Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ismat Usama
  4. Saneha Unan, Behri Qabristan

Saneha Unan, Behri Qabristan

سانحہء یونان، بحری قبرستان

14 جون کی خبر کے مطابق، یونان کے قریب کشتی الٹنے سے تقریباً 3 سو پاکستانی جاں بحق ہوگئے۔ کشتی میں سوار افراد کی کل تعداد ساڑھے سات سو تھی جن میں سے چار سو پاکستانی تھے جو روزگار کی تلاش میں غیر قانونی راستے سے یورپ جا رہے تھے۔ یہ محض ایک خبر نہیں، ایک سانحہ ہے، ایک المیہ ہے۔ مستقبل کی خاطر کسی نے گھر بیچا، کسی نے زمین، کسی نے ماں کا زیور بیچا اور کسی نے قرض لیا اپنی جان کی بازی لگا دی، اس مستقبل کی خاطر جو کسی نے دیکھا نہ تھا۔

بقول شاعر:

~ کوئی تو سانحہ گزرا ہے اس پرندے پر

کہ آدھی رات کو جو گھونسلے سے باہر ہے۔

ایک سروے کے مطابق، پاکستانی عوام کی اکثریت، خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ پینے کے لئے صاف پانی میسر نہیں ہے، کروڑوں بچے غربت کی وجہ سے اسکول جانے سے محروم ہیں، کوئی بیمار ہو تو اس کا علاج کروانے کی استطاعت نہیں، ڈاکٹروں کی فیس ادا کریں یا ٹیسٹوں کے پیسے بھریں، جو لوگ کرایہ کے گھروں میں رہائش پذیر ہیں، ان کے لئے ہر ماہ یہ رقم ادا کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ گیس، پانی، بجلی کے بل آسمان سے باتیں کر رہے ہیں، پہلے ایک سال میں ایک بجٹ آیا کرتا تھا، اب ایک ماہ میں کئی بار قیمتوں میں اضافہ کر دیا جاتا ہے۔

گزشتہ تیس برس کے دوران ریاستی قرضوں میں سود کی وجہ سے کئی گنا اضافہ ہوا ہے لیکن نجانے یہ قرضے کہاں خرچ کئے گئے ہیں کہ عوام کی حالت زار مزید خراب ہوگئی ہے۔ روزگار کے مواقع نہ ہونے کے باعث لوگوں کے لئے دو وقت کی روٹی کا انتظام مشکل ہوگیا ہے۔ مرد حضرات اسی لئے ذہنی دباؤ کے شکار ہیں کہ اپنے گھرانے کی ضروریات کیسے پوری کریں لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ملکی اشرافیہ اور سرکاری وزیروں اور مشیروں کے پروٹوکول اور مراعات کی مد میں روز افزوں اضافے کئے جا رہے ہیں جو غریب عوام کے ساتھ خوفناک مذاق کے مترادف ہے۔

عالمی سطح پر پھیلے ہوئے انسانی اسمگلروں نے، جن کا نیٹ ورک ہر ملک میں پھیلا ہوا ہے، اس صورت حال سے ناجائز فائدہ اٹھایا ہے اور فرسٹریشن میں مبتلاء نوجوان بچوں کو جن کی عمریں زیادہ تر اٹھارہ سے پچیس سال ہیں، یورپ لے جانے کے سبز باغ دکھا کر اپنے جال میں پھنسا لیا، اطلاعات کے مطابق ایجنٹوں نے ہر فرد سے بیس لاکھ سے پینتالیس لاکھ تک وصول کئے اور غریب طبقے کے بچوں کو گہرے سمندروں میں غرق ہونے کے لئے بھیج دیا۔

جو بارہ پاکستانی زندہ بچ سکے، ان کا بیان ہے کہ ایجنٹوں نے انہیں بتایا تو یہ تھا کہ انہیں بڑے بحری جہازوں میں اٹلی بھیجا جاۓ گا، کچھ افراد کو پاکستان سے دبئ اور کچھ کو دیگر ممالک کے راستوں سے لیبیا پہنچایا گیا۔ ہجرت کرنے والے افراد پانچ سے آٹھ ماہ پہلے وطن سے روانہ ہوئے اور مختلف ممالک سے ہوتے ہوئے لیبیا پہنچے جہاں مصر، شام، پاکستان اور دیگر ممالک کے مہاجرین کی بڑی تعداد کو جمع کیا گیا تھا۔

قیامت تو یہ ہے کہ لیبیا کے ساحل سے انہیں چھوٹی کشتیوں میں سوار کروا کے گہرے پانی میں کھڑی بڑی کشتی میں سوار کروا دیا گیا جو مچھیروں کے لئے ماہی گیری کے کام آتی تھی، اس کٹھن وقت میں جب پاکستانی شہریوں نے بحری جہاز کی بجائے چھوٹی کشتی کو دیکھا تو پریشان ہوگئے لیکن ان کے آگے پیچھے پانی تھا، نہ وہ واپس جا سکتے تھے، نہ کچھ کر سکتے تھے۔ یہ کشتی پرانی تھی اور اس میں گنجائش سے کئی گنا زیادہ افراد ٹھونس دئیے گئے تھے۔

سمندر میں سفر کے تین دن بعد ہی اس کا انجن بند ہوگیا اور کشتی رک گئی، پھر عملے میں سے کسی نے انجن کی کچھ مرمت کی اور چل پڑی، پھر کچھ سفر کے بعد انجن دوبارہ خراب ہوگیا۔ عورتوں اور بچوں کو کیبن میں رکھا گیا تھا جہاں عموماً سامان رکھا جاتا ہے۔ کشتی کا عملہ پاکستانی قومیت کے افراد کے ساتھ بہت برا سلوک کرتا تھا، انہیں بالکل نچلے حصے میں رکھا گیا تھا، نچلے حصے سے اوپر آنے کی اجازت نہیں تھی، اگر کوئی اوپر آنے کی کوشش کرتا تو اسے زدو کوب کیا جاتا۔

چھ سات دن سے خوراک اور پانی کی شدید قلت تھی۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق کشتی ڈوبنے سے پہلے سات گھنٹے تک ایک ہی جگہ ساکت رہی، اس دوران چھ افراد پانی نہ ملنے کے سبب جان کی بازی ہار گئے۔ یونان کے ساحل کے قریب یہ مقام گہرے پانی کی وجہ سے " کنواں" کہلاتا ہے، یہاں کوسٹ گارڈز موجود تھے لیکن وہ لوگوں کی چیخ و پکار سن کر بھی ان کی مدد کو نہ پہنچے۔ قریب سے ایک اور بحری جہاز گزرا جس سے اس کشتی کے افراد نے منت سماجت کرکے پینے کا پانی حاصل کیا لیکن یہ پانی مصریوں نے لے لیا اور پاکستانیوں کو نہ دیا، اس پر جھگڑا ہوا اور پھر کچھ پانی پاکستانیوں کو مل گیا۔

یونانی حکومت نے اس کشتی کے سینکڑوں افراد کی جانیں بچانے میں کوئی دلچسپی نہ لی، نہ کوئی بحری جہاز بھیجا جو انسانیت کے ناطے ان سواریوں کو بچا لیتا۔ کشتی کے سواروں نے یونانی کوسٹ گارڈز سے کئی بار مدد کی اپیلیں کیں تو انہوں نے ایک چھوٹی کشتی بھیج کر رسی سے اس کشتی کو بائیں جانب کھینچا جس کی وجہ سے یہ کشتی بائیں جانب الٹ گئی اور انسانوں کی بڑی تعداد گہرے پانیوں میں غرقاب ہوگئی۔

عینی شاہدین کے مطابق ریسکیو کے لئے جو ہیلی کاپٹر بھیجے گئے وہ تین گھنٹے تک صرف فضا میں پروازیں کرتے رہے، اس دوران سینکڑوں لوگ جو پہلے ہی بھوک پیاس سے جاں بلب، پانیوں میں ہاتھ پاؤں مار رہے تھے، وہ جان کی بازی ہار گئے۔ وہ سینکڑوں لاشیں جو یونان کے ساحل پر بے گوروکفن پڑی ہیں وہ ریاستی بے حسی کے نوحے ہیں، وہ ہمارے مستقبل کی شام کربلاء ہے۔

حکومتِ پاکستان کا فرض بنتا ہے کہ اپنے شہریوں کی خاطر آواز اٹھاۓ اور یہ معاملہ عالمی عدالتِ انصاف میں لے جاۓ اور پاکستان کا مقدمہ لڑے۔ حکومت کو ایک بڑا آپریشن ملک کے اندر موجود انسانی اسمگلروں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف کرنا لازم ہے۔ یہ کوئی پہلا سانحہ تو نہیں ہے، اس سے پہلے بھی ایسے کئی سانحات وقوع پذیر ہوۓ ہیں۔ ان انسانی اسمگلروں کو، انسانیت کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہروں میں کھڑا کیا جاۓ تاکہ دوبارہ ایسے سانحات سے بچا جا سکے۔

حکومت پاکستان کا دوسرا سفارتی احتجاج، حکومتِ مصر سے بنتا ہے، کیوں کہ ڈوبنے والی کشتی کا مالک ایک مصری شخص تھا، اتنے زیادہ افراد کو چھوٹی سی کشتی پر کیوں ٹھونسا گیا؟ خصوصاََ پاکستانیوں کو کشتی کے نچلے حصے میں رہنے پر مجبور کیوں کیا گیا؟ ان کے ساتھ تذلیل آمیز سلوک کیوں کیا گیا؟ پاکستان نے مصر کا کیا بگاڑا تھا؟

پاکستان کی وزارتِ خارجہ کی کارکردگی اور وجود پر بھی یہ سانحہ، سوالیہ نشان ہے۔ کیا وجہ ہے کہ بیرونِ ملک، پاکستان کے تشخص کو پامال کیا جا رہا ہے؟ گرین پاسپورٹ کا وقار کیوں باقی نہیں رہا؟ دوسری قومیتوں کے درمیان پاکستانی قوم کو انسان کا درجہ بھی نہیں دیا جاتا؟ کیوں، آخر کیوں؟

آخر میں اپنے پیارے پاکستانیوں سے گزارش ہے کہ اے میری سخت جان قوم، سادہ زندگی گزار لو، کھیتی باڑی کر لو، رکشہ ٹیکسی چلا لو، گھریلو صنعت لگا لو، دکان ڈال لو، برگر پوائنٹ بنا لو مگر خدارا اس پیارے وطن کو چھوڑ کے نہ جاؤ، در در کی ٹھوکروں سے بہتر ہے کہ اپنے وطن کی سوکھی روٹی کھالو، رزق تو رب العالمین کے ذمے ہے، وہ ادھر بھی آپ کو دے گا، اس کی رحمت سے ناامید نہ ہو جاؤ۔ باہر کی دنیا بڑی خوف ناک ہے، گھونسلے سے گرے ہوئے چوزوں کو دنیا پاؤں تلے کچل دیتی ہے۔

غربت کی ٹھنڈی چھاؤں میں یاد آئی اس کی دھوپ

قدر، وطن کی ہوئی ہمیں ترکِ وطن کے بعد۔

Check Also

Nakara System Aur Jhuggi Ki Doctor

By Mubashir Aziz