Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ismat Usama
  4. Selab, Qudarti Afat Ya Watar Bomb

Selab, Qudarti Afat Ya Watar Bomb

سیلاب، قدرتی آفت یا واٹر بم؟

پاکستان میں ہر سال مون سون کے موسم میں سیلاب آتے ہیں۔ دریا کنارے کی بستیاں اور دیہات زیرِ آب آجاتے ہیں۔ فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں، جانی اور مالی نقصان ہوتا ہے، مگر اس سال 2025ء کے سیلاب میں انوکھی صورت حال سے پالا پڑ گیا ہے۔ مئی میں ہونے والی پاک بھارت (مع امریکہ اسرائیل) جنگ میں پاکستان بہادر نے جس طرح بہترین دفاعی حکمت عملی اختیار کی، دشمن کے دانت کھٹے کئے اور ہماری ائر فورس نے دنیا بھر کو انگشت بدنداں کردیا اس پر بھارت نے کچھ تو کرنا تھا جو اس نے کیا۔

حالیہ سیلاب بھارت کی آبی جارحیت "معرکہء حق" کی اگلی کڑی ہے۔ بھارت نے سندھ طاس معاہدہ کی پابندی تو کیا کرنی تھی، ایک مکروہ سازش کے تحت پہلے اپنے ڈیموں میں پانی کے ذخائر جمع کئے، ان سے نکلنے والی نہروں کو بند کر دیا اور جب موسلادھار بارشیں برس رہی تھیں، اس نے سپل وے کھول کے سارے جمع شدہ پانی کو واٹر بم بنا کے پاکستان پر دے مارا۔ یہ صرف قیاس آرائی نہیں ہے۔ بھارت کے میجر گورو آریا نے بھارتی میڈیا پر خود بیان کیا ہے کہ پا کستان کو ڈبو کے مار رہے ہیں۔ جب انھیں پانی کی ضرورت ہوتی ہے تو پانی بند کردیتے ہیں اور جب بارشوں کا موسم ہوتا ہے تو سارا پانی ادھر بھیج دیتے ہیں۔

امسال پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے ایک محتاط تخمینے کے مطابق 45 لاکھ آبادی متاثر ہوچکی ہے۔ اگرچہ حکومتی سطح پر کمشنر، ڈپٹی کمشنر، ریسکیو 1122 کے ہمراہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز بھی مصیبت کی گھڑی میں سیلاب متاثرین کی داد رسی کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سی فلاحی تنظیمیں جن میں جماعت اسلامی کی الخدمت فاؤنڈیشن نمایاں ہے، اپنے بل بوتے پر کشتیوں اور لائف جیکٹس کے ذریعے ڈوبتے لوگوں کو بچا رہی ہے۔ خیمہ بستیاں بسا رہی ہے۔ دیگر مذہبی جماعتوں کے کارکنان کی ایک بڑی تعداد اپنے خلوص کی بدولت ایثار وہمدردی کی نئی داستانیں رقم کر رہی ہے۔

فوجی جوان بھی سیلاب زدہ دیہاتوں میں امدادی کاموں میں جانیں کھپا رہے ہیں، بہت سے شہروں کو بچانے کے لئے بند توڑ کے پانی کا رخ بدلا گیا، کئی مقامات پر آرمی ہیلی کاپٹر بھیج کے ڈوبتے انسانوں کو باہر نکالا گیا ہے مگر تباہی کا پیمانہ اتنا بڑا ہے کہ سب قومی اور عوامی وسائل مل کے بھی اسے روک نہیں پارہے۔ بھارت نے کشمیر سے آنے والے دریاؤں سے سیلاب در سیلاب بھیجنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ نو لاکھ کیوسک پانی کا طوفانی ریلا آبادیوں کو تہس نہس کرتا ہوا گزر جاتا ہے کہ وہ اگلا ریلا بھیج دیتا ہے۔ صرف دیہی آبادیاں ہی نہیں بلکہ سیالکوٹ، ملتان، علی پور، مظفر گڑھ، گجرات اور لاہور کے نواحی علاقوں تک سیلاب پہنچ چکا ہے۔

سیلابی پانی کے ساتھ کیڑے اور سانپ بھی بہتے چلے آرہے ہیں۔ خیمہ بستیوں کی صورت حال بھی تسلی بخش نہیں ہے، وہاں خوراک، پینے کے پانی، اشیائے ضروریہ، بستر، برتن اور طبی سامان کی اشد ضرورت ہے۔ مچھروں کی بہتات ہے اور بیماریاں پھیلنے کا اندیشہ ہے۔ خاندان بچھڑ گئے ہیں۔ غریب عوام نے تنکا تنکا جوڑ کے جو گھر بنائے تھے وہ صفحہء ہستی سے مٹ گئے ہیں۔ مال مویشی جو ان کے لئے ذریعہء حیات تھے وہ بھی بہہ گئے ہیں۔ سیلاب نے سمندر کی صورت اختیار کرلی ہے لیکن ایک ضروری کام جو اب تک نہیں کیا گیا ہے، وہ یہ کہ پاکستان بھارت کے واٹر بم کی تباہی کے خلاف عالمی عدالتِ انصاف میں جائے اور مؤثر انداز سے سرکاری سطح پر اپنا مقدمہ لڑے بلکہ اپنے نقصان کا ہرجانہ بھی طلب کرے۔

جس طرح پاکستان نے اقوامِ متحدہ میں اسرائیل کے سامنے مضبوط مؤقف اختیار کیا اور اسرائیل کو پسپائی اختیار کرنی پڑی، اسی طرح عالمی عدالتِ انصاف میں بھی اپنا مقدمہ پوری طاقت سے لڑنے کی ضرورت ہے۔ کچھ سیاسی راہنما یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ پاکستان عالمی برادری سے امداد کی اپیل کرے لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئیے کہ آئی ایم ایف جیسے ادارے جب امداد دیتے ہیں تو بدلے میں اپنی کچھ شرائط بھی منواتے ہیں جن کو قومی مفاد کی کسوٹی پر رکھ کے پرکھنا چاہئیے اور ملکی خودمختاری کو کوئی گزند نہیں پہنچنی چاہئیے۔

آئندہ سالوں میں اس تباہی سے بچنے کے لئے نہ صرف مذید ڈیم بنانے کی ضرورت ہے، دریاؤں سے نہریں نکال کے صحرائی علاقوں میں لے جانے کی ضرورت ہے بلکہ حکومتی سطح پر کوئی موثر حکمت عملی اور پلاننگ بھی کرنے کی ضرورت ہے کہ آئندہ ایسے بحران سے بچا جاسکے، پاکستان ایسے جانی و مالی نقصان کا ہر سال متحمل نہیں ہوسکتا۔ اجتماعی طور پر پوری قوم کو توبہ استغفار کرنا چاہئیے اور ہر علاقائی، لسانی، صوبائی، مسلکی تعصب کو بالائے طاق رکھ کے اپنے پرکھوں کی قربانیوں کے ثمر پاکستان کو بچانے کے لئے متحد ہو کے سرگرم عمل ہونا چاہئیے۔ بقول شاعر:

کون سِدھائے بپھرا پانی، کون اُسارے مٹّی کو
دریاؤں پر پشتے باندھنے والی بانہیں ڈوب گئیں

پانی کا عفریت اچھل کر شہ رگ تک آ پہنچا تھا
بچے جس پر بیٹھے تھے اس پیڑ کی شاخیں ڈوب گئیں

پتھر کوٹنے والے ھاتھوں میں بچوں کے لاشے تھے
شہر کو جانے والی ساری ٹوٹی سڑکیں ڈوب گئیں

بربادی پر گریہ کرنے کی مہلت بھی پاس نہ تھی
آنسو بہنے سے پہلے ہی سب کی آنکھیں ڈوب گئیں!

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan