Syed Abul Ala Maududi
سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ
فرمانِ نبوی ﷺ ہے: "جو علم کے راستے میں چلتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے۔ فرشتے، طالب علم سے خوش ہو کر اس کے لیے اپنے پر بچھا دیتے ہیں، علم (دین) حاصل کرنے والے کے لیے زمین و آسمان کی سبھی چیزیں دعائے خیر کرتی ہیں، حتیٰ کہ پانی میں موجود مچھلیاں بھی۔ عالم کی فضیلت، عبادت گذار پر ویسے ہی ہے جیسے چاند کی فضیلت سبھی ستاروں پر ہے۔ علماء، انبیاء کے وارث ہیں۔ انبیائے کرام نے درہم و دینار وراثت میں نہیں چھوڑے بلکہ انھوں نے وراثت میں علم دین کو چھوڑا ہے۔ جس نے اس حصے کو پالیا، اس نے وافر حصہ پالیا "۔ (مسند احمد، سنن ترمذی، سنن ابی داؤد، سنن ابن ماجہ)۔
اللہ تعالیٰ ہر صدی میں کچھ ایسے علماء کو پیدا فرماتا ہے جو دین کا احیاء کرتے ہیں اس کی تفہیم اور دعوت کا ذریعہ بنتے ہیں۔ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا شمار بھی ان میں ہوتا یے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی 1903ء میں اورنگ آباد دکن میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق سادات گھرانے سے تھا۔ آپ کا خاندان آپ کے اجداد میں سے خواجہ قطب الدین مودود، کے نام پر مودودی کہلایا۔ یہ بزرگ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے شیخ الشیوخ تھے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد صاحب کے زیرِ سایہ گھر پہ حاصل کی۔ بعد ازاں مقامی مدرسہ میں داخل کروا دیا گیا۔
1914ء میں آپ نے مولوی کا امتحان پاس کیا۔ جب آپ کے والدین حیدرآباد منتقل ہوئے تو آپ کو وہاں دارالعلوم میں داخل کروا دیا گیا، اس وقت صدر دارالعلوم مولانا حمید الدین فراہی صاحب تھے، جن کے شاگردوں میں مولانا امین احسن اصلاحی صاحب بھی تھے۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد آپ پہ معاش کی ذمہ داری آن پڑی۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے کسی بات کو احسن انداز میں بیان کرنے اور لکھنے کا ملکہ دیا تھا، آپ کے اندر غوروفکر کی صلاحیت بدرجہ اولیٰ موجود تھی۔ آپ کسی معاملے کو عقل کی کسوٹی پہ پرکھنا بھی خوب جانتے تھے چنانچہ آپ نے صحافت کا شعبہ چنا اور پہلے ایک اخبار "مدینہ" کے مدیر بنے اور پھر جمعیت علمائے ہند کے روزنامہ "الحمیت" کے مدیر رہے لیکن جب جمعیت نے کانگریس میں شمولیت اختیار کی تو آپ احتجاجاً اس ادارت سے مستعفی ہوگئے۔
سید ابوالاعلیٰ نے جس دور میں آنکھ کھولی تھی، اس میں ایک طرف خلافتِ عثمانیہ زوال پذیر تھی، برصغیر کے مسلمان انگریز دورِ حکومت میں غلامی کی زندگی جی رہے تھے، ہر شعبۂ زندگی میں انگریزوں سے مرعوبیت پائی جاتی تھی۔ دین کی تعلیمات کو صرف چند رسومات تک محدود سمجھا جاتا تھا اور دین بطور ایک مکمل ضابطۂ حیات اپنانے کا تصور مدھم پڑ چکا تھا، ان حالات میں آپ نے اپنے قلم کی روشنائی سے اندھیرے میں چراغ جلانے شروع کئے۔ آپ مولانا محمد علی جوہر اور علامہ اقبال سے بھی امت مسلمہ کے بارے میں تبادلۂ خیال کیا کرتے تھے۔ آپ نے تحریک جدوجہد پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
1932ء میں حیدرآباد سے رسالہ "ترجمان القرآن" کا اجراء کیا اور قرآن و سنت کی تعلیمات کو مدلل اور آسان فہم انداز میں پیش کیا۔ جب ہندوؤں اور انگریزوں کے درمیان رہتے ہوئے آئے دن، شعائر اسلام پہ حملے ہونے لگے تو ایک بار دہلی کی جامعہ مسجد میں مولانا محمد علی جوہر نے بڑی دلسوزی سے کہا کہ کاش کوئی ان باتوں کا جواب دے تو مولانا مودودیؒ نے اسی وقت فیصلہ کرلیا کہ میں اسلام کے خلاف اس پروپیگنڈے کا جواب دوں گا چنانچہ پھر آپ نے شہرہء آفاق کتاب "الجہاد فی الاسلام" تصنیف کی۔ اس وقت آپ کی عمر صرف چوبیس سال تھی۔ یہی کتاب علامہ اقبال نے پڑھی تو بے ساختہ فرمایا: "اسلام کے نظریۂ جہاد اور اس کے قانونِ صلح و جنگ پہ یہ ایک بہترین تصنیف ہے اور میں ہر ذی علم آدمی کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اس کا مطالعہ کرے"۔
قائدِ اعظم محمد علی جناح، سید ابوالاعلیٰ مودودی سے صلاح مشورے کیا کرتے تھے۔ ایک بار کسی نے قائد اعظم سے پوچھا کہ مودودی کیسا آدمی ہے تو قائد اعظم نے فرمایا کہ "وہ بہت مخلص، نیک اور قابل شخص ہے۔ پاکستان مسلم لیگ بنائے گی اور جب پاکستان بن جائے گا تو ہمارے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوگا کہ پاکستان کو اسلامی سلطنت کیسے بنائیں۔ سید مودودی اور ان کی جماعت اسلامی، اس وقت کی تیاری کر رہی ہے۔ اس لیے وہ بہت ہی ضروری اور مفید کام کر رہے ہیں"۔
یاد رہے کہ جماعت اسلامی کا قیام 26 اگست 1941ء میں ہوا تھا اور جماعت اس وقت سے اب تک وطنِ عزیز کو اس کی بنیاد "پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الااللہ" کے مطابق تعمیر کرنے کے لیے ہر شعبہ ہائے زندگی میں مصروف عمل ہے۔
قیامِ پاکستان کے بعد ملک کو اسلامی دستور دینے میں جماعت اسلامی کا کلیدی کردار رہا ہے۔ اگر اس وقت آئینِ پاکستان میں حاکمیت اعلیٰ، رب العالمین کی نہ لکھوائی جاتی تو آج یہ وطن اپنا وجود کھو چکا ہوتا۔ مولانا مودودی نے اسلام کو بطور ایک مکمل ضابطۂ حیات ثابت کرنے کے لیے بہت سا علمی اور فکری کام کیا ہے۔ وہ مفسر قرآن بھی ہیں، تفہیم القرآن کو اگر اس صدی کی انقلابی تفسیر کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ مولانا کا تصنیف کردہ لٹریچر مثلاً اسلامی نظام زندگی اور اس کے تصورات، پردہ، حقوق الزوجین، تنقیہات، اسلام اور ضبطِ ولادت، خطبات، سود، تحریکِ آزادئی ہند اور مسلمان، سنت کی آئینی حیثیت، کتاب الصوم، اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی، اسلامی ریاست، دینیات، الجہاد فی الاسلام، دعوت اسلامی اور اس کے مطالبات، قرآن کی چار بنیادی اصلاحات، پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔
قیامِ پاکستان کے بعد جب قادیانیوں نے پھلنا پھولنا شروع کیا سید ابوالاعلیٰ مودودی تحفظِ عقیدۂ ختمِ نبوت کے لیے میدان میں آئے اور "قادیانی مسئلہ" لکھی جس پہ حکومتِ وقت نے ان کو گرفتار کرلیا۔
فوجی عدالت نے انہیں سزائے موت سنائی۔ اس موقع پر آپ نے سچے عاشق رسول ﷺ ہونے کا عملی مظاہرہ کیا، ان سے کہا گیا کہ عدالت میں رحم کی اپیل کریں لیکن سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے رحم کی اپیل کرنے سے انکار کر دیا اور اپنے بیٹے عمر فاروق سے یہ یادگار الفاظ کہے: "بیٹے! ذرا نہ گھبرانا۔ اگر میرے پروردگار نے مجھے اپنے پاس بلانا منظور کرلیا ہے تو بندہ بخوشی اپنے رب سے جا ملے گا اور اگر ابھی اس کا حکم نہیں آیا تو پھر چاہے یہ لوگ الٹے لٹک جائیں، مجھ کو نہیں لٹکا سکتے"۔
اس سزا کے خلاف نہ صرف پاکستان کے عوام نے فقید المثال احتجاج کیا بلکہ دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کے سربراہان نے حکومتِ پاکستان کو خطوط لکھے اور بالآخر حکومت نے مجبور ہو کر سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کردیا اور پھر سید ابوالاعلیٰ مودودی کو رہا کردیا گیا۔
سید ابوالاعلیٰ مودودی کی فکری و عملی کارناموں کی وجہ سے سعودی حکومت نے آپ کو شاہ فیصل ایوارڈ سے بھی نوازا۔ آپ کی تیار کردہ جماعتِ اسلامی، جسے پاکستان کی نظریاتی حدود کی محافظ فوج بھی کہا جاتا ہے، اپنے بے پایاں اخلاص، امتِ مسلمہ کے درد اور اس کے مسائل کے حل کے لیے کوشاں ہے۔ یہ واحد دینی جماعت ہے جس میں ہر طبقۂ فکر سے تعلق رکھنے والا شخص شامل ہوسکتا ہے۔ رضائے الہی کے نصب العین کو حرزِ جاں بنا کے اس کے قائدین سے لے کر کارکنان تک سرزمین پاکستان میں اسلامی نظام کی خاطر جدوجہد میں مصروف ہیں۔ ان کے کردار پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں، ان کی سیرت، امانت و دیانت اور قابلیت کی گواہی ان کے مخالفین بھی دیتے ہیں۔
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے کتابوں کی صورت میں جو علمی ورثہ اور جماعت اسلامی کی صورت میں صدقۂ جاریہ چھوڑا ہے، ہر لحاظ سے قابلِ تحسین ہے۔ اس وقت امیرِ جماعت سراج الحق صاحب کی ہدایت پر جماعت کی ذیلی تنظیم الخدمت فاؤنڈیشن، ملک بھر میں سیلاب زدگان کے لیے امدادی کارروائیوں میں مصروف ہے۔
سید ابوالاعلیٰ مودودی گردوں اور چند دیگر بیماریوں میں مبتلا تھے، آپ کے صاحب زادے جو اس وقت امریکہ میں زیرِ تعلیم تھے، انھوں نے علاج کی غرض سے آپ کو وہاں بلایا لیکن آپ شفایاب نہ ہوسکے اور 22 ستمبر 1979ء کو خالقِ حقیقی کے حضور حاضر ہوگئے۔ جب آپ کا جسدِ خاکی پاکستان پہنچا تو لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں آپ کی نمازِ جنازہ معروف عالم دین اور قطر یونیورسٹی کے وائس چانسلر، صدر اخوان المسلمون شام علامہ یوسف القرضاوی نے پڑھائی۔
خدا کی رحمتیں ہوں آپ پر سو بار مودودی۔