بھگا کر لے گئی۔
جب ماں نے بچی کا بازو پکڑا تو وہ چیخنے لگی کہ بازو فریکچر تھا، جب کپڑا ہٹایا تو منہ، سر، گردن پر زخم ہی زخم تھے، اور اتنے پرانے کہ کیڑے پڑ گئے تھے۔ بس میں سوار دو ڈاکٹروں نے بچی کا طبی معائنہ کرکے بتایا کہ اس کی حالت تشویشناک ہے، اگر علاج نہ کیا گیا تو یہ زندہ نہ بچے گی اور پھر انھوں نے ہی ایمبولینس بلائی۔ راستہ بھر بچی رو رو کے اپنے اوپر بیتنے والے تشدد کو بیان کرتی رہی۔ اس نے بتایا کہ باجی کے لمبے لمبے ناخن تھے جو وہ سیدھے میری آنکھوں میں گھسیٹ دیتی تھی، چھریوں سے چہرے پر مارتی تھی۔ بلے سے مارتی تھی، حتی کہ میری کمر کے زخم پر مارتی تھی تاکہ میں مزید کام کروں اور پھر زیور چوری کرنے کا الزام لگا کر تشدد کرتی رہی۔ الامان والحفیظ۔
کوئی انسانیت سے کتنا گر سکتا ہے! یہ سب کچھ کئی مہینے ایک جج کے گھر میں ہوتا رہا، جو انصاف کا علمبردار تھا! جس نے دنیا کو جرائم سے نجات دینا تھی، جس نے کئی برس قانون پڑھا تھا!کیا اسے اپنے گھر میں گونجنے والی یہ چیخیں سنائی نہیں دیتی تھیں؟ کیا اس نے اپنی بیوی کے ہسٹیریا کا کبھی نوٹس نہیں لیا تھا؟ اس گھر میں ان کے اپنے بھی تین بچے تھے، کیا انھیں اس بچی میں اپنے بچوں کا بچپن نظر نہیں آیا تھا کبھی؟
سوال اس صومیا سے بھی ہے کہ اس نے یہ ملازمہ بچی کام کے لئے رکھی تھی، نہ کہ خریدی تھی، وہ اسے کیا سمجھ کے مارتی رہی؟ کیا وہ اسے اپنی وحشت اتارنے کا پنچنگ بیگ سمجھتی رہی؟ یا اسے لا وارث سمجھتی رہی؟ اسے کبھی خدا کا خوف نہیں آیا جو سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے؟ اس بچی کی چیخ و پکار اور آنسوؤں نے کبھی اس کے دل کو نہیں دہلایا؟ ایک جانور بھی دوسرے جانور کی تکلیف کو جان لیتا ہے؟ یہ کیسی عورت تھی جو صاحب_ اولاد ہوتے ہوئے بھی ایک جان کو زخمی کرتی رہی اور کبھی اس کے زخموں کا علاج بھی نہیں کروایا؟
تم نے ستم ڈھایا جسے تنہا سمجھ کر
وہ شخص اپنے ساتھ خدا لے کر آۓ گا!
اگر بالفرض بقول جج، اس کی بیوی نفسیاتی مریضہ تھی تو ایسا سلوک اس نے اپنے بچوں کے ساتھ کیوں نہیں کیا؟ اور اگر وہ اتنی خطرناک سائیکو تھی تو پھر اس کو کھلی چھوٹ کیوں دی گئی کہ وہ دوسروں کے ساتھ جو مرضی کرتی رہے اور کوئی دیکھنے والا بھی نہ ہو؟
رضوانہ بچی کی حالت بدستور تشویشناک ہے۔ بارہ ڈاکٹرز کا بورڈ اس کی نگرانی کر رہا ہے(اس بچی کو سرکاری طور پر سکیورٹی بھی دینے کی ضرورت ہے)۔ اس ملزمہ کو ضمانت پر رہائی ملنے سے قوم میں مایوسی کی لہر پھیل گئی ہے۔ یہ ایک ٹیسٹ کیس ہے، اگر لوگوں کا اعتماد عدالتوں سے اٹھ گیا تو پھر وہ اپنے مقدمات کا فیصلہ اپنے طور پر کرلیا کریں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ رضوانہ (جس کے نام کا مطلب ہی جنت کی محافظ ہے) اس کو انصاف دلایا جاۓ، خون کا بدلہ خون ہے۔ بچی کے والدین کو صلح کے لئے ڈرایا دھمکایا بھی جارہا ہے، انھیں تحفظ فراہم کرنا حکومت کی زمہ داری ہے۔ عوام الناس کو اس کیس پر بیدار رہنے کی ضرورت ہے۔ بچی کے زخم بول رہے ہیں:
جس دیس کی کورٹ کچہری میں
انصاف ٹکوں پر بکتا ہو
جس دیس کا منشی قاضی بھی
مجرم سے پوچھ کے لکھتا ہو
جس دیس کے سادہ لوح انساں
وعدوں پہ ہی ٹالے جاتے ہوں
اس دیس کے ہر اک لیڈر پر
سوال اٹھانا واجب ہے!