Qous O Qazah Ya Behre Murdar?
قوس و قزح یا بحیرہءمردار؟
ٹریفک سگنل پہ گاڑی رکی تو شیشے سے باہر ایک خواجہ سرا نے آواز لگائی، اپنے بچوں کا صدقہ دے جاؤ- اس کی آواز میں نہ جانے کیا تھا کہ میں نے بے اختیار بیگ سے کچھ روپے نکال کر اسے پکڑا دئیے۔ ایک لمحہ کے لئے ذہن یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ ان تیسری جنس والوں کی بھی کیا زندگی ہے، انتہائی کرب ناک۔ ان کے والدین پہ کیا بیتتی ہوگی جب وہ معاشرے کے مذاق اور تمسخر کا نشانہ بنتے ہوں گے۔ ان بچوں کو دنیا سے چھپاتے ہوں گے مگر کب تک؟
سننے میں آیا ہے کہ تیسی جنس سے تعلق رکھنے والے بچے جب بڑے ہوتے ہیں تو ان کو گرو لے جاتے ہیں اور پھر ایک کرب ناک غلامی کی زندگی ہوتی ہے۔ ان کو انسان ہوتے ہوئے بھی انسان نہیں سمجھا جاتا۔ کبھی ان سے خوشی کے موقع پر رقص کروایا جاتا تھا، اب ان سے سڑکوں پر بھیک منگوائی جاتی ہے۔ ان کی کمائی کا بیشتر حصہ گرو کے پاس چلا جاتا ہے۔ اف! انسان پر انسان کی حاکمیت کی بدترین صورت ہے۔ ان کے لئے خود کو زندہ رکھنے کی خاطر سخت جدوجہد کرنا پڑتی ہے کیوں کہ یہ دنیا میں ہوتے ہوئے بھی، دنیا کا حصہ نہیں ہوتے۔ ویسے اگر تصویر کا دوسرا رخ دیکھیں تو عقل و شعور یا جسمانی صلاحیتوں کے لحاظ سے یہ دوسرے انسانوں جیسے ہی ہوتے ہیں، اگر ان کو تعلیم و تربیت دی جائے یا کوئ ہنر سکھادیا جاۓ تو یہ رزقِ حلال کماکر اپنی زندگی اچھے انداز سے گزار سکتے ہیں۔
کسی سٹور، فیکٹری یا ادارے میں کام کرسکتے ہیں۔ ان خواجہ سراؤں کو انسانیت کے ناطے، معاشرے میں باعزت روزگار کمانے کے مواقع ملنے چاہئیں اور اس کے لئے سب سے زیادہ ذمہ داری حکومت کی بنتی ہے کہ وہ ایسے افراد کے لئے ملازمتیں اور روزگار کے مواقع فراہم کرے۔ کہا جاتا ہے کہ سعودی حکومت نے روضہء رسول کی صفائی کے لئے بھی ایک خواجہ سرا کو مقرر کیا ہواہے۔ جن سنہری جالیوں کے اندر کوئی نہیں جاسکتا، وہاں اس کی رسائی ہے۔
ربِ کائنات نے دنیا کسی اصول کے تحت بنائی ہے، یہاں ہر مرحلہ ایک امتحان ہے۔ کسی کو عطا کرکے آزمایا جاتا ہے، کسی کو محروم رکھ کر آزمایا جاتا ہے۔ امتحان یہی ہے کہ حکمِ الہی کے آگے سر جھکاتے ہو یا نہیں۔ جب انسان اپنا فرض پورا نہیں کرتا تو پھر شیطان سے ہار جاتا ہے۔ جب نیکی کی قوتیں غفلت میں پڑی رہتی ہیں تو روۓ زمین پر فساد برپا ہو جاتا ہے۔ فی الوقت یہی فساد LGBTQ کی صورت میں برپا کردیا گیا ہے۔ ہم جنس پرستی کی یہ غلیظ تحریک یورپ میں چلی تھی اور اب اس گندگی کو پوری دنیا پہ مسلط کیا جارہا ہے جس میں اول نشانہ، اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔
2018ء میں پاکستان کی پارلیمنٹ نے ٹرانس جینڈر لاء پاس کیا جس میں تیسری جنس کے حقوق کے نام پہ دھوکا دے کر ہم جنس پرستی کی راہ ہموار کی گئی۔ اس وقت جماعتِ اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان صاحب نے اس کی مخالفت میں آواز اٹھائی کیوں کہ آئین پاکستان کی رو سے کوئی ایسا بل جو قرآن و سنت کے احکامات کے متضاد ہو، اسے پاس نہیں کیا جاسکتا لیکن پی ٹی آئی کی منسٹر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے کھل کر اس قانون کی حمایت کی اور سینیٹر مشتاق احمد خان کا یہ مطالبہ بھی رد کردیا کہ میڈیکل بورڈ جنس کا تعین کرے گا۔
ٹرانس جینڈر سے مراد صرف ایسے لوگ ہیں جو میڈیکل کی بنیاد پر نہیں بلکہ خواہش کی بنیاد پر اپنی جنس تبدیل کرتے ہیں یا خود اپنی جنس کو اصل کی بجائے کچھ اور ظاہر کرتے ہیں۔ اس کا اطلاق ان پہ نہیں ہوتا جو پیدائشی نقص رکھتے ہیں، انھیں intersex یا خواجہ سرا کہا جاتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ مغربی آقاؤں کے کہنے پر اس قانون کو ظاہر کچھ اور کیا جارہا ہے جب کہ اس کی اصلیت انتہائی خوف ناک ہے۔ اس ٹرانس جینڈر لاء کے پاس ہونے کے بعد کوئی مرد اگر نادرا کے آفس میں جاکے کہہ دے کہ میں عورت ہوں تو نادرا کی طرف سے اس کے شناختی کارڈ پر اسے عورت لکھ دیا جائے گا، اب وہ آزاد ہوگا کہ وہ مرد ہوکے فیمیل واش روم میں چلا جائے یا خود کو عورت ظاہر کرکے کسی دوسرے مرد سے شادی کرلے جو ہم جنس پرستی کی قانونی شکل ہوگی۔
اس ٹرانس جینڈر لاء کی وجہ سے اگر کوئی عورت اپنے شوہر کی وفات کے بعد خود کو مرد کہہ دے تو وہ عدت کی پابندیوں سے چھوٹ جائے گی۔ اگر باپ کی وفات کے بعد بیٹی خود کو بیٹا ثابت کردے تو وارث مجبور ہوں گے کہ اسے ایک کی بجائے دو حصے وراثت میں دیں۔ اس طرح ٹرانس جینڈر لاء کی زد ہمارے نکاح کے نظام پر، وراثت کے نظام پر، تمدن کے نظام پر بھی پڑتی ہے اور خاندان کے ادارے پر بھی۔ قوم میں اس قانون کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ قرآن پاک میں ایسی قوم کا ذکر آیا ہے جو اردن اور فلسطین کے درمیان ایک مقام "سدوم" پر آباد تھی اور رب العالمین نے انھیں خوب صورتی اور خوش حالی دونوں نعمتوں سے نوازا تھا لیکن بجاۓ اس کے کہ یہ شکر گزار ہوتی، اس نے نافرمانی اور اخلاقی گراوٹ میں گرنا پسند کیا۔ قرآن پاک میں ہمیں اس قوم کے بارے میں آگاہ کیا گیا ہے:
"اور ہم نے لوط کو بھیجا جب کہ اس نے اپنی قوم سے کہا، تم تو وہ فحش کام کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا والوں میں سے کسی نے نہیں کیا۔ کیا تمہارا حال یہ ہے کہ)عورتوں کی بجائے (مردوں کے پاس جاتے ہو اور رہزنی کرتے ہو اور اپنی مجلسوں میں برے کام کرتے ہو؟ پھر کوئی جواب اس کی قوم کے پاس اس کے سوا نہ تھا کہ انھوں نے کہا، لے آ، اللہ کا عذاب اگر تو سچا ہے۔ لوطؑ نے کہا، اے میرے رب ان مفسد لوگوں کے مقابلے میں میری مدد فرما۔ سورہ العنکبوت، آیت 28 تا 30۔
قومِ لوطؑ پہ عذاب آنے سے قبل بھی ان کو حضرت لوطؑ کے ذریعے کئی برس سمجھایا گیا تھا لیکن کسی طرح یہ قوم نہ مانی تو پھر اس قوم پہ ایسا خوف ناک عذاب آیا کہ پوری قوم کو زمین سمیت اٹھا کے آسمان کی بلندیوں پر لے جایا گیا اور پھر الٹا کر نیچے گرایا گیا، اس کے بعد ان پر پتھروں کی بارش کی گئی۔ اب اس مقام پر بحیرہء مردار Dead sea ہے جس میں کوئی مچھلی زندہ نہیں رہ سکتی۔ LGBTQ یعنی ہم جنس پرستی کی تنظیم جس کی علامت قوس قزح کے رنگ ہیں، دراصل انسانیت کو بحیرہء مردار میں غرق کردیتی ہے۔
ہم جنس پرستی ایسا جرم ہے جس کی اسلام میں سزا قتل ہے۔ احادیث میں کہیں یہ الفاظ ہیں کہ فاعل اور مفعول کو قتل کردو، کہیں اتنا اضافہ ہے کہ خواہ وہ شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ۔ حضرت علیؑ کی رائے تھی کہ مجرم کو تلوار سے قتل کیا جائے اور اس کی لاش جلادی جاۓ۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے بھی اس راۓ سے اتفاق کیا تھا۔ حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت عثمانؓ کی رائے یہ تھی کہ کسی بوسیدہ عمارت کے نیچے کھڑا کرکے وہ عمارت ان پر گرادی جاۓ۔ حضرت ابنِ عباسؓ کا فتویٰ یہ تھا کہ بستی کی سب سے اونچی عمارت پر سے ان کو سر کے بل پھینک دیا جائے اور اوپر سے پتھر برسائے جائیں۔ بحوالہ تفہیم القرآن، سورہء الاعراف۔ اس قوم کے بارے میں واقعات جاننے کے لئے سورہء العنکبوت اور سورہء الاعراف کو ترجمہ کے ساتھ پڑھیں۔
ٹرانس جینڈر لاء نہ صرف ہمارے گھر، خاندان اور عائلی قوانین کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے بلکہ عذابِ الٰہی کو مذید دعوت دینے کے مترادف ہے۔ پہلے ہی ملک سیلابوں ں اور عذابوں کی زد میں ہے۔ علمائے کرام، اساتذہ اور معاشرے کے باشعور طبقے کو اس کے خلاف زور دار آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے۔
خوفِ خداۓ پاک، دلوں سے نکل گیا
آنکھوں سے شرم، سرورِ کون و مکاں گئی
ہے بکھرنے کو یہ محفلِ رنگ و بو
تم کہاں جاؤ گے، ہم کہاں جائیں گے؟